ہماری قومی ذہانت پر گوئبلز کی بدروح دھمال ڈال رہی ہے


طویل مدتی اثرات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی فرد، قوم یا نظریے کے حق یا مخالفت میں کیے جانے والے جھوٹے پراپیگنڈے کے اثرات تباہ کن ہی رہے ہیں۔ جھوٹے پراپیگنڈے کے زیر اثر نفرت، حسد اور دشمنی کے اجتماعی ہسٹریا میں بدلا جاتا رہا، بستیاں تاراج کی گئیں اور کئی اقوام کا وجود ہی مٹا دیا گیا۔ تا ہم جھوٹے پراپیگنڈے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگوں نے اس کا سہارا لے کر وقتی ہی سہی مگر نا قابل یقین حد تک کامیابیاں حاصل کیں۔ نازی پراپیگنڈا وزیر جوزف گو ئیبلز کا اشارہ بھی غالباً اسی نوعیت کی کامیابی کے بارے میں تھا جب اس نے کہا کہ ’جھوٹ اس قدر بولو کہ لوگوں کو سچ لگنے لگے‘۔
جھوٹے پراپیگنڈے کا مو¿ثر استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے تمام سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹ دیا۔ قوم کی غالب اکثریت پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر یا ڈر کر نازیوں کی حامی ہو گئی اور اقتدار پر ہٹلر اور اس کے حامیوں کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔یہ الگ بات ہے کہ جرمنی بطور معاشرہ اور بطور ملک تباہ و برباد ہو کر رہ گیا، مہذب انسانوں کا معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک درندہ سماج میں بدل گیا ۔ نفرت کی اندھی آگ کو نازیوں نے اپنے ہولناک جرائم کو دوام دینے کے لیے استعمال کیا۔ مذہبی یا ثقافتی اقلیت ہونا ہی نہیں اختلاف رائے بھی ایک سنگین جرم بن گیا جس کی سزا بھیانک موت تھی۔ نتیجے میں نفرت کا مارا اور جنگی جنون کا شکار جرمن معاشرہ کچھ ہی برسوں میں زمین بوس ہو گیا اور اپنی عالمی تنہائی کی وجہ سے ہر محاز پر ہزیمت آ میز شکست سے دوچار ہوا۔
آج وطن عزیز کے حالات بیسویں صدی کے پہلے نصف میں یورپی معاشروں سے مختلف معلوم نہیں ہوتے۔ ملک میں ’شیطان سازی ‘ کی فیکٹریوں نے کام شروع کیا تو کچھ مذہبی اقلیتیں اور سوشلسٹ ابتدائی ’شیطان‘ قرار پائے جن کا وجود ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے لیے ایک خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ بعد میں ملک اور اسلام دشمنوں کی فہرست طویل ہوتی چلی گئی اور غداری اور کفر کے لیبل حسب منشا کسی بھی مال پہ چسپاں کر کے اسے ’ممنوعہ و حرام‘ کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
علاقائی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے بعد مرکزی دحارے کی قومی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی گوئبلز کے بتائے تیر بہدف نسخے کا شکار ہوکر دفاعی انداز اختیار کرنے اور نتیجے میں کئی طرح کے سمجھوتوں پر مجبور کر دی گئی ۔ تاہم کسی کے گمان میں نہ تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب نظریاتی سرحدوں کی ضامن بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) غداروں اور ملک دشمنوں کی صف میں لا کھڑی کر دی جائے گی، اس سیاسی کے کئی قائدین کے ایمان پر سوالیہ نشان لگیں گے اور اس کی سرگرمیوں کو قومی مفاد کے منافی قرار دیا جائے گا ۔ اور یہ سب کچھ اس تواتر کے ساتھ ہو گا کہ بہت سے الزامات کی صداقت پر ایمان لے آئیں گے۔
گوئبلز کا نظریہ جھوٹ کس قدر موثر ہے اس کی ایک جھلک اس ’فہم و دانش‘ کا اظہار بھی ہے کہ گویا نواز شریف کی صورت میں باا ثر طبقے کا پہلا فرد گرفت میں آیا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں مثالی انصاف اور قانون کی حکمرانی کے سنہری دور کا آغاز بس ہوا ہی چاہتا ہے۔ اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والوں کی عظیم دانش اس حقیقت کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں کہ 19برس قبل اسی نواز نواز شریف کو ہتھکڑیاں لگا کر نہ صرف جیل میں ڈالا گیا بلکہ کئی برسوں تک جلا وطن رکھا گیا۔
یہ عظیم دانش اس تاریخ سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتی کہ قائد اعظم کن حالات میں دنیا سے رخصت ہوئے، لیاقت علی خان کے حصے میں گولی آئی، بعد کے سیاست دان چھ چھ ماہ کی شفٹ میں بطور وزیر اعظم بھرتی ہوتے رہے اور پھر طویل مارشل لا کے دوران قائداعظم کی ہمشیرہ سیاست کے جرم میں غدار ٹھہریں اور زیر عتاب حالت میں دنیا سے چلی گئیں۔اسی عرصے میں اختلاف رائے رکھنے والے تمام سیاستدانوں پر بدنام زمانہ ’ایبڈو‘ لگا کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔اپنے وقت کی مقبول ترین سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹوتختہ دار پہ جھول گئے اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹوکو نئی صدی کی پہلی دہائی میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔
سیاست دانوں کو عبرت کا نشان بنائے جانے پر جھومتا ہوا یہ رجائیت پسند اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کو تیار نہیں کہ سیاسی میدان میں سب سے شریف النفس شخص کہلائے جانے والے محمد خان جونیجو کو کیسے کسی جروم و خطا کے بغیر گھر کا راستہ دکھایا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 11 برس جیل میں گزارے ۔ یہ رجائیت پسند ذہانت ان حقائق کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے سے یکسر انکاری ہے کہ وطن عزیز میں کوئی دور، کوئی عہد ایسا نہیں گزرا جب سیاست دانوں کو مقدمات، سزاو¿ں اور کردار کشی کا سامنا نہ رہا ہو مگر قربان جائےے گوئبلز کو نظریہ جھوٹ پہ کہ ’ایسا پہلی بار ہوا ہے اور اب دودھ اور شہد کی نہریں بس بہنے ہی کو ہیں’۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس طرح کے اعتقادات ہماری اجتماعی زود رنجی کی تسکین کرتے ہوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).