میں، قاضی اور کولاج


ایک ذلت آمیز آپ بیتی کا خلاصہ

پہلے میں نالائق اور کم علم ہوا کرتا تھا، اب کوتاہ فہم اور قلیل اندیش بھی ہوں۔ بہا الدین ذکریا یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں زندگی کے تین قیمتی سال اساتذہ سے بحث و مباحثہ کرتے ہی گزار دیے۔ جھولی پھیلا دی ہوتی تو علم کی دولت سے مالا مال ہو جاتا۔ میں مگر منہ پھاڑ کر سوال داغتا رہا، جو اب سننے اور سمجھنے کی زحمت نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رپورٹنگ کو ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر پڑھنے کے باوجود اس کی بنیادی نزاکتوں سے نابلد رہا۔

صحافت کی بوالعجیوں سے گبھرا کر ادب کی گود میں پناہ ڈھونڈی۔ متعدد جلیل القدر ہستیوں کا قرب حاصل رہا۔ ایک دیرینہ اور مخلص دوست کی ہدایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خاموشی کے پردے میں چھپنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اپنی جہالت سمیت پکڑا گیا۔ اہل دانش نے بھی رواداری کے تقاضوں کو خوب نبھایا۔ بجائے اس کے مجھے راندۂ درگاہ کر دیتے، صاحبانِ حال وقال، اصلاحِ احوال پر تُل گئے۔ خاکسار فنی اور فکری ارتقاء کی منازل کیا خاک طے کرتا، طبیعت میں رومان کی جو ایک رمق تھی سو وہ بھی نہ رہی اور اب یہ عالم ہے کہ ادبی اور صحافتی فکری مغالطوں کے و ائرس، یا جوج ماجوج کی طرح میرے ذہن کی دیواروں کو چاٹتے رہتے ہیں۔

صحافت اور فنِ رپورٹنگ

صحافت کی بنیادی اکائی کو خبر کہتے ہیں۔ خبر ایک ایسی موذی شے کا نام ہے جو اپنا دائرہ کار پھیلانے پربضد ہو جائے تو چہار سمتی کتھا بن جاتی ہے اور اگر اپنے مرکزے سے جڑے رہنے پر اصرارکرے تو محض معلومات، تفریح اور ترغیب کا ملغوبہ قرار پاتی ہے۔ ایک خبر اس وقت تک خبر نہیں کہلاتی جب تک وہ چھپ نہ جائے اور خبر چھپنے کے لیے جو لوازمات لازم و ملزوم ہیں ان میں سرفہرست یہ ہے کہ اگر کسی کتے نے آدمی کو کاٹ لیا تو وہ بھی جواباً کتے کو کاٹ کھائے ( ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز )۔

معمولی باتوں کو نظر انداز کر دینا اور غیر معمولی باتوں کو فوکس کرنا خبر کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ اخلاقیات کی رو سے ایک خبر کو حقیقی، معروضی اور تازہ ہونا چاہیے نیز وہ عام فہم اور سادہ زبان کی حامل بھی ہو۔ ملحوظِ خاطر رہے کہ اگر زبان چٹ پٹی، بازاری اور حقائق مسخ شدہ اور من گھڑت ہوں تو خبر بوکھلا کر افواہ اور صحافت بِھنّا کر زرد صحافت ہو جاتی ہے۔

خبر کو تلاش کرنا اور اُسے مناسب انداز اور موزوں الفاظ میں بیان کرنے کا فن رپورٹنگ کہلاتا ہے۔ رپورٹر کو چست، چالاک، قوت مشاہدہ سے لبریز، زبان کی اغلاط سے پاک، گرامر کے ہتھیار سے لیس اور تعلقات عامہ کی دولت سے مملو ہونا چاہیے (بابائے صحافت مرحوم کریم ملک کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ رپورٹر کو امیر اور اصیل بھی ہونا چاہیے )۔

صحافت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر اس کی اطلاقیات پر عمل کیا جائے تو اس کی اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے اور اگر اس کی اخلاقیات کا عَلم بلند کیا جائے تو اخبار کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اطلاقی تعریف کی رو سے ایک خبر کو اچھوتا اور انوکھا ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے مطلوبہ قاری کے دماغ میں حیرت کو جنم دے سکے اور حیرت کا عنصر پیدا کرنے کے لیے لامحا لہ سنسنی خیز اور ڈرامائی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے (جو صحافتی اخلاقیات کی واضح روگردانی ہے)۔

فنِ صحافت دراصل تضادات کا ایسا کوہِ ہمالیہ ہے جہاں ایک طرف خبر کو معلوماتی، تفریحی اور ترغیباتی ہونے کا حکم دیا جاتا ہے تو دوسری طر ف اسے معروضیت کی پٹیاں بھی پڑھائی جاتی ہیں اور ترغیب ایک ایسی چیز ہے جو چوں چوں کا مربہ یا ٹنڈوآدم کی سجّی تو ہو سکتی ہے، معروضی ہرگز نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالآخر یہ تمام فکری ابہامات رپورٹنگ کو ایک ایسی اندھی کھائی میں دھکیل دیتے ہیں جہاں اِس کا اکہرا پن اپنے قاری کو تخیل، تخلیق اور تجزیے سے عاری کر دیتا ہے۔ تبھی تو آسکروائلڈ نے کہا تھا۔
“Journalism is not readable literature is not read “

کولاج کہانی

2008 ء کی بات ہے۔
جولائی کی ایک حبس زدہ شام رات کے آنگن میں کود نے کو تیار بیٹھی تھی۔
گول باغ کا ایک سنسان گوشہ، سکھویندر سنگھ کی مخمور آواز اور گلزار کی لہر یے بناتی، بل کھاتی شاعری۔
”جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں، پاؤں کے نیچے جنت ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور مدھر ملک سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔

” اے نیئر! ۔ ۔ ۔ ۔ ابے فورم کا سیکرٹری تو نہیں بنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بنا ہوں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھا کیا؟ ‘‘
میں بھی خوش ہوں مگر خاموش ہوں (گلزار کے بولوں کا نشہ اترا نہیں شاید )۔
” اورہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بات کان کھول کے سن لے بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا قسم یہاں ناغہ نہیں چلے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جمعے کی شام تک رپورٹ بھی تیار رکھیو۔ ‘‘

” رپورٹ؟ ‘‘ ایک دم جیسے سارا نشہ ہرن ہو گیا اور میں نے اپنی گود میں رکھے ضخیم رجسٹر پر ایک فریادی نگاہ ڈالی۔
” رپورٹ ایک دم مست ہونی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنجیدہ اور ٹھکی ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے افسانوں کی طرح بے ہودہ اور کچی نہیں۔ ‘‘ مدھر ملک کا لہجہ ایک دم ناصحانہ سے ناقدانہ ہو گیا۔
” وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر لکھوں کیسے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس تو کوئی سیمپل ہی نہیں۔ ‘‘ میں نے بے بسی سے سرجھٹکا۔

” اندھا ہے کیا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ رجسٹر تو کھول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک نہیں بہتیرے سیمپل ملیں گے۔ ‘‘ مدھر ملک کی آواز میں رعب کا تناسب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔
میں نے جواباً ایک سرد آہ بھری، رجسٹرکھولا اور پرانی کارروائیاں پڑھنے لگا۔ تقریباً ایک ہی جیسے اسلوب میں لکھی چار پانچ رپورٹیں پڑھ چکنے کے بعد تیزی سے صفحات پلٹے تو نگاہ ایک عبارت پر جا رکی۔

میں ایک دم چونک سا گیا۔
پھر شروع سے لے کر آخر تک سارا متن پڑھ ڈالا۔
تحریر میں فکشن کا رنگ نمایاں تھا، زبان شاعرانہ او ر ا یسی رواں کہ مستعار لینے کو جی چاہے۔
”مدھر! یہ رپورٹ دیکھ یار! ‘‘ میں نے اسے تقریباً جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
وہ ایک دم ہڑبڑایا اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ چھوٹ کر دور جا گری۔
”دیکھ لی بھائی! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جان لے گا کیا؟ ‘‘ مدھر ملک کافی برانگیختہ تھا۔

مگر جوں جوں وہ رپورٹ پڑھتا گیا، اُس کا چہرا کھِلتا گیا۔
”میں نہ کہتا تھا خا لد سعید استاد آدمی ہے۔ چیک کر! آڈیو ویژول امیج کی بات کرتا ہے۔ ‘‘ وہ یوں اترایا جیسے خالد سعید اسی کا نام ہو۔
وہیں گول باغ میں طے پایا کہ خالد سعید کے رپورٹنگ سٹائل کو سیمپل بنا کر کام شروع کر دیا جائے۔

ایک بار سمت کا تعین ہو ا تو نئی راہیں بھی سجھائی دینے لگیں۔ مثلاً ایک آئیڈیا یہ تھا کہ حاضرین کی گفتگو کو اس طرح سے قلم بند کیا جائے کہ ان کا باہمی مکالمہ ساکت اور ٹھہرا ہوا نہ لگے بلکہ رننگ اور رواں لگے۔

فیصلہ یہ ہوا کہ حاضرینِ کرام کو کرداروں کی طرح ٹریٹ کیا جائے، پہلے تو صرف ادب پاروں پر ان کی آراء لکھی جاتی تھیں، اب ان کی حرکات و سکنات کو بھی خامہ فرسا کر دیا جائے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ مظہرنہ صرف رپورٹ کی فضا کو زندگی کے قریب لے آئے گا بلکہ ابلاغ کے عمل اور دلچسپی کے عنصر کو بھی فزوں تر کر دے گا۔ دوسری جانب میں اس اندیشے سے بھی آگاہ ہو چکا تھا کہ یہ انحرافی قدم آگے چل کر معروضیت کے پہلو کو بالکل معدوم کر دے گا۔ بالآخر میں نے یہ سوچ کر خود کو طفل تسلی دے ڈالی کہ آبِ حیات، مارلن منرو، آئیڈیل گیس اور معروضیت کی خواہش تو کی جا سکتی ہے، اِنہیں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

ادبی رپورٹنگ کی مروجہ اور معروف بنیادوں کو توڑنا اور ان سے نئی شکلیں بنانا ایسا ہی تھا جیسے کوئی اندھا کسی وجدانی قوت کا ہاتھ تھامے فیراری چلا رہا ہو یا کسی نازک اندام دوشیزہ کو اپنے پہلو میں لیے ناچتا چلا جا رہا ہو۔ دشتِ امکاں کونقشِ پا میں ڈھلتے دیکھنا کبھی کبھار دشوار بھی ہو جاتا لیکن جونہی تمنا کا دوسرا قدم پردۂ منظر سے غائب ہونے لگتا، میں اپنی وحشتوں کو نارسائی کے چرکے لگا کر بیدار کر دیتا۔

پھر ایک روز میں نے ہم زیستگی (Symbiosis ) کے عمل کو ڈی کوڈ کر لیا اور اسے تخلیقی گمک (Creative resonance ) میں ڈھال کر اپنی ذات کا جزو بنا لیا۔ اس فارمولے کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کو سمجھنا اور کھوجنا جتنا پیچیدہ تھا، اپلائی کرنا اتنا ہی سہل۔ فورم کے اجلاس میں جو بھی نثر پارہ یا شاعری پڑھی جاتی، میں اسے خود میں پوری طرح سے مرتکز کر لیتا تھا۔ پڑوسی کے چولہے کی آگ میرے اندر بھڑکتی رہتی تھی حتٰی کہ ایک وقت آتا جب وہ کسی دھیمی آنچ پر میرے اندرون کا ان مٹ حصہ بن جاتی۔ صنف اور معیار کو بالائے طاق رکھ کر میں نے ہر ادب پارے کو ایکچولائز کرنے کی کوشش کی۔

تخلیق کا سامعین سے مکالمہ اور سامعین کا تخلیق سے مکالمہ تو ہمیشہ سے رائج تھا مگر اب نئی بات یہ ہوئی تھی کہ تخلیق، رپورٹر سے فکشن بن کر گفتگو کرتی، رپورٹر اسے خود میں جذب کر لیتا اور اپنے تمام سابقہ تجربات اور محسوسات کو اس میں تحلیل کر کے ایک نئی فکشن کو جنم دیتا، جو پہلے سے موجود فکشن سے مکالمہ کرنے لگتی۔ یہ مکالمہ مسلسل جاری و ساری رہتا یہاں تک کہ جب کارروائی کواحاطۂ تحریر میں لایا جاتا تو ایک ایسا متن تشکیل پا چکا ہوتا جو اپنے کرداروں کے ڈائیلاگزکو فلسفیانہ مرکزیت میں پرو دیتا تھا۔

خالد سعید اور جنیدنے اس تکنیک کو کولاج کا نام دیا اور یوں اسے ایک ایسی روایت سے جوڑ دیا جس نے بیسویں صدی کے یورپ کو نئی فنی اور فکری حیات دی تھی۔

قاضی علی

قاضی اور میری پہلی ملاقات انسٹیٹیوٹ آف انگلش سٹڈیز کے لان میں ہوئی جہاں ملتان آرٹس فورم کا ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوا کرتا تھا۔ اجلاس شروع ہوا اور برخاست بھی ہو گیا لیکن قاضی ایک لفظ نہ بولا۔ بس چہرے پرمتانت کی تہیں سجائے اور سنجیدگی کا ماسک پہنے حاضرین کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتا رہا۔ میں نے سوچا یقینا کوئی فصلی بٹیرا ہے، غلطی سے آن ٹپکا ہے، اگلی بار تو بھول کر بھی نہ آئے گا۔ قاضی علی نے میر ی قیافہ شناسی کا خوب دیوالیہ نکالا۔ اگلی بار بھی آیا اور اس شان سے آیا کہ تالے بھی اُسی نے آکر کھلوائے۔

ابھی دس بارہ ہفتے ہی گزرے ہوں گے کہ قاضی فورم کا سب سے ریگولر ممبر بن گیا مگر اس کے ہونٹوں کی مُہرنہ ٹوٹی۔ آخر جنید رضا نے وچولن کا کردار ادا کیا اور قاضی ہمارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا۔

پہلی بار اسے بولتے سنا تو بڑی حیرت ہوئی۔ میرا نہیں خیال تھا اس کی آواز اتنی خوبصورت اور رومانوی ہو گی۔ ایک روز قاضی نے کچھ اشعار سنائے اور میری رائے مانگی۔ ایک شعر بہت عمدہ تھا۔ میں نے کھل کر تعریف کی۔ کچھ عرصے بعد قاضی سے افسانہ سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ پھر ایک طویل مکالمہ ہوا جس کے بعد ہمارے تعلقات دوستانہ حدود میں داخل ہو گئے۔ رہی سہی کسر میں نے اپنے ناکام معاشقوں کا طربیہ احوال سنا کر پوری کر دی۔

قاضی علی نے ایف ایس سی کے بعد شعبۂ صحافت میں داخلہ لیا تو میں وہاں ایم۔ فل کا طالب علم تھا۔ تقریباً روزہی ملاقات ہو جاتی۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی کہ قاضی مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ اسی اثناء میں سروس کمیشن والوں کی طرف سے ایک رقعہ موصول ہوا جس میں جلد از جلد لاہور پہنچنے کی تاکید درج تھی۔ نہ صرف ملتان چھوڑنا پڑا بلکہ یونیورسٹی اور فورم سے بھی دست بردار ہونا پڑا۔
قاضی علی نے جب ملتان آرٹس فورم کی باگ دوڑ سنبھالی تو حاضرین کی اکثریت کا خیال تھا وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام ٹھہرے گا۔ اس کی کم سنی کو اُس کی ناپختہ کاری پر محمول کیاگیا۔ قاضی مگر فرنٹ فٹ پر کھیلا اور اِس طرح سے کھیلا کہ ڈبل سنچری بنا کر بھی پویلین نہ لوٹا۔

کولاج 2 اور کولاج 3

قاضی علی نے جب اردو ڈیپارٹمنٹ کی ایک طرح دار خاتون پروفیسر کو، کولاج 2 کا نسخہ پیش کیا تو اُن کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اوروہ بڑے دلار سے بولیں۔
” تحفے کے لیے شکریہ لیکن اگلی بار کوئی ایسی کتاب عنایت مت کیجئے گا جس کا نا م کولاج ہو۔ ‘‘

” کیوں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ قاضی کو جیسے کسی نے ایک تیز رفتار ویگن سے اٹھا کر باہر پھینک دیا اور تکلیف ضبط کرنے کی کوشش میں اُس کے حلق سے بس یہی ایک لفظ برآمد ہو پایا۔
” کیونکہ دو سال پہلے بھی کولاج نا می ایک کتاب میری نظر سے گزری تھی جو اتنہائی بے ہودہ، واہیات اور مہمل تھی۔ ‘‘

آج تک تو یہی سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ قاضی ظالم، جابر اور سفاک ہوتے ہیں، انسانیت کے ماتھے پر کلنک ہوتے ہیں اور ان کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوتے ہیں وغیرہ۔ قاضی علی مگر آج تک کی معلوم دنیا کا پہلا ”قاضی ‘‘ہے جو ظالم نہیں، مظلوم ہے۔ اس سے بڑھ کر مظلومیت کی مثال اور کیاہو کہ جو گالیاں دراصل مجھے کھانی چاہیے تھیں، وہ قاضی نے زہر مارکیں اور جن پتھروں پر کولاج اول کا نام لکھا تھا، انہوں نے کولاج دوم اور کولاج سوم کے بدن میں چھید کر دیے۔

قاضی کا گناہ محض اتنا تھا کہ اس نے کولاج 1 سے چھٹکارا پانے کی بجائے اس کے بھوت سے یارانہ گانٹھ لیا۔ خوش آئند بات مگریہ تھی کہ اس نے مکمل تباہی سے پہلے ہی اس آفت ِنا گہانی کا ادر اک کر لیا اور ایک موثر خود حفاظتی نظام کی تشکیل میں جت گیا۔ اسے یہ بھید پانے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ وائرس حملہ آور ہو جائے تو خود کو بچانے کے لیے خودکو گھٹانا پڑتاہے۔

ناقدین کے خیال میں کولاج 1 کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ رپورٹ کو فکشن بنانے کے چکر میں معروضیت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ بلاشبہ وہ یہ بات کہنے میں حق بجانب تھے مگر جس لکھاری کا تھیسس ہی یہ ہو کہ ادبی رپورٹ کو اول تا آخر ادبی ہونا چاہیے، چاہے وہ رپورٹ ہو یا نہ ہو اور شاندار ادبی رپورٹ کی نشانی یہ ہے کہ اسے ایک تیسرے درجے کا اخبار بھی چھاپنے سے انکار کر دے، آخراُس سے اور کیا توقع رکھی جا سکتی تھی؟

قاضی علی کے خود حفاظتی نظام نے رپورٹ کی بنیادی ساخت کو تو نہ چھیڑا لیکن ہم زیستگی اور تخلیقی گمک سے جان چھڑا لی یا دوسرے لفظوں میں تخلیق کار کے ادب پارے کو مزید خلق کرنے کی بجائے اُسے یا اُس کے کچھ ٹکڑوں کو من وعن متن میں داخل کر لیا۔ اِس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ اوریجنل ٹیکسٹ کو رپورٹر کے چُنگل سے رہائی مل گئی۔ مزید برآں ایک خفیف سا معروضی پہلو بھی نکل آیا۔ قاضی علی نے نہ صرف بے جا تخیلاتی منظر نگاری سے بچنے کی کوشش کی بلکہ جزئیات کو بھی ایک خاص حد تک محدود رکھا۔ یہ امر اس بات کا واشگاف اعلان تھا کہ قاضی میری طرح ہوا میں معلق ہو کر گیس بھرے غبارے پھاڑنے کے بجائے زمین سے جڑنے اور جڑے رہنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

مندرجہ بالا تبدیلیوں کے بعد ادبی رپورٹنگ کی جو صورت نکلی وہ خالصتاً قاضی کی اختراع تھی اور اس کا کولاج۔ 1 کی رپورٹس سے محض اتنا تعلق بنتا تھا کہ یہ موضوعاتی سطح پر اس کی تجدید ِنو تھی۔ ان رپورٹس کا سب سے نمایاں وصف یہ تھا کہ ادبی چاشنی اور رپورٹنگ کے بنیادی اجزاء بیک وقت جلوہ نما کر دیے گئے جس کے باعث تحریر کا حسن بھی برقرار رہا اور زبان کا اطلاعاتی وظیفہ بھی مجروح نہ ہوا۔

بطور قاری میں یہ بات بخوبی جان سکتا ہوں کہ قاضی علی نے حاضرین /کرداروں کی آراء کو مجھ سے زیادہ فصیح اور بلیغ انداز میں پیش کیا۔ تاہم کرداروں کی باڈی لینگوئج کولاج1 کے خطوط پر ہی استوار کی گئی ہے۔ اس مظہر کو برقرار رکھنا نہایت ضروری تھا کیونکہ یہی وہ اسم اعظم ہے جو قاری اور رپورٹ کو ایک اٹوٹ بندھن کی ڈوری سے منسلک کرتا ہے اور پڑھنے والا اس قابل ہو پاتا ہے کہ رپورٹر اور کرداروں کے باہمی تعلقات کی متنوع جزئیات سے محظوظ ہو سکے۔

دوسرے لفظوں میں ریڈر کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ نہ صرف قاضی کے دوسرے کرداروں جیسے خالد سعید، ممتاز اطہر، جنید، ساحر، عدنان صہیب، شاہد زبیر وغیرہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت جان پائے بلکہ وہ ہر کردار کی باڈی لینگوئج سے اس کی خصوصیات کو جاننے اور پہچاننے پر بھی قدرت حاصل کر لیتا ہے۔ دلچسپی، ندرت اور ترغیب سے قطع نظر، غور طلب پہلو مگر یہ ہے کہ اسے قاضی علی کی بصارت، بصیرت اور پیشکش پر انحصار کرنا پڑے گا ( یعنی معروضیت ایک بار پھر تختہ دار پر لٹکائی جائے گی)۔ تاہم اگر کسی واقعے کو رپورٹ کرنے کا مقصد اطلاع دینا، تفریح پہنچانا اور کسی بات کی ترغیب دینا ہے تو قاضی نے یہ تینوں فرائض نہایت عمدگی سے سرانجام دیے ہیں۔

حرفِ آخر

ادبی رپورٹنگ کے ساتھ چونکہ رپورٹنگ کا لاحقہ منسلک تھا اس لیے ادب کے پیشہ ور نقادوں نے اسے صحافت کے پنگھوڑے میں لٹا دیا۔ ادبی تقریبات اور ادبی محافل کی کارروائیاں محض اس نیت سے لکھی گئیں کہ وہ اگلے روز کے اخبارات میں چھپ سکیں۔ ایسی پھسپھسی اور بے مزہ تحریروں کی ادبی حیثیت تو کیابننی تھی، صحافیانہ حیثیت بھی نہ بن پائی۔ جب ایک سناریہ بات سمجھنے کا اہل ہے کہ بیش قیمت سونے کی انگوٹھی خوبصورت ڈبیا میں رکھ کر پیش کرنی چاہیے تو کیا یہ ادبی دانش کا تقاضا نہ تھا کہ مجالس اور مشاعروں کی روداد دلچسپ پیرائے میں رقم ہو؟

مقامِ شکر ہے کہ قاضی علی نے یہ غلطی نہیں دہرائی، ادبی رپورٹنگ کو ادبی شان وشکوہ کے ساتھ مجسم کیا ہے اور یاد رہے کہ ایک عامیانہ ادب پارہ بھی ایک اچھی اخباری خبر یا رپورٹ سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اخباری خبر اور اخباری رپورٹ کی عمر محض ایک دن ہوتی ہے جبکہ ادب پارہ اگر کسی دھڑکتے ہوئے پل میں کائنات کی وسعتوں سے ہم کلام ہو جائے تو سارے جہان پر دراز بھی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).