کتاب ”ریحام خان“ پر ابتدائی تبصرہ


ریحام خان صاحبہ کی کتاب ”ریحام خان“ کا آنا تھا کہ بہت سے معزز صحافی فوراً چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر بن گئے، چن چن کر وہی ٹوٹکے لوگوں کے سامنے لائے جو عمران خان سے متعلق تھے۔ یہ عمران خان کے خلاف کیمپین تھی کہ ریحام خان صاحبہ کی تحریر کو نازیبا ثابت کرنے کی کوشش میں اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔

میں نے ان کی کتاب کو شروع سے پڑھنا شروع کیا تاکہ کسی شخص کی زندگی کے مصائب و حاصلات سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب کی ادبی حیثیت سے بھی شناسا ہو پاؤں۔ میں نے تاحتٰی آخری صفحات پر فوٹو تک نہیں دیکھے کہ کہیں میں تعصب کا شکار نہ ہو جاؤں۔

میں عمران خان کا ہم عمر ہوں اس لیے ریحام مجھ سے اتنی ہی کم عمر ہیں جتنی عمران خان سے مگر میں اس خاتون کی تعظیم کرتا ہوں، پہلی بات یہ کہ وہ خاتون ہیں، دوسری یہ کہ وہ ایک ڈاکٹر کی بیٹی اور دوسرے ڈاکٹر کی پوتی ہیں، تیسری بات یہ کہ وہ باہمت اور جرات مند ہیں، چوتھی یہ کہ سب رالف رسل یا مجاہد مرزا نہیں ہوتے کہ اپنی زندگی کا سارا کچا چٹھا کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیں پھر ایک خاتون جو کچھ بھی کہنے سے نہ جھجھکے ( یہ رائے ٹوٹکے پڑھنے کے بعد دے رہا ہوں، جب سیاق و سباق سے پڑھوں گا تو ممکن ہے رائے بدل جائے یا ممکن ہے یہی رہے )

جوان بیاہتا خاتون کے ساتھ خاوند کا سلوک پڑھ کے میں ریحام خان صاحبہ کے پہلے شوہر کو ایک بے ضرر سی گالی ”الو کا پٹھا“ بکنے پر مجبور ہو گیا جو میں نے اکیلے بیٹھے ہوئے بلند آواز میں بکی۔ ہم سارے ہی مرد عورتوں کے بارے میں نہ صرف متعصب ہیں بلکہ موقع ملے تو امتیازی سلوک کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ بات عورتوں کے مساوی حقوق کے حامیوں کے بارے میں بھی غلط نہیں ہے، ہر مرد حصہ بقدر ہمت اوست ادا کرتا ہے۔ عورتیں بھی اپنے تعصب اور مردوں سے متعلق اپنے خاص خیالات سے مستثنٰی نہیں ہیں۔

عورتوں پر گھریلو جسمانی تشدد قابل مذمت ہے مگر کئی خواتین پر جیسے ریحام خان صاحبہ کے ساتھ ان کے پہلے شوہر نے کیا جو ذہنی تشدد ہوتا ہے اس کا اندازہ لگا انا ماہرین نفسیات کے لیے بھی دشوار ہوتا ہے۔ ماہر دماغی امراض لیکن خود ہی مریض ذہن ڈاکٹر کا رویہ اپنی جوان بیوی ریحام خان اور بچے ساحر کے ساتھ جیسا بیان کیا گیا ہے بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریحام خان صاحبہ کوئی افسانہ نگار ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے کچھ مبالغہ آرائی کی ہو مگر جھوٹ بہر طور نہیں بولا، کیونکہ خود نوشت ناول نہیں ہوا کرتی۔

میں نے اپنی خود نوشت لکھی ہے جو بہت سے دوست پڑھ چکے ہیں، مگر میری سابق بیوی جس کے ساتھ آج بھی اچھے انسانی تعلقات ہیں نے اتنا سا تبصرہ کیا تھا کہ تم نے تو اپنا نکتہ نظر لکھا ہوگا نا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ تم اپنا نقطہ نظر لکھ دو، یا مجھے بتاتی رہو، میں بلا کم و کاست نوٹس بنا کر خود لکھ دوں گا۔ تب وہ نہ مانی تھی مگر ریحام خان صاحبہ کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں کیوں نہ اپنی سابقہ بیوی کے نکتہ نگاہ سے ایک ناول لکھوں۔ آج اس سے درخواست کی ہے کہ اس نے میرے ساتھ رہتے ہوئے جو جو کچھ محسوس کیا وہ جیسے لکھتی ہے لکھ ڈالے تاکہ ناول لکھنے میں میری مدد ہو سکے۔

ریحام خان صاحبہ کی کتاب ادبی لحاظ سے تو کوئی اہمیت کی حامل نہیں ہے کیونکہ اس میں تحریر کے تسلسل کے کچھ سقم ہیں لیکن ایک سچی داستان ( یاد رہے کہ ہر شخص کا اپنا سچ ہوتا ہے ) کے طور پر اچھی کاوش ہے۔

انتخابات سے پہلے کتاب کا سامنے آنا ممکن ہے کچھ سیاسی مضمرات کا بھی حامل ہو مگر ہمارے عوام کی اکثریت عقیدت کی عادی ہے، عورت جس کی گواہی آدھی ہے اور جسے کم عقل خیال کیا جاتا ہے، اس کی کہی بات پر بھلا کون دھیان دے گا، ویسے بھی کتاب کتنے لوگ پڑھتے ہیں اور ان میں سے بھی کتنے ہوں گے جو کتاب کو کتاب سمجھ کر پڑھیں، نہ کہ چسکے دار تحریر سمجھ کر جبکہ یہ کتاب ایک بے بس بنا دی گئی لڑکی کی ہمت جمع کرنے کی کہانی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).