عدلیہ کا تاریخ ساز فیصلہ ملکی ترقی کی جانب ایک اہم قدم


چوری کے ایک مقدمے کے فیصلے پر سزا کے خلاف سفارش آئی تو محسنِ انسانیتؐ نے فرمایا تم سے پہلے قومیں اسی لئے تباہ ہوتی تھیں کہ جب کوئی غریب آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی، مگر جب کوئی با اثر شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا۔ خدا کی قسم اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔ اس تناظر میں 6 جولائی کا فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں فیصلہ ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک قابلِ ذکر سیاسی پارٹی کے سربراہ تین مرتبہ پاکستان کے منتخب شدہ سابق وزیراعظم کے خلاف فیصلہ لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا، کیس بھی لندن فلیٹس کی خریداری میں بدعنوانی، بددیانتی اور قانونی تقاضے پورے نہ کرنے کے خلاف اور فیصلہ بھی ایسا جسے لکھتے ہوئے دانتوں پسینہ آ جائے۔

قانون امیر، غریب، طاقتور اور کمزور سب کے لئے یکساں ہے۔ بے لاگ عدل سے مستقبل کے مضبوط اورترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ عدلیہ کو اس مقام تک پہنچانے میں بے خوف، جری، معاملہ فہم اور عادل چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی قابلِ فخر خدمات سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ادارے یا گھر کا سربراہ بے خوف اور نڈر ہو تو اس کا سارا عملہ، اس کا سارا خاندان

جان ہتھیلی پر رکھنے سے دریغ نہیں کرتا۔ خصوصاً اس وقت جب کہ نہ صرف ایک سابق وزیراعظم ان کی دختر، داماد اور صاحبزادوں بلکہ ملک کی معروف سیاسی پارٹی تک کے مستقبل کا فیصلہ اسی عدالتی فیصلے کا مرہونِ منت ہو۔ سابق وزیراعظم کا دعوا کہ اس فیصلے سے بدعنوانی اور قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب ثابت نہیں کیا جا سکا نیب کے قانون کی دفعہ 4 کی حد تک قابلِ قبول ہو سکتا ہے مگر نیب قانون کی دفعہ (v)(a)9)اس بودے دعوے کو مکمل طور پر بے نقاب کرتی نظر آتی ہے۔ قانون کی دفعہ 9 کی تمام ذیلی دفعات میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی ثابت ہونے پر بدعنوانی اور بددیانتی کا ارتکاب مکمل طور پر ثابت ہو جاتا ہے۔ جج صاحب بطور منصف انصاف کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے میں بطریقِ احسن کامیاب ہوئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دعوے کے خلاف اپیل میں مجرم یا منصف میں سے کون فاتح قرار پاتا ہے؟

6 جولائی کو بارہا فیصلے کے وقت میں تبدیلی سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے والوں کو یہ بات ضرور مدِنظر رکھنی چاہیے کہ جج بھی ایک انسان ہوتا ہے۔ جج کو بھی عام انسانوں کی طرح ہر اہم اور نازک کام کے لئے تائیدِغیبی یعنی اللہ کی مدد درکار ہوتی ہے۔ جج صاحب نے بھی ہر سچے مسلمان کی طرح اپنے اس اقدام اور فیصلے کو باگاہِ ایزدی میں پیش کر کے اس سے نصرت وکامرانی طلب کرنی تھی۔ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کر کے اس پر قائم رہنے، ہر قسم کے دباؤ کا مقابلہ کرنے، ملزم کو صفائی کا بھرپور موقع دینے اور بحیثیت جج اٹھائے جانے والے حلف کی پاسداری کرنے کے لئے سب سے بڑے عادل سے رجوع کرنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).