ایک یوم سوگ نگران حکومت کی بے بسی پر منانا چاہئے


مستونگ دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے معصوم شہریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اور پاک فوج کے سربراہ نے حسب روایت افسوس کا اظہار کر کے اور مذمت پر مشتمل بیانات جاری کر کے مرنے والوں کی تعزیت کی ہے اور پس ماندگان سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے چار روز میں تین دہشت گرد حملوں میں 200 سے زائد لوگوں کی شہادت پر اتوار کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس روز پاکستان کا پرچم شہدا کی یاد میں سرنگوں رہے گا۔ وزیر اعظم کے اس ’اعلان ہمدردی یا یک جہتی‘ سے مرنے والوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس ملک کے زندہ انسان ضرور یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ اس یوم سوگ کے بعد اس اطمینان سے گھروں سے نکل سکتے ہیں کہ اب حکومت اور سیکورٹی ایجنسیاں سیاسی بناؤ بگاڑ میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے فرض منصبی پر عمل کررہی ہیں اور شہریوں کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔

اگر حکومت اور وزیر اعظم یہ وعدہ کرنے اور یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو اس یوم سوگ سے کیا حاصل ہو گا۔ وزیر اعظم سمیت کون ہے جو دہشت گردی کی مذمت نہیں کرتا، کون ہے جو بے گناہوں کے بےموت مارے جانے والوں کے لئے خون کے آنسو نہیں بہاتا اور کون ہے جو اس ملک کو خوش حال اور محفوظ دیکھنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود اس ملک میں ایسے گروہوں ، عناصر اور مزاج کو فروغ پانے کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا گیا ہے جس کے بطن سے وہ سفاک پیدا ہوتے ہیں جو معصوم شہریوں پر حملوں کو کسی عظیم مقصد کی تکمیل سمجھتے ہیں۔ اسی مزاج کا شاخسانہ ہے کہ ملک میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ ’انتہاپسندانہ ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کی کچھ باتیں تو درست ہیں لیکن ان کو بھی کچھ شکایات ہیں۔ ان کے دل کا حال بھی جاننا چاہئے‘۔ وزیر اعظم ناصر الملک کو قومی سوگ منانے کا اعلان کرنے سے قبل یہ جواب دینا چاہئے کہ کیا اس ایک یوم الم سے انتہا پسند بیانیہ اور اس کے ہمدردوں کے رویہ میں کوئی تبدیلی رونما ہو گی۔

اگر ’یوم سوگ ‘منانے سے ہی مسئلے حل ہوسکتے ہیں تو ایک یوم سوگ حکوت وقت کی بے بسی پر بھی منانا چاہئے جو حکمرانی کے دعوے کے باوجود بے بس اور معذور ہے لیکن اس بے بسی میں بھی ایک سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم یہ حکومت اپنی آئینی حدود کو سمجھنے کی بجائے اربوں روپوں کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے رہی ہے۔ حکومت کی یہی ’فراخدلی‘ اس کی کم ہمتی پر دلالت کرتی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی اور گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور جیل میں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ روا رکھے جانےوالے سلوک سے بھی حکومت وقت اور وزیر اعظم ناصرالملک کی بے بسی عیاں ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ نواز شریف کو کس الزام میں کیا اور کیوں سزا دی گئی ہے، جیل میں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک اور روا رکھے جانے والے توہین آمیز طرز عمل کی پوری ذمہ داری نگران حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

ملک کے آئین میں نگران انتظام قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی حکومت غیر جانبدار ہو گی اور ملک میں حکمرانی کے لئے ایک دوسرے کے مد مقابل سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کے حوالے سے کسی قسم کا یک طرفہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامیوں کے ساتھ ملک بھر میں برتے جانے والے سلوک اور سیاسی کارکنوں کی دھڑا دھڑ گرفتاریوں سے صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو اس غیر سیاسی نگران حکومت کو معاملات پر اختیار حاصل نہیں ہے یا کابینہ کے ارکان اور اس کے سربراہ وزیر اعظم ناصر الملک کو اپنا اختیار استعمال کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ورنہ یہ حکومت ان ہی ریاستی طاقتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کیوں بنتی جن کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے نواز شریف برطانیہ جیسے محفوظ ملک سے پاکستان جیسے غیر محفوظ اور ناقابل بھروسہ نظام کے حامل ملک پاکستان واپس آئے ہیں۔ نگران حکومت اور اس کے ارکان کی کوئی سیاسی مجبوری نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں انتخاب میں حصہ لے کر مستقبل میں قسمت آزمائی کا شوق ہوتا ہے۔ یہ مجبوریاں سیاست دانوں اور ان کی پارٹیوں کے حصے میں آتی ہیں۔ اسی لئے اسٹبلشمنٹ مضبوط ہوتی ہے اور سیاسی اقتدار کے خواہشمندوں کو ایک دوسرے سے بھڑا کر اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے۔ اس کھیل کے پرانے شناور نواز شریف نے اقتدار اور اختیار کی اسی ساز باز کے خلاف کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے اور اس کی سزا پانے کے لئے وہ اڈیالہ جیل کے ایسے سیل میں بند ہیں جہاں نہ انہیں ائیر کنڈیشنڈ فراہم کیا گیا ہے، نہ اخبار میسر ہے۔ ان کی لیگل ٹیم پانچ منٹ کی مختصر ملاقات میں جو معلومات باہر لائی ہے اس کے مطابق ملک کے سابق وزیر اعظم کو جو باتھ روم استعمال کے لئے دیا گیا ہے وہ نہایت گندا اور حفظان صحت کے منافی ہے۔

یوں تو نگران حکومت کی بے بسی کا اس سے بڑا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ پیچیدہ اور مشکل مقدمات کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو اپنے وکلا سے جیل حکام نے صرف پانچ منٹ ملنے کی اجازت دی۔ مریم نواز کے ساتھ لیگل ٹیم کو ملنے بھی نہیں دیا گیا بلکہ ان کے ذاتی وکیل سے مختصر ملاقات کو کافی سمجھا گیا۔ اس صورت میں جسٹس ناصر الملک کو صرف اس بات کا جواب دینا ہے کہ اگر بطور وزیر اعظم وہ ان عناصر کے سامنے اتنے ہی بے بس ہیں کہ جیل کے حکام بھی ان کے قبضہ قدرت میں نہیں تو انہیں یہ عہدہ قبول کرنے کی کیا مجبوری تھی۔ سیاست دان تو کہہ سکتے ہیں کہ انہیں حکومت کرنے کے لئے مفاہمت کرنا پڑتی ہے اور طاقت کے اصل مراکز کی جبین پر شکن سے خود کو محفوظ رکھنا پڑتا ہے تاکہ ملک میں جمہوری حکومتیں اپنی مدتیں پوری کرتی رہیں۔ لیکن ناصر الملک اور چاروں صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ کو ایسی کون سی ایسی مجبوری ہے۔ انہوں نے تو مختصر مدت کے لئے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے عہدے سنبھالے ہیں لیکن ان کی بے اختیاری کا یہ عالم ہے کہ وہ دہشتگردوں کو تو کیا روکیں گی، سیاسی جماعتوں کو سرگرمیاں جاری رکھنے اور اپنے لیڈر کا استقبال کرنے کے لئے باہر نکلنے والے لوگوں کو ان کا بنیادی حق دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ ناصر الملک اگر نہیں جانتے کہ کون اور کیوں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو نشان عبرت بنانے کے درپے ہے تو ان کی عقل پر ماتم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ یہ جانتے ہوئے بھی ملک کے سابق وزیر اعظم کو اس کا جائز احترام و حق اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دے سکتے تو ایسی بے بس حکومت سے اظہار ہمدردی کے لئے ایک دن کا سوگ ہی منایا جا سکتا ہے۔

کیا المناک تصویر ہے ملک کا بے بس نگران وزیر اعظم سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہے لیکن اپنا اختیار سمجھنے اور برتنے پر قادر نہیں۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ایک ’دانشور، پروفیسر اور تجزیہ نگار‘ ہے۔ حسن عسکری نے ساری زندگی شہری آزادیوں اور سول ملٹری تعلقات پر گل افشانی کی ہے لیکن کل لاہور میں وہ چند ہزار لوگوں کے اجتماع کو نعرے لگانے اور ائیر پورٹ جانے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وائے ری مجبوری کہ حکومت خواہ نظام سقہ کی طرح ہی ہو لیکن اسے ایک پروفیسر بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اس پر فائز رہتے ہوئے چابی والےکھلونے کی طرح حرکتیں کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس بے بسی پر یوم سوگ نہ منایا جائے تو اور کیا کیا جائے۔

ملک کے وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ اگر انتخابات کے دوران تحریر و تقریر، اجتماع اور جلوس کی آزادی فراہم کرنے کے بھی روادار نہیں تو ان کی ’نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ تو پہلے سے نوشتہ دیوار ہے۔ اس تحریر میں یہ تو شامل ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرنا ہے لیکن یہ پیغام ملک کے لئے جس مشکل اور جمہوریت کے لئے جس ناکامی کا سبب بنے گا اس کی ذمہ داری بالآخر نگرانوں ہی کو قبول کرنا پڑے گی۔ وہ جن کو خوش اور مطمئن کرنے کے لئے مجبور محض بنے ہوئے ہیں، وہ عناصر دوسروں پر ذمہ داری ڈال کر اختیار خود استعمال کرتے ہیں۔ یہ نوشتہ دیوار بھی اسی تحریر کے ساتھ درج ہے جس میں نواز شریف کو عبرت کا نشان بنانے کا حکم نامہ لکھا ہے۔

نگران حکومتوں کی بے بسی کے لئے یوم سوگ منایا جائے تو اس روز ایک سیاہ علم ملک کے بے باک چیف جسٹس ثاقب نثار کے لئے بھی بلند ہونا چاہئے۔ انہیں قانون جاننے اور عدالتوں میں خدمات سرانجام دینے کے صلے میں یہ عہدہ جلیلہ نصیب ہؤا تھا لیکن اب ان کی زندگی کا مقصد ڈیم بنانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنا اور اس کے بعد قوم کے قرضے اتارنے کی مہم شروع کرنا ہے۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ملنے والے خصوصی اختیار کے تحت خود کو آئین سے بالا سمجھنے والے اس چیف جسٹس کو کل لاہور میں انسانوں کے حقوق سے کھلواڑ دکھائی نہیں دیا۔ کیوں کہ وہ انصاف فراہم کرنے سے بھی بڑے اور ’عظیم قومی مقصد‘ میں مصروف ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس کی بے بسی پر بلند ہونے والے اس سیاہ علم پر بڑے حروف میں لکھ دیا جائے ’ اس ملک میں کسی عہدے پر فائز ہونے کے بعد اپنی ذمہ داری پورا کرنے کے سوا ہر کام کرنا جائز ہوتا ہے۔ تابسکہ صاحبان اختیار کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali