نواز شریف کا غلط رول ماڈل، غلط راستہ


\"mujahid

خبر ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف موجودہ سیاسی بحران میں ترک صدر رجب طیب اردگان کو رول ماڈل سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر وہ فوج اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ موجودہ تنازعہ سے نمٹ سکتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ نواز شریف پامانا پیپرز کے انکشافات کے بعد شدید دباؤ کا شکار رہے ہیں، تاہم ترکی کے مطلق العنان حکمران کی شہرت رکھنے والے صدر اردگان کو رول ماڈل سمجھنے کی غلطی کرکے وہ موجودہ بحران سے بھی ذیادہ بڑی مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ہر ملک اپنے ماحول اور حالات کے مطابق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، خود بہتر راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرنے میں تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن اگر نواز شریف کسی دوسرے ملک میں کئے جانے والے تجربات کو پاکستان میں دہرانے کی خواہش رکھیں گے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اپنے سیاسی پس منظر، سماجی اور معاشرتی صورت حال کی وجہ سے ایک خاص طرح کا ملک ہے ۔ یہاں پر سامنے آنے والے سیاسی چیلنجز کا مقابلہ بھی یہاں کی قیادت کو ملک و قوم کی خواہشات اور ضرورتوں کے مطابق کرنا ہوگا۔ پھر بھی اگر کسی مسلمہ جمہوری روایت کے حامل ملک کی مثال دیتے ہوئے اقدام کیا جائے تو شاید اس کی تحسین کی جا سکے۔ مثال کے طور پر اگر وہ پاناما اسکینڈل کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمنڈ ڈڈیوڈ گن لاؤسن Sigmundur David Gunnlaugsson کی طرح استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیتے یا برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرح پارلیمنٹ میں اپنی بے گناہی کا اعلان کرتے اور عوام اور پارلیمنٹیرئینز کی تسلی کے لئے اپنے مالی معاملات کی تفصیلات پبلک معائنے کے لئے پیش کردیتے، تو اسے مستحسن اقدام سمجھا جاتا ۔ تب ملک میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوتا جو کسی ثبوت کے بغیر ہی وزیر اعظم کی بے گناہی کو تسلیم نہ کرتا۔ بلا شبہ نواز شریف اور مسلم لیگ کو ایسے کسی بھی فیصلہ سے سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا تھا اور اپوزیشن کا منہ بھی بند ہو جاتا۔ لیکن ایسی مثالوں سے استفادہ کرنے کی بجائے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وزیر اعظم ترکی کے صدر کی جرات اور حوصلہ کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی طرح مستقل مزاجی اور سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے بعض غیر منتخب مشیر اس حوالے سے پاکستان اور ترکی کی مماثلت سامنے لاکر واضح کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے حالات ایک سے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو طیب اردگان نے اپنایا ہے۔

ترک صدر اردگان نے حال ہی میں اپنے کٹھ پتلی وزیر اعظم داؤد اوغلو کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے اور اپنی اس خواہش کا صاف اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں صدارتی نظام استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس مقصدمیں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے علاوہ یورپ کے ساتھ بھی تصادم کی پالیسی اختیار کی ہے۔ چند برس پہلے تک ترقی کی طرف گامزن ترکی فرد واحد کی مرضی و منشا کی تکمیل اور صدر اردگان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چاروں جانب سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ متعدد امور پر تنازعہ کا شکار ہیں تو دوسری طرف روس کو بھی اپنا دشمن بنا چکے ہیں۔ ان سیاسی غلطیوں کے علاوہ ان پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بے شمار الزامات ہیں۔ ایسے ہی الزامات کا شکار کوئی دوسرا لیڈر اگر اردگان کو اپنا رول ماڈل بنا کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس کی ناکامی کی پیشین گوئی کرنا مشکل نہیں ہے۔

صدر اردگان گیارہ برس تک وزیر اعظم رہنے کے بعد دو برس سے ملک کے صدر ہیں۔ اپنی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے دور میں ترک فوج کو سیاست سے علیحدہ کیا گیا لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لئے ملک کے اسلام پسند عناصر نے دہائیوں طویل جد و جہد کی تھی اور بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ اس لئے یہ تصور کرلینا کہ صدر اردگان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں بھی فوج کو سیاست سے فوری طور پر علیحدہ کیا جا سکتا ہے، ایک نئے افسوسناک تصادم کو آواز دینے کے مترادف ہوگا۔ نواز شریف اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا ہیں لیکن مشکل وقت آنے پر یہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ چند برس پہلے ہی وہ اس بات کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ اگرچہ شریف خاندان نے پنجاب اور ملک پر لگ بھگ تین دہائیوں تک حکومت کی ہے لیکن اس میں فوج سے خود مختاری کی بنیاد پر حکومت کرنے کا عرصہ بہت قلیل ہے۔

پاناما پیپرز کی دوسری قسط سامنے آنے کے بعد اپوزیشن پر دباؤ میں اضافہ ہو گا کیونکہ اس بار اپوزیشن کے کئی لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اپوزیشن باہمی چپقلش اور نامناسب حکمت عملی کی وجہ سے وزیر اعظم پر دباؤ بڑھانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کو تحمل اور اعتماد سے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن یا فوج کے ساتھ تصادم کی صورت میں حکومت یا جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments