لاہور کی یاد میں ۔۔۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے


کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے، ایک دوست نے نیویارک کی کوئی تصویر لگائی اور لکھا کہ بالکل لاہور سا ہے۔

بات یہ ہے کہ آپ کا اپنا شہر خواہ کوئی بھی ہو، مانند محبوبِ اوّل ہوتا ہے، بُھولے سے نہیں بھُولتا، کہیں بھی چلے جائیں، کچھ بھی کر لیں، کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، وجہ بے وجہ آپ کوئی نہ کوئی مماثلت تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ ”فلاں ریسٹورانٹ کے چھولے بالکل لکشمی چوک جیسے ہیں۔ “

اوروں کے لیے اس گلی، نکڑ، دوکان، سڑک، قلعے، گویا کسی بھی ایسے مقام میں کوئی خاص بات نہ ہو لیکن آپ کو وہ جگہ اپنی اپنی سی لگتی ہے، جیسے پہلے محبوب کی شکل ہمیشہ یاد رہتی ہے، آپ کو اس کی کوئی نہ کوئی ادا، کسی نہ کسی اور میں ضرور نظر آتی ہے، اور آپ تڑپے بنا نہیں رہ پاتے۔ بقول فیض صاحب، ؎ تم ایک نظر میرا محبوب نظر تو دیکھو!

ایسا ہی کچھ حال ہم پردیسیوں کا ہے، جنہوں نے مرضی سے اپنا شہر چھوڑا یا مجبوری میں ایسا کرنا پڑا، ۔

میری عمر کا ایک بڑا حصہ، بچپن سے لے کر لڑکپن، جوانی، تعلیم و نوکری وغیرہ لاہور میں گُزرا، حالانکہ میری پیدائش لاہور میں نہیں ہوئی، لیکن میرا شہر لاہور ہی ہے، ایک سال سعودی عرب کے شہر ریاض میں گزارا، وہاں کئی ایک علاقوں پر لاہور کا سا گمان ہوتا تھا، وہاں حارا کے علاقے میں ایک ریسٹورانٹ تھا، ”لاہوری کھابہ“۔ کھانا ٹھیک تھا، لیکن میں ہفتے میں دو سے تین بار محض اس لیے وہاں جاتا تھا کہ نام میں ”لاہور“ تھا۔

پھر سنگاپور میں 8 برس گزارے، وہاں بھی کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لیتے تھے جہاں جا کر کھانا پینا تو ایک بہانہ ہوتا تھا، اصل مقصد لاہور کی یادیں تازہ کرنا ہوتا تھا، خصوصا وہاں ایسے دوست احباب جو مشرقی پنجاب سے یا دہلی سے تعلق رکھتے تھے، انہیں بہت فخر سے بتانا کہ ”میں لاہوڑی ہوں“

اب گزشتہ 10 ماہ سے انگلستان میں مقیم ہوں، ان 10 میں سے کوئی 7 مہینے لندن میں گزرے، لندن اب اپنا اپنا سا لگتا ہے، وجہ وہی کہ ہر گلی کوچے میں، سڑک پر، کھوکھے پر آپ کوئی نہ کوئی ایسی مماثلت ڈھونڈ نکالتے ہیں جس سے آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ لاہور ہی کے کسی علاقے میں گھوم رہے ہیں۔ لاہور کو تین چار گنا بڑا کر لیں تو بخدا لندن بن جائے گا

منٹو سے منسوب الفاظ کچھ ایسے ہیں کہ
لاہور!
کتنا سلونا لفظ ہے
لاہوری نمک
جیسے نگینے، گلابی اور سفید
جی چاہتا ہے کہ انہیں تراش کے
چندن ہار میں جڑ دُوں
اور کسی مٹیار کی
ہنس جیسی سفید گردن کے گرد ڈال دوں

آپ ہی آپ جی بھر آتا ہے
انجانے، غیر مرئی محبوب کی یاد
ہوک بن کے اٹھتی ہے
لاہور کی ہوا میں نور کھِلا ہے
خاموش گھنگھرو بجتے ہیں

بپسی سدھوا نے غالبا 2013 میں بی بی سی کے لیے ایک انگریزی مضمون لکھا تھا لاہور کے بارے میں، اگر یاداشت ٹھیک کام کررہی ہے تو الفاظ کچھ ایسے تھے کہ
”لاہور رومانویت سے بھرپور شہر ہے“۔ کئی سال پہلے مجھے پیرس جانے کا اتفاق ہوا، وہاں کی گلیاں بالکل اندرون لاہور جیسی دکھائی دیں۔

مزید لکھتی ہیں کہ ” لاہور نے بہت سے ایسے مصنفین پیدا کیے جو سڑکوں پر آوارہ گھوما کرتے تھے، جیسے کہ کپلنگ اور ساغر صدیقی اور پھر لاہور ٹی ہاوس کی وہ بیٹھکیں، گھروں میں سجائی جانے والی ادبی محفلیں، ہر محفل ایک دوسرے سے جُدا،

یہ مصنفین ان تعلقات کے بارے میں لکھتے تھے جو انہوں نے ان چائے خانوں میں بنائے۔ لاہور کی بادشاہی مسجد، قلعہ، شالامار باغ اور مغلیہ دور کی دیگر کئی ایسی عمارتیں آپ کو وہ ماحول مہیا کرتی ہیں جن سے لکھاری متاثر ہوتے ہیں۔ لاہور سے متعلق منٹو کی کہانیاں اور افسانے کون بھول سکتا ہے؟ جو تقسیم کے دنوں میں لکھے گئے۔

لاہور ایک بہت سخی شہر ہے، ایک قدیم شہر ہے، لاہور ایک ایسا شہر ہے جو فنون لطیفہ کی ہر قسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔

پھر لاہور میں ہونے والے مشاعروں کو کون بھول سکتا ہے؟ مغرب میں شاعری عوام میں اس قدر مقبول نہیں، وہاں شاعری محض سکولوں اور کالجوں تک محدود ہے، لاہور میں ایسا نہیں ہے۔ شاعری، شاعرانہ مزاج لاہوریوں کے ڈی این ائے کا حصہ ہے!

عام گفتگو کے دوران کوئی نہ کوئی شعر ضرور آجائے گا، کوئی ہیر رانجھے کا ذکر کر دے گا کوئی بلھے شاہ کا اور کوئی شاہ حسین کا۔ لیکن ان سب کا تعلق آپ کے جسم سے زیادہ آپ کی روح سے ہے، اور پھر یہ اشعار، ایسے ہیں جیسے کوئی خُدا سے گفتگو کر رہا ہو۔

لاہور میں رہائش پذیر ہونا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس شہر میں ایک چاہت ہے، ایک اضطراب انگیز قسم کی خواہش ہے، لاہور ایک تمنا ہے، ایک آرزو ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہر شہر کی ایک روح ہوتی ہے، اور لاہور کی روح وہ توانائی ہے جو آپ کو تخلیق پر مجبور کرتی ہے چاہے وہ فنون لطیفہ کی کسی بھی قسم میں ظاہر ہو۔
یہ شہر، ادیبوں، لکھاریوں، فنکاروں، مصنفین، پینڑز، گانے والوں، اداکاروں کو تخلیقی توانائی فراہم کرتا رہے گا۔ لاہور میں پیدا ہونے والا ہر شخص لکھاری ہے، پیدائشی لکھاری“

پھر اشفاق احمد کے یہ الفاظ کون بھول سکتا ہے کہ
”لاہور سے تعلق ٹوٹ جانے کے بعد آدمی زندہ تو رہتا ہے، لیکن ایسے جیسے اچھی بھلی موٹر کو گیس پر منتقل کر لیا جائے، چلتی تو رہتی ہے لیکن اس میں وہ روانی نہیں ہوتی، حرکت تو ہوتی ہے لیکن تھرسٹ نہیں ہوتی۔

لاہور سے جدا ہونے والے لوگ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں اچھی اچھی عمدہ نوکریوں پر خوش حال اور فارغ البال تو ہوتے ہیں لیکن انہیں سوکھے کا مرض ہو جاتا ہے۔ ہر وقت ریں ریں کرتے رہتے ہیں، آہیں بھرتے ہیں، نوکری، چاکری، دولت، شہرت ان کے مرض کا مداوا نہیں کرتی، ساری عمر لاہور کو یاد کرتے گزر جاتی ہے اور لاہور آ نہیں سکے، بس آیا ہی نہیں جاتا“

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
لندن کو دیکھ کے لاہور یاد آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).