میں بلوچستان سے محبت کرتا ہوں


تین برس قبل، بلوچ یاروں کی گالیاں اور اپنے بارے میں سازشی نظریات سُن سُن اور سہہ سہہ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ بلوچستان جانے، بلوچ جانیں کہ جب حسن ظن کا جواب دشنام ہو اور خلوص کے نامے بھی مسلسل طنز کے نشتر سے کھولے جائیں تو خاموشی ہی بہتر محسوس ہوتی ہے۔ پھر اک معاملہ، جو شاید میری بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ کا ہے، وہ “اپنی نبیڑ تُو” کے دائرہ میں آن گرا۔ ویسے بھی اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب ہر صوبہ اپنے معاملات میں کُل مختار تھا، تو بلوچستان کے معاملات تو بلوچوں اور وہاں بسنے والے پشتونوں کے ہی تھے۔ اپنی ذات کی حد تک یہ بیانیہ چلایا اور ان تین برسوں میں بہنے والے خون پر کڑھتا بھلے رہا، مگر خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ رفتہ رفتہ کر کے بلوچ دوست بھی اپنی راہ کو ہو لیے، اور میں بھی۔

مگر آج اک اعتراف یہ کرنا ہے کہ ان تین برسوں میں سالوں میں بھی، میں بلوچستان سے جڑا رہا۔ اس لیے نہیں کہ میرے گھر میں جلنے والی گیس، بھلے استعارہ ہی سہی، بلوچستان سے آتی ہے، بلکہ اس لیے کہ اس خوبصورت دھرتی اور یہاں پسنے والے پرخلوص انسانوں سے ایک خبیث قسم کی محبت گویا میرے خون میں شامل ہے۔

میرا ننھیال بلوچستان سے جڑا رہا۔ میری ماں جو شاید پچاس برس قبل وہاں گئی تھیں، آج بھی “کوٹے” کو یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب شاید 2012 کی سردیوں میں ہزارہ وال، علمدار روڈ پر بطور احتجاج اپنی درجنوں لاشیں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے تو میری ماں نے مجھے ملکوال سے فون کیا اور نہایت ہی گلوگیر آواز میں کہا “پُتر ایہہ کی پیا ہوندا اے کوٹے تے ساڈے ملک وچ؟” میں اس سوال کا جواب کیا دیتا، بس بات چیت کر کے جھوٹی موٹی تسلی دے کر تھوڑی دیر بعد رابطہ منقطع کر دیا۔

آج مگر کہے دیتا ہوں کہ بلوچستان، میرے سیاسی ایمان کا سب سے پہلا رکن ہے۔ میرا اس صوبے اور اس صوبے کے لوگوں سے سنہء 1997 سے واسطہ شروع ہوا، اور 2003 کے آس پاس جا کر اس صوبے کے لوگوں سے یہ تعلق، محبت میں بدلنا شروع ہو گیا۔ اپنے پیشہ وارانہ امور کے سلسلہ میں مجھے معلوم پڑا کہ پاکستان کے سیٹھ میڈیا، کہ جس کا اک بڑا حصہ مفادات کے پیچھے رالیں ٹپکاتا اور لپکتا پھرتا ہے، نے بلوچستان اور بلوچوں کی یکطرفہ تصویر ہی پاکستان، بالخصوص پنجاب میں پیش کی ہے۔ میرے لیے بلوچوں کا تعارف بڑے بڑے سرداروں کے نام تھے جن کو پہلے سرکاری ٹی وی، اور پھر بعد میں سیٹھ-میڈیا مسلسل مجھ جیسوں کے سامنے رکھتا رہا۔

سیٹھ-میڈیا، جنرل ایوب کے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کے بعد سے آج تک، اور شاید تا قیامت، مفادات کا ہی پجاری رہا ہے، اور شاید رہے گا بھی۔ کسی اور کی کیا بات کرنا، مرحوم وارث میر کے “وارث” بھی اب کم کم ہی دِکھتے ہیں!

تھوڑا شعور پختہ ہوا تو معلوم پڑا کہ بلوچستان میں سے صرف سردار ہی نہیں، بزنجو ایسے ہیں تو مالک جیسے بھی۔ دشتی بھی ہیں اور جالب بھی۔ خدا مقام بلند کرے، شاہ محمد مری ہیں تو گل خان نصیر اور ظفر معراج بھی۔ منیر احمد بادینی ہیں تو صبا دشتیاری بھی، نون میم دانش ہیں۔ عطا شاد ہیں۔ مبارک قاضی ہیں۔ بشیر زیب ہیں۔ حمیرا صدف حُسنی ہیں۔ نوشین قمبرانی ہیں۔ شہیک بلوچ ہیں، اور اختر ندیم بلوچ بھی۔ قصہ مختصر، میں جان نہ چھڑا سکا۔ اب کبھی جان چھڑانے کا سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔

کل مستونگ میں 128 بلوچ قتل کر دئیے گئے۔ 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ان میں سے نجانے کتنے معذور ہو گئے اور اب ساری عمر جیتے کم، اور مرتے زیادہ رہیں گے۔ یقین کرو، میرے بلوچ یارو، کہ میں بھی بالکل تمھاری طرح ہی اک بےبس اور بےاختیار پاکستانی شہری ہوں، مگر اس بات کا بھی یقین کرو کہ میں صرف سُکھ میں ہی نہیں، تمھارے دکھ میں بھی تمھارے ساتھ جُڑا ہوا ہوں۔ کل جو خون بہا، اور جو خون اس سے قبل بہایا جا چکا ہے، اس کے دھبے، اس بے گناہ لہو کے نشان میری زندگی اور میرے ذہن پر بھی ہیں۔ بالکل ویسے ہی، جیسے تمھاری زندگی اور ذہنوں پر ہیں۔

کل مستونگ میں صرف تمھارے عزیز ہی نہیں قتل ہوئے، میرے پیارے بھی قتل ہوئے ہیں۔

فزکس پر چلتی اس دنیا میں، میرا دیومالائیت پر یقین نہیں رہا، مگر یہ جان رکھو کہ تمھارے ساتھ، تمھارے دکھوں میں رونے والے اور دعائیں کرنے والے لاکھوں پنجابی ہیں۔ تم خوش ہوتے ہو، تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ تمھارے زخم رِستے ہیں، تو تمھارے ساتھ، ہمارے زخم بھی رستے ہیں۔ یقین کرو کہ تمھارے اور ہمارے دکھ اور سُکھ سانجھے ہیں۔ جس بلا کے حبس میں تم زندہ ہو، ہم بھی اسی حبس میں زندہ ہیں۔ تمھیں یہ بتانا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

تمھارے ساتھ اپنی محبت کے اعلان کا اختتام، میرے بلوچ دوستو، میکسم گورکی کے لافانی ناول، ماں، کے اک اقتباس میں کچھ تبدیلی کے ساتھ کرتا ہوں:

“میں مہربان ریاست کا ذکر نہیں کر رہا تها جس کی تلاش میں ہم 1947 میں خون کا دریا عبور کر کے آئے تھے، بلکہ اس ریاست کی بات کررہا تها جس سے طاقتور لوگ ہمیں اس طرح ڈراتے ہیں گویا وہ کوئی عفریت ہوں۔ وہ عفریت کہ جس سے ڈرا کر وہ ہم جیسے تمام لوگوں کو چند افراد کی مجرمانہ خواہش کے سامنے سجدے کراتے ہیں۔ انہوں نے تو ہم پر اپنے جھوٹ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ وہ ہم سے ہر اس اخیتار کے ذریعے لڑتے ہیں جو ان کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ ذرا ایک لمحے کیلئے سوچو، وطن نے ہم سب کو اپنا بنانا تھا مگر ہم تو جیسے دیوتاؤں سے زیادہ وحشی درندوں کے سامنے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اختیار والے ہمارے لیے ہر زمانے میں اک ہوّا لے کر آتے ہیں۔ مگر ہمیں وطن کو بدلنا ہی ہوگا۔ اسے ذرا مانجھ کر صاف بھی کرنا ہو گا۔ درندوں نے وطن کو جھوٹ اور بہتان میں ملبوس کر دیا ہے۔ ہماری روحوں کو کچلنے کے لیے وطن کا چہرا مسخ کر دیا ہے، اسے خون میں رنگ دیا ہے!”

دن بدلیں گے۔ میرے وطن میں امن آئے گا۔ پھر ہم سب مل کر محبت گنگنائیں گے۔ میں اپنی رجائیت قائم رکھوں گا، بھلے جو مرضی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).