مستونگ سانحے میں چوتھے ستون کی شرمناک غفلت



نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ “ریاست کے اندر ریاست” کو واپس اس کے آئینی کردار تک محدود کرنے اور منتخب جمہوری حکومتوں کی اسٹیبلشمنٹ پر بالا دستی کے مقصد کے ساتھ واپس وطن لوٹ رہے تھے۔ میڈیا انتہائی پرجوش تھا اور لمحہ بہ لمحہ فلاں چینل پھر بازی لے گیا، بریکنگ نیوز، سب سے پہلے یہ خبر ہم آپ کو بتا رہے ہیں وغیرہ کے ڈھول بھی بجائے جا رہے تھے۔

حقائق رپورٹ کرتے ہوئے اتنی بازاری اور غیر معیاری صحافت بالکل بھی قابل تعریف نہیں لیکن اسے اس لیے برداشت کیا جا رہا تھا کہ چلو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم دن ہے، جو کچھ خاص کر الیکٹرانک میڈیا میں ہو رہا ہے، وہ بیزار کن تو ہے لیکن مذمت کرنا شاید لازمی نہیں۔ تب تک مستونگ میں انتہائی ہلاکت خیز حملہ نہیں ہوا تھا۔ پھر مستونگ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی اور تمام “عظیم، قومی، عوامی اور تیز ترین” کہلانے والے چینلز کا آپس میں ریٹنگ کا مقابلہ جاری رہا۔

وہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ جن “پاکستانیوں کے جمہوری سیاسی حقوق کے حفاظت” کے لیے نواز شریف اور مریم نواز  واپس لوٹ رہے تھے، انہی پاکستانیوں میں سے بلوچستان میں عین آج ہی کے دن کم از کم ایک سو نوے ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ افسوس صرف اس بات کا نہیں کہ مستونگ حملے کو نواز شریف کی واپسی سے زیادہ بڑے واقعے کے طور پر رپورٹ نہیں کیا گیا۔ ایک طرف دو پاکستانی وطن واپس آ رہے تھے تو دوسری طرف دوسو کے قریب پاکستانی ہلاک یا زخمی ہو چکے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ درجنوں رنگ برنگے پاکستانی ٹی وی چینلز  کو سنسنی خیز سیاسی بریکنگ نیوز کا بخار چڑھا ہی رہا اور اس دوران مستونگ میں بہت زیادہ شہری ہلاکتیں “بھی” بس کسی طرح رپورٹ ہو گئیں۔

پاکستانی ٹی وی چینلز کی نشریاتی اور موضوعاتی ترجیحات کا تعین کرنے والے “ایتھلیٹکس مائنڈڈ” سینئر صحافیوں کو علم ہونا چاہیے تھا، ایک طرف سول جمہوری منتخب نمائندوں کے آئینی اختیارات کے تحفظ کا نعرہ تھا اور دوسری طرف انہی شہریوں کی لاشیں جن کے حقوق کی حفاظت کی جانا تھی، لیکن جن کی جانوں تک کی حفاظت بھی نہ کی جا سکی۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کا تعین اتنا مشکل ہے کہ ایک طرف اگر سیاسی جوش و جذبہ ہو، انتخابات کے دنوں میں سنسنی خیزی ہو اور دوسری طرف کچھ بھی نہ بچا ہو، ہر طرف موت ہو، لاشیں ہوں اور خون میں لت پت زخمی ہوں، تو کون سا موضوع زیادہ اہم اور زیادہ کوریج کا حقدار ہو گا۔ یہ بالکل بھی مشکل فیصلہ نہیں ہے، اس میڈیا کے لیے جو عام طور پر ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔

لیکن ایسا بجا، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور پیشہ ورانہ صحافتی فیصلہ تو ریاست کا چوتھا ستون ہی کر سکتا ہے۔ “اپنے مالکان کو بہت طاقت ور بنا دینے والے اور بہت منافع بخش کاروباری اداروں کے طور پر چلائے جانے والے” نجی ٹی وی چینلز کے اس ہجوم کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کرنا مشکل ہے، جو اپنی کارکردگی میں چار کے بجائے ابھی تک بمشکل تین اعشاریہ ایک اور تین اعشاریہ دو کے درمیان کہیں ٹھوکریں  کھا رہا ہو۔

ابھی کل پرسوں ہی پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں ایک اخبار کے دفاتر کے باہر ایک خاموش مظاہرے کی صورت میں احتجاج کر رہی تھیں کہ اخبارات کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑا جرم ہے، اس مجرم کی طرف سے جو اس کا مرتکب ہو رہا ہے۔ لیکن مستونگ میں سینکڑوں پاکستانیوں کا ہلاک یا زخمی ہو جانا اگر نواز شریف کی واپسی سے بہت بڑی خبر نہیں بھی تھی، تو صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کو اب کم از کم بڑے بڑے اخبارات کے مرکزی دفاتر کے سامنے ایک بڑا خاموش احتجاج اور کرناچاہیے: “پاکستان میں ٹی وی ناظرین اور اخبارات کے قارئین تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں، خاص کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں۔ ان کا قتل عام روکا جائے، ورنہ چینلز کی عوام تک رسائی کی شرح متاثر ہو گی اور قارئین کم ہوتے جانے سے سرکولیشن متاثر ہوئی تو اخبارات کی آمدنی بھی کم پڑ جائے گی۔ ان ناظرین اور قارئین کا زندہ رہنا آزادی صحافت کے لیے بہت ضروری ہے۔”

یہ یاد دلانا شاید بہت ضروری نہیں کہ جہاں میڈیا ریاست کا واقعی چوتھا  ستون ہوتا ہے، وہاں کسی بھی طرح کی سیاسی یا کاروباری اشرافیہ کو فرشتے اور عام شہریوں کو “گدھوں گھوڑوں کی سے وقعت کے حامل جاندار” نہیں سمجھا جاتا۔ زیادہ تر پاکستانی نجی ٹی وی چینلز کو نظر کی ایک ایسی نئی عینک کی فوری ضرورت ہے، جس کے ذریعے انہیں مستونک حملے کے ہلاک شدگان میں بھی انہیں برابری کی سطح پر ویسے ہی پاکستانی شہری اور انسان نظر آ سکیں، جیسے انہیں پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں میں ہمیشہ نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).