13 جولائی 2018 مستونگ سانحہ



نہ یہ فلسطین ہے ،نہ غزہ،نہ شام ،نہ برما،افغانستان اور عراق بھی نہیں ۔یہ مملکتِ خداد پاکستان ہے جہاں وحشت کا یہ عالم ہے جیسے سب پُل صراط پر چلنے کے لئے کمربستہ ہوں۔
مستونگ 200 افراد دوبارہ زندگی ملنے کی صورت میں بھی اب عمر بھرزندگی سے دور ہوگئے ۔جسم سے جان جدا ہوتی تو شاید یہ ایک دفعہ کی تکلیف ہوتی لیکن یہ لوگ جسمانی معذوری کی صورت جب تک سانسیں باقی ہیں اپنے جسم کے بوجھ کو گھسیٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔یہ وہ معصوم جمہور ہیں جوانتخابات کے جوش کو اپنے اندر سمائے اپنی ذات کی اہمیت کی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے اس جلسہ میں شامل ہوئے ۔انھیں کیا علم تھا اس بھیڑ میں اب وہ ساری عمر کے لئے کھو جائے گے۔

197 شہید ہوگئے جو اپنے گھر کے سربراہ ہونگے یا وہ چراغ کہ جن کی روشنی سے گھر منور ہونے کی خواہش لئے ماں باپ نے اپنی ساری عمر اُنھیں اپنے محبت کے سائے میں پروان چڑھایا ہوگا۔ کتنے ہی ایسے گھرانے ہیں جہاں آج ایک نہیں کئی جنازے اٹھیں گے اور اُسی گھر کا کوئی اور باسی اسپتال میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہوگا۔

چیخیں، آہ و بکا اور قیامت سے پہلے قیامت کا منظر روح کو جھنجوڑ رہا ہے۔ایک المیہ جس نے دوسو سے اوپر گھرانوں میں صفِ ماتم بچھادیا۔ لیکن ہوگا کیا ہم بھول جائیں گے، حکومت بھول جائے گی۔ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جائے گے۔ایسے سانحات میں گھر کی کفالت کرنے والا جان سے گزر جائے تو متاثرہ گھرانے پر غم کا پہاڑ ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ اسے معاشی مسائل کا طوفان بھی آ گھیرتاہے۔ باقی رہے گی تو فقط مستونگ کے گھروں میں رہنے والی بے چارگی جو آئندہ نسلوں کے دلوں میں احساسِ کمتری کو جنم دے کر ریاست سے انتقام کے نتیجے میں سامنے آئے گی۔ لیکن افسوس ہم ان نسلوں کے دکھ کو نہیں سمجھتے اور پھر نتائج ہمیں ویسے ہی بھگتنے پڑتے ہیں جیسے ڈورن حملوں کے بعد معصوم جانوں کے ضیاع کے نتیجے میں ان کی نسلوں کے دلوں میں پنپنے والی نفرت کی صورت میں سامنے آئے۔

2018ء کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والا یہ تیسرا واقعہ ہے۔اس سے پہلے بلوچستان کے شہر مستونگ میں ہی 13مئی2017 کو مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں 25 افراد شہید اورمولانا عبدالغفور سمیت 35افراد زخمی ہوئے۔ بنوں میں اکرم درانی کے قافلے کے قریب دھماکہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں 4 شہید اور10 زخمی ہوتے ہیں۔ یکہ توت میں بیرسٹر ہارون بلورسمیت 13 افراد شہید اور47 زخمی ہوئے۔ مزاروں میں خود کش حملوں کے نتیجے میں بھی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔بہرحال مستونگ میں حالیہ خودکش حملہ گزشتہ چار سالوں میں ہونے والا سب سے بڑا سانحہ ہے۔سکیورٹی اداروں کے بیان کے مطابق یہ خودکش حملے ہیں اور خود کش حملہ ہونے کا مطلب اس کا تعلق اسلام کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والوں کی کاروائی کا نتیجہ ہے۔انسانی لاشیں گرا کر کون سے مذہب کا پرچم بلند کرنے کا عزم یے، ہم سمجھنے سے عاجز ہیں۔

دوسری طرف اس سانحے نے ہمارے برقی ذرایع ابلاغ کی ترجیحات کا پول کھول کر رکھ دیا۔ ایک طرف سابق وزیرِاعظم اور ان کی صاجزادی مریم نواز کی آمد تھی اور ساتھ مستونگ کا سانحہ۔ یہ سانحہ ہر حال میڈیا کی اولین ترجیحات میں ہونا لازم تھا ۔جبکہ نواز شریف دوسری اہم خبر، لیکن افسوس ریٹنگ کی دوڑ میں آگے نکل جانے والے ہمارے ذرایع ابلاغ کے لئے 190 افراد کا لقمہ اجل بن جانا معمولی بات تھی۔ یوں ریاست کے چوتھے ستون نے کھل کراپنے کمزور ہونے کا قصہ عام کیا۔ کل جس خبر کو غیر اہم قرار دے کر دوسری خبر کا درجہ دیا گیا آج جب خبروں کے بازار میں لفظوں کی کمی ہوگی تو ان لوگوں کے جنازوں کو کوریج دی جائے گی۔ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ مستونگ سانحہ کے بعد مردہ خانوں میں لاشوں کو رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ زخمیوں کے لئے سہولیات نہیں تھیں لیکن یہ سب غیراہم تھا۔ نواز شریف صاحب کے طیارے سے لے کر آئندہ انتخابات میں ن لیگ کے مقام کا سوال اٹھایا جارہا تھا۔ یہ واقعہ اسپتالوں کی صورتحال، مرنے والوں کے لواحقین،زخمیوں کے لئے بہتر سے بہتر علاج، متعلقہ اداروں کے بیانات وغیرہ جیسے اہم مسائل پر کوریج کی حثییت رکھتا تھا۔ لیکن افسوس ہمارے نامی گرامی اینکرز جن کے لفظوں پر یہ قوم اعتماد کرتی ہے انھیں شرم نہیں آئی۔

رہی ریاست توریاست کو فوری طور پر پسماندگان کے لئے مالی امداد کا اعلان کرنا چاہیے۔ دہشت گردی دنیا میں کے کسی بھی حصے میں ہو،اس کی روک تھام اور اس کا سدباب خالصتاً ریاست کی بنیادی اور اولین ذمے داری ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اور روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے واقعات کے اسباب کا تعین کرنا بھی ریاست کی ذمے داری ہے۔ دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس سے متاثر ہونے والے افراد کو فوری طور پر اس کے اثرات سے نکالنے کے لئے ہر حکومت متاثرین کا مالی نقصان پورا کرنے اور امداد کا اعلان کرتی ہے مگر یہ امداد ملے گی یا نہیں اور ملے گی تو کب؟اس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ اگر ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم متاثرین کی اشک شوئی اور ان کے مالی نقصان کے ازالے سے گریز اور تاخیر نہ کریں۔ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے پاکستانیوں کے ہاتھ شل ہوچکے ہیں۔ دشمن تو مٹانے پر تلا ہوا ہے۔ ہمارے ادارے بھی اپنی غلط حکمتِ عملی کے ساتھ نادانستہ طور پر اُن کی مدد کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).