امریکہ میں جنوبی ایشیائی لوگوں کے مسائل: ’ایک بچے کی وجہ سے پورے محلے میں بدنامی!‘


امریکہ میں اگر آپ پاکستان یا انڈیا سے آئے ہیں یا کسی بھی اقلیتی گروہ سے تعلق ہے تو امکان ہے کہ آپ شناخت کے بحران سے گزر رہے ہوں گے۔

والدین کو یہ فکر ہے کہ بچے اپنی خاندانی اقدار بھول کر کہیں امریکی نہ ہو جائیں تو یہاں پیدا ہونے والے بچوں کو یہ مشکل کہ وہ کتنے امریکی ہیں اور کتنا اپنے آبائی ملک کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن شکاگو گئی تو اس کا ظہور قدرے پریشان کن انداز میں ہوا۔

واشنگٹن سے صبح کے پانچ بجے ہوائی اڈے کے لیے نکلی۔ صبح کا سفر پسندیدہ نہیں لیکن وقت کم اور کام بہت زیادہ تھا۔ سورج ابھی نکلا ہی تھا کہ ایئر پورٹ پہنچ گی۔

آپ واشنگٹن سے جلد از جلد شکاگو جہاز کے ذریعے لگ بھگ دو گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔ مشیگن جھیل کے گرد آباد یہ شہر معیشت، تجارت، ٹیلی کمیونیکشن کے ملک کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔

آبادی کے لحاظ سے یہ امریکہ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں سالانہ لگ بھگ تین کروڑ سیاح سیر کے لیے آتے۔ خوبصورت بڑی بڑی سڑکوں کے گرد بہتی ہوئی جھیل آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔

شکاگو دریا کے گرد بیشتر ریستوراں ہیں جو لوگوں سے بھرے تھے۔ نہ صرف آرٹ بلکہ یہاں کا میوزک کلچر بھی شہرت کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جیز موسیقی شکاگو کی ہی پیداوار ہے۔

شکاگو پہلے سیاہ فام امریکی صدر بننے والے براک اوباما کا گھر تو ہے ہی مگر پہلی امریکی خاتون جین ایڈمز، جنھوں نے نوبیل انعام جیتا، ان کا تعلق بھی شکاگو سے ہے۔ پہلا سیل فون ایجاد کرنے والے مارٹن کوپر بھی اسی شہر سے ہیں۔

شکاگو ریاست الینوا میں واقع ہے۔ سنہ 2010 کی مردم شماری کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں اس ریاست میں جنوبی ایشیائی برادری کی آبادی میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیش سمیت دیگر جنوبی ایشیائی باشندے شامل ہیں۔

میں یہاں ان انڈین طالبات سے ملنے آئی جو ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی پھیلا رہی ہیں۔ بیشتر خود بھی مختلف امراض کا شکار رہیں۔ اس معاملے پر والدین کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے انھیں علاج حاصل کرنے میں دقّت کا سامنا رہا۔

بعض طالبات کے والدین نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ‘یہ مغربی امریکی لوگوں کے چونچلے ہیں۔ اچھا سوچو سب اچھا ہوگا۔’ لیکن یہ لڑکیاں نہیں چاہتی کہ کمیونٹی کے باقی لوگ بھی اس کرب سے گزریں۔ اسی لیے وہ ان کی مدد کر رہی ہیں۔

ہم کام ختم کرکے کھانا کھانے ڈن ور سٹریٹ پر واقع پاکستانی ریستوراں خان بی بی کیو گئے۔ یہ علاقہ پاکستانی اور ہندوستانی دکانوں سے بھرا ہوا ہے۔ انڈین گانے ہر دوسری دکان پر بج رہے ہیں۔

یہ علاقہ شکاگو کے مرکز سے لگ بھگ 40 منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ جیسے ہی ریستوراں میں داخل ہوئے ایسا لگا جیسے راولپنڈی کے کسی ڈھابےمیں داخل ہو گے ہوں۔ ‘یاسر دو نان لگا’۔۔۔ ‘ٹیبل نمبر چھ کو لسّی بھیج’ کی پکاروں سے استقبال ہوا۔

شکاگو

ہمارے ویٹر کا نام رضوی تھا۔ اس تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ دس سال پہلے شکاگو آئے تھے۔ بیوی بچے ہندوستان میں ہی ہیں۔ ماتھے پر نمایاں نشان بتا رہا تھا کہ پکے نمازی ہیں۔ میں نے اپنے آسٹریلوی ساتھی سے معذرت کر کے جب اردو میں بات شروع کی تو انھیں یقین ہو گیا کہ وہ دل کی بات کر سکتے ہیں۔

کہنے لگے ‘میری بیوی اور بیٹی تو چاہتی ہیں کہ یہاں آئیں میرے ساتھ رہیں لیکن میں نہیں چاہتا کہ وہ امریکیوں کی طرح سوچنے یا کپڑے پہننے لگیں۔ ہم شریف لوگ ہیں اور یہاں بیٹیوں کو بہت آزادی حاصل ہے۔ وہ خراب ہو جاتی ہیں۔’

شکاگو

میں نے کہاں آپ نہیں چاہتے کہ وہ آپ کے ساتھ رہیں؟ کہنے لگے: ‘دیکھے میں ان سے دور رہ کر تکلیف تو کاٹ سکتا ہوں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ بیٹی ہماری قدریں بھول جائے’

اس کی مثال دیتے ہوے انھوں نے کہا: ‘آپ کو پتہ ہے بغل میں ایک کپڑے کی دکان ہے۔ مالک پاکستانی ہے۔ ان کا بیٹا کچھ مہینے پہلے ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ کیونکہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اپنے گھر والوں سے کہنے لگا کہ وہ گے (ہم جنس پرست) ہے۔ اسے لڑکے پسند ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں یہ بھلا کوئی کرنے والی بات ہے۔ ایک بچے کہ وجہ سے پورے محلے میں ان کی بدنامی ہو گئی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp