خون کے دھبے دھلیں گے


کب نظر میں آئے گی بے بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

الیکشن ہونے جارہے ہیں زور شور سے سرگرمیاں جاری ہیں لیکن پرامن طریقے سے جاری سرگرمیوں میں پشاور دھماکے نے دراڑ ڈال دی، بلور خاندان کے صوبائی اسمبلی کے لیے نامزد امیدوار ہارون بلور بیس کارکنان کی شہادت ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ایک دن پہلے ہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے الیکشن کے انتظامات کے سلسلے میں جو بریفنگ دی تھی اس میں بظاہر یہی نظر آرہا تھا کہ اس دفعہ الیکشن پرسکون طریقے سے ہو جائیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس دوسرے ہی دن پشاور میں انتخابی مہم کے سلسلے میں ہونی والی میٹنگ میں خود کش بمبار نے ہارون بلور سے گلے ملتے ہوئے خود کو اڑا لیا اور لمحہ بھر میں ہنستا کھیلتا ماحول خاک وخون میں نہا گیا۔

آفرین ہے ہارون کے نوعمر بیٹے دانیال بلور پر کس بہادری سے باپ کی موت پر بیان دے رہا ہے کہ خودکش جیکٹ ختم ہو جائیں گے ہمارے حوصلے ختم نہیں ہوں گے۔ بلور خاندان تو سیاست میں قربانیاں دے کر سرخرو ہوچکا لیکن کیا یہ درست ہے کیا اس طرح بے گناہ نہتے عوام پر دہشت گرد اپنی دہشت مسلط کریں۔ اتنے بڑے بڑے آپریشن ان کے خلاف ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ان کی بیخ کنی نہیں ہوسکی، جھول کہاں ہے، کمزوری کدھر ہے جو اتنے آپریشنز کے بعد بھی طالبان کمر کس کر میدان میں آجاتے ہیں اور ڈھٹائی سے دھماکہ کے بعد ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، ویسے یہ دہشت گرد اس معاملے میں ایماندار ہیں دھماکہ کرتے ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ تو اپنی غلطی قبول کرتے ہیں نہ یہ کہتے ہیں کہ سکیوریٹی میں ہماری طرف سے جھول تھا۔

جس نے دھماکہ کیا وہ تو ذمہ داری قبول کررہا ہے جنھیں حفاظت کرنی چاہیے تھی وہ لا علم ہیں اور نامعلوم دہشت گرد کی رٹ لگائے رکھتے اور بیان دیا جاتا ہے وطن کی خاطر شہید ہوگئے۔ بے گناہ مارے جانے والے شہید تو کہلاتے ہیں لیکن یہ جبراً مارے جاتے ہیں کسی کو پتہ ہو تو اس جگہ ہی نہ جائے کہ مارے جائیں گے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے کہ وہ کس طرح ایسے واقعات سے عوام کو باخبر کرتے ہیں اور کس طرح ان دہشت گردوں کو بے نقاب کرتے ہیں، دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ دہشت گرد دوبارہ سے نمودار ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کے پالنے والون جو پکڑو، ان کو چندہ دینے والوں کو پکڑو جب جا کر دہشت گرد ختم ہوں گے جب ان کی رسد بند ہوگی، ان کو سہارا دینے والوں کے ہاتھ توڑ دیے جائیں گے تب دہشت گردی ختم ہوگی۔ اوپر اوپر سے بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے کس طرح کل عدم جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی یقیناً ان کے پشت ہر کوئی بڑا ہاتھ ہی ہوگا۔

ابھی تحریر مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ جمعہ کے دن دو جگہ دھماکے ہوگئے بنوں میں اکرم درانی صوبائی امیدوار کے اسکواڈ پر خودکش حملہ ہوا پانچ شہید اور پینتیس زخمی ہو گئے، شکر ہے اکرم درانی محفوظ رہے۔ اس دھماکے کی دھمک کم نہ ہوئی تھی کہ مستونگ بلوچستان میں بی این پی کے قافلے پر خوکش حملہ ہوگیا یہ بہت بڑا اور اندوہناک دھماکہ تھا جس میں میر سراج رئیسانی صوبائی اسمبلی کے امیدوار سمیت ایک سو پینتیس افراد شہید اور ایک سو بیس کے قریب زخمی ہوئے۔

انتہائی افسوسناک واقعہ، شاید دھماکے میں وہ قوتیں ملوث ہوں جو پاکستان کا استحکام نہیں چاہتیں اور بلوچستان کو الگ کرنا چاہتیں ہیں۔ کیا یہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہورہی ہے ابھی تین دن پہلے تک حالات بالکل پر امن اور قابو میں تھے لیکن کہاں سے دہشت گردی کا جن انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا اور سارے دعوے دھرے رہ گئے۔ الیکشن ہوں نہ ہوں لیکن بے گناہ عوام کی کلنگ ختم ہونی چاہئیے اس کے لیے ضرب عضب، ردالفساد کے بعد ختم الجواز کرنا پڑے تو کریں، پاکستان اتنے شہیدوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہمیں اپنے وطن میں جیتے جاگتے انسان چاہیے۔

الیکشن ہونا اچھی بات ہے لیکن قانون نافذ کرنا اور سکیورٹی کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے۔ نگراں حکومت جو الیکشن پر امن کروانے کی ذمہ دار ہے اسے یہ ذمہ داری بخیر وخوبی نبھانی چاہیے۔ امیدواروں کی سکیوریٹی بلا امتیاز بڑھا دینی چاہیے۔ ہر پاکستانی پاکستان کے لیے اہم ہے چاہے پختون ہو یا بلوچ۔ سراج رئیسانی کا انتخابی نعرہ ” تعلیم یافتہ بلوچستان، تعلیم یافتہ پاکستان“ تھا، اس نعرے کو پورے پاکستان میں پھیلانا ہے تاکہ جاہل خود کش حملہ آوروں سے نجات ملے، دہشت گردی سے نجات ملے۔ ورنہ پوری قوم اس اندیشے میں مبتلا رہے گی

ذخیرہ کرلو آنسو اپنی آنکھوں کے کٹوروں میں
یہاں اب پانی مہنگا، خون سستا ہونے والا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).