ہارون بلور کی شہادت


پشاور کے بلور خاندان کا ایک اور چشم وچراغ گُل ہوگیا۔ دہشت گردوں نے چند برس قبل ان کے والد، ایک جہاندیدہ سیاستدان بشیر بلور کو شہید کیا تھا۔ رواں الیکشن مہم میں امن وامان کی صورت حال نہ صرف بہت بہتر تھی بلکہ سیاستدانوں یا سیاسی پارٹیوں کو دھمکانے والے بھی غائب تھے۔

خیبر پختون خوا میں امن کی بحالی میں پولیس کی کارکردگی کو ملک کے طول وعرض میں سراہاجاتارہاہے۔امید تھی کہ وہ پرامن الیکشن کرانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ حریفوں کو یہ گوارہ نہیں کہ پاکستان میں پرامن الیکشن کا انعقاد ہو۔

چنانچہ انہوں نے ہارون بلور کو ہدف بنایا۔وہ ایک آسان ہدف بھی تھے کہ پشاور شہر میں دن رات گلی محلوں میں جاکر اپنی مہم چلارہے تھے۔جہاں دہشت گردوں کے لیے پناہ حاصل کرنا نسبتاً آسان ہوتاہے۔ طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف بلور خاندان چٹان کی طرح ڈٹا رہا۔ مشکل ترین حالات میں بھی اس خاندان نے طالبان اور انتہاپسندوں کے نظریات کے تئیں ذرا بھر لچک نہ دکھائی۔

بڑی سیاسی جماعتیں اور جغاداری سیاستدان مذاکرات اور کبھی مفاہمت کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے، دوٹوک نقطہ نظر اختیار کرنے سے کتراتے لیکن بلور خاندان کے پائے استقامت میں کبھی کوئی لغزش نہ آئی۔ ہارون بلور کے فرزند نے غم اور سوگ کے موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے شہید والد اور دادا کا مشن جاری رکھے گا ۔ ظالم‘خواہ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اس کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔

اس نوجوان کے اس عزم نے ملک بھر میں حیرت اور سرشاری کی ایک لہر دوڑا دی ہے کہ یا رب ایسی چنگاری بھی اپنے خاکستر میںتھی ۔پاکستان کو ایسے ہی بہادر اور جری فرزندوں کی ضرورت ہے جو راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے چیلنج اور آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔

دہشت گردوں کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستانیوں کا حوصلہ توڑ دیں۔ نفسیاتی طور پرانہیں کمزور کردیںتاکہ وہ مقابلے کی جرأت ہی نہ کرپائیں۔ آج کے زمانے میں نفسیاتی جنگ کے ماہرین کی مانگ اور اہمیت حربی اور تزویراتی ماہرین سے کئی گنا زیادہ ہے۔ نفسیاتی جنگ کے ماہرین بغیر لڑے اور مالی وسائل کے استعمال کے بغیر جنگ جیتنے کے ہنر سکھاتے ہیں۔

وہ ان ایشوز کی نشاندہی کرتے ہیں جو قوم یا ملک کو داخلی خلفشار کا شکار کرسکتے ہیں۔ شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرسکتے ہیں۔ عصر حاضر میں کم ہی کوئی ملک دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کرتاہے ۔عالمی قوانین اور حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔

اس کے برعکس کوئی ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجاتاہے تو پھر امن یا جمہوریت قائم کرنے کے نام پر استعماری طاقتیں دخل اندازی کا موقع اور جواز نکال لیتی ہیں۔ پاکستان بھی آج کل کچھ ایسی ہی صور ت حال سے دوچار ہے۔داخلی سیاسی تقسیم بہت گہری اور نمایاں ہوچکی ہے۔ دو سیاسی اور فکری بیانیوں کا ٹکراؤاپنے عروج پر ہے۔

شریف خاندان نے کرپشن کے الزامات اور عدالتی فیصلے کو بڑی مہارت کے ساتھ سویلین بالادستی کی لڑائی کا عنوان دیا۔ اتفاق کہیے یا پھر تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کی بدتدبیری کہ معاشرے کے فعال طبقات کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس بیانیہ کو بلاکم وکاست قبول کرلیا۔

وہ عناصر جنہیں اسٹیبلشمنٹ سے جائز شکایات تھیں یا پھر کسی وجہ سے ‘ وہ سب کے سب نوازشریف کی کشتی کے سوار ہیں۔ انہیں یہ احساس ہے کہ الیکشن میں ’’ فیئر پلے‘‘ نہیں ہورہا۔ پیپلزپارٹی اگرچہ ملک کی بڑی پارٹی ہے لیکن اسے قابل ذکر میڈیا کوریج نہیں مل رہی۔بسااوقات ایسا لگتاہے کہ وہ الیکشن کے میدان میں ہیں ہی نہیں۔

متحدہ مجلس عمل کے ساتھ سب سے دلچسپ کھیل کھیلا جارہاہے۔ ان کے جلسے اور اجتماعات حاضری کے اعتبار سے کسی دوسری جماعت سے کم نہیں لیکن میڈیا کوریج کے مطابق وہ مقابلے میں کئی بھی نہیں۔ غالب امکان ہے کہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کے بعد دوسری بڑی جماعت متحدہ مجلس عمل بن کر ابھرسکتی ہے۔ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس کا ووٹ بینک پایاجاتاہے۔

متحدہ مجلس عمل کی لیڈر شپ کا خیال ہے کہ اس کے ساتھ ایک منصوبے کے تحت میڈیا زیادتی کررہاہے تاکہ اسے کھیل سے ہی باہر رکھاجاسکے۔ جو سیاسی منظرنامہ ابھر رہاہے وہ کافی مایوس کن اور خطرناک نظر آتاہے۔الیکشن کا عمل ایک مقدس کام ہے جسے متنازعہ بنانے والے ایک سنگین جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔سیاسی جماعتوںکو الیکشن میں یکساں موقع ملنا ان کا آئینی حق ہے نہ کہ کوئی رعایت۔

نوازشریف اور مریم نواز جس طرح عسکری اداروں کو سیاست میں نام لے لے کر گھسیٹ رہے ہیں وہ کوئی معقول طرزعمل نہیں۔ حاضرسروس افسران کے نام لے کر قوم کو بتایاجارہاہے کہ یہ افراد سیاسی معاملات کو اپنے ڈھب پر چلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ماضی میں بھی ایسی بدمزگی پیدا ہوتی رہی ہے ۔خاص کر پیپلزپارٹی یہ الزام لگاتی تھی لیکن جس سطح پر اس مرتبہ نون لیگ الزامات کو لے گئی ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ طرزعمل خود نون لیگ کے مفا د میں بھی نہیں ۔ جناب آصف غفور نے فوج کے ترجمان کے طور پران الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ الیکشن کے بعد دم توڑ جائے گا۔

اس کے برعکس میرا خیال یہ ہے کہ الیکشن کے بعد یہ سلسلہ مزید طول پکڑے گا۔جو جماعتیں اقتدار میں شراکت دار نہیں ہوں گی وہ سب کی سب دھاندلی کے الزامات لگائیں گی اور نئی حکومت کا جینا دوبھر کردیں گی۔اس طرح ملک سیاسی اور معاشی طور پر مزید عدم استحکام کا شکارہوگا۔

پہلے ہی خزانہ خالی ہے ۔نئی حکومت کے پاس عالمی مالیاتی اداروں سے فوری طورپر قرض لیے بغیر روزمرہ کا نظام چلانا بھی ممکن نہ ہوگا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ الیکشن کو’’ فیئر پلے ‘‘بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

شہباز شریف کی بھاگ دوڑ اپنی جگہ لیکن نوازشریف کے بغیر نون لیگ کی حیثیت ایک مردہ گھوڑے جیسی ہے ۔جس کے تما م اعضاسلامت ہیں لیکن ان میں زندگی کی رمق ہے نہ روح۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood