بنوں سے مستونگ تک تیرہ جولائی کا سیاہ دن۔ پر ذمہ دار کون؟


آج تیرہ جولائی سن دو ہزاراٹھارہ جمعہ کا مبارک دن ہے، سوشل میڈیا کے دور میں اب ہم جمعہ کے روز صبح اٹھتے ہیں تو موبائل فون پر اس مبا رک دن کی مناسبت سے دعاؤں اور نیک تمناؤں کی بھرمار ہوتی ہے۔ پر اس وقت رات کے اس پہر جب دن اور تاریخ بدلنے جا رہی ہے تو مجھے پیچھے ایک سیاہ دن نظر آرہا ہے، جسے میں ملکی تاریخ کا سیاہ دن کہوں تو بیجا نہ ہو گا۔

آج پہلی بری خبر دن بارہ بجے کے قریب آئی جب بنوں میں جمیعت اسلام فضل الرحمان کی جماعت کے راہنما اکرم درانی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس وہ خود تو بچ گئے، پر حملہ چار معصوم لوگوں کی جان لے بیٹھا۔

پھر بلوچستان کے شہر مستونگ سے خود کش حملے کی خبر آئی جس میں نہ صرف وہاں کے ایک محب وطن نوجوان لیڈر نوابزادہ سراج رئیسانی شہید ہو گئے بلکہ اب تک کی اطلاع مطابق ایک سو اٹھائیس افراد اپنی جان کھو چکے ہیں۔ یہ ایک سیاسی جلسہ تھا جس میں سراج رئیسانی خطاب کر رہے تھے۔

یہ جانی نقصان پشاور کے کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سے اب تک سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بڑے واقعہ پر تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اپنی انتخابی سرگرمیوں کو معطل کر دینا چاہیے تھا۔ میڈیا نے بھی مستونگ سانحہ کو جگہ دینے کے بجایے نواز شریف کی لندن سے آمد یا عمران کے جلسوں پر فوکس کیے رکھا۔

اب آئیے سیاسی میدان میں، اس پر اگر ہم اگر نظر ڈالیں تو آج سے پچیس جولائی کے اتخابات کے روز تک صرف بارہ دن بعد عوام ملک بھر میں اپنے مستقبل کی بہتری کے لئے ووٹ ڈال کر نمایندے منتخب کریں گے تاکہ وہ پارلیمان میں بیٹھ کر قانون سازی کریں۔

پر آج ملک بھر میں انتخابی مہم میں تیزی کے بجایے ہر طرف سیاسی افراتفری نظر آ رہی ہے۔ لگ یوں رہا ہے جیسے تمام سیاسی پارٹیوں کے آگے بند باندھ کر انہیں محدود کر دیا گیا تاکہ آج کی من پسند جماعت انصاف کی تحریک والوں کو کھلا میدان دیا جاسکے۔

پنجاب کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ جو ایک زمانے میں اسٹیبلشمنٹ کی محبوب ترین جماعت اور اس کے سربراہ نواز شریف محبو ب ترین سیاست دن ہوا کرتے تھے۔ انھیں وزیر اعظم بنوانے کے لئے انیس سے نوے اور ستانوے میں نت نیے طریقے اختیار کے گئے، آج جیسے عمران خان کے لئے کھلا میدان بنایا جا رہا ہے اسی طرح اس زمانے میں بینظر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے سامنے بند باندھ کر میاں صاحب کے لئے کھلا میدان فراہم کیا جاتا تھا اور اس کے لئے من پسند اور منظور نظر افراد پر مبنی نگران حکومتیں بنائی جاتی تھیں۔ تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

مجھے انیس سو نوے کے انتخابات کبھی نہیں بھولتے جب قومی اسمبلی کے لئے ووٹ ایک دن ڈالے گئے اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے ووٹنگ دو دن بعد ہوئی۔ ابھی قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج آرہے تھے کراچی میں مجھے حکم ہوا کہ فوری طور پر وزیراعلی ہاوس پہنچوں کیوں کہ وہاں بہت اہم اجلاس ہونا ہے۔
جب میں وہاں پہنچا تو بتایا گیا کہ میاں نواز شریف نگران وزیر اعلی جام صادق سے ملاقات کے لئے پہنچنے والے ہیں۔

مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ ابھی قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج آرہے ہیں پر نواز شریف کو وزیر اعظم کا پروٹوکول انھیں دے دیا گیا ہے۔ میری ملاقات کیپٹن صفدر سے ہوئی جسے نواز شریف کا اے ڈی سی مقرر کر دیا گیا تھا اور وہ وردی میں تھے۔ یہ ووہی انتخابات تھے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا اور آئی ایس ای کے اس وقت کے چیف اسد درانی نے اقرار کیا کہ آئی جے آئی کو انتخابات میں بی بی شہید کو شکست دینے کے لئے رقم فراہم کی گئی۔ ائیر مارشل اصغر خان مرحوم نے انتخابی دھاندلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس کا فیصلہ تین دہائیوں بعد آیا۔

پھر میاں صاحب کے لئے ستانوے کا بھاری مینڈیٹ کسے یاد نہیں، جس میں دھاندلی کا اقرار نجم سیٹھی نے خود اپنے پرگرام میں کیا، کیوں کہ وہ اس وقت کے نگران سیٹ اپ کا حصہ تھے۔
کاش میاں نواز شریف سمجھ سکتے کہ جو کچھ بینظیر کا راستہ روک کر انہیں حکومت دلانے کے لئے اختیار کیا جا رہا ہے وہی طریقہ ایک دن ان کے خلاف بھی اسستعمال کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف نے اپنے پچھلے پانچ سال میں پارلیمان کو نظرانداز کیا، فیصلے کابینہ کے بجایے کچن کیبنٹ نے کیے۔ اداروں کے سربراہ نہ لگا کر انہیں تباہ کیا۔ سربراہ اگر لگا بھی دیے تو وہ لگائے جنہوں نے کرپشن کے انبار لگا دیے۔

اس وقت سارے سیاست دن اگر ایک ہو کر نگران حکومتوں کے نظام سے جان چھڑالیتے تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
اٹھارہویں ترمیم نے دونو ں بڑی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کیا تھا پر میاں صاحب کے سامنے نگران سیٹ اپ یا آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ سے نجات سے زیادہ تیسری بار وزیر اعظم بن جانے کی خواہش حاوی تھی۔

وہ تیسری بار وزیر اعظم تو بن گئے پروہ پہلے آرٹیکل تریسٹھ کا نشانہ بنے او پھر ر آج ان کی جماعت نگرانوں کے نشانے پر ہے۔ یہ وہی نگراں سیٹ اپ ہے جسے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مرضی سے لگایا جاتا ہے، اختلاف کی صورت میں بات الیکشن کمیشن تک پہنچتی ہے۔ اور پنجاب میں یہی ہوا۔ بیچارے حسن عسکری صاحب کا انتظامی تجربہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک شعبے کو چلانے سے زیادہ نہ تھا۔

عمران خان جنھیں یقین ہو چلا ہے کہ اگلے وزیر اعظم وہی ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بن بھی جائیں، لیکن انھیں آج کی صورتحال سے خوش ہونے کی بجایے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ کیوں اگر انتخابات ہو گئے اور وہ جیت بھی گیے تو یہ دن انہیں بھی دیکھنا پڑھ ہ سکتا ہے، جو آ ج نون لیگ کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔

سیاست دانوں کو اگر اپنی ذات سے نکل کر کبھی سوچنے کا موقع ملے اور وہ وہ ملک میں جمہوری نظام کا فروغ اور اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں، تو پہلی فرصت میں انہیں نگران سیٹ اپ سے جان چھڑانی ہو گی اور آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں ترمیم لا کر صادق اور امین ہونے کا ثبوت دینا ہو گا، وہ بھی عوام کے سامنے۔
آج کا سیاہ دن سیاستدانوں دانشوروں اسٹبلشمنٹ سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ ذات سے نکل کر اب ملک کا بھی کچھ سوچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).