یہ جو دس کروڑ ہیں، یہ جہل کا نچوڑ ہیں


بالآخر ایک اور منتخب سیاسی رہنما اور اس کی بیٹی نے قانون کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے گرفتاری دے دی۔ نواز شریف اور مریم نواز کی لاہور آمد پر جس بدترین ریاستی جبر کا مظائرہ کیا گیا اس کو پوری دنیا نے دیکھا ۔ لاہور شہر ایک مقبوضہ علاقے کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں کینٹینرز ،پولیس اور رینجرز کی مدد سے بدحواس انتظامیہ نے مسلم لیگ نواز کی استقبالیہ ریلی کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رہی سہی کسر میڈیا بلیک آوٹ اور موبائل اور انٹرنیٹ سروس کو بند کرنے سے پوری ہو گئ۔ ان تمام نامساعد حالات کے باوجود مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کا ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلنا مسلم لیگ نواز اور اس کی مستقبل کی مزاحمتی سیاست کے لئیے ایک خوش کن پہلو ہے۔ مین اسٹریم میڈیا نے جس قدر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی ریلیوں کی براہ راست کوریج نہ کرنے کا فیصلہ کیا اس کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اب شعبہ صحافت نے نڈر اور بیباک تجزیہ نگار اور صحافی پیدا کرنا بند کر دئیے ہیں۔ صحافت کا شعبہ سچ کا متقاضی ہوتا ہے اور جن لوگوں میں سچ بولنے یا لکھنے کی قیمت چکانے کا حوصلہ موجود نہ ہو تو صحافت کے شعبے کو اپنانے کے بجائے انہیں کہیں منشی گیری اختیار کر لینی چائیے۔

اب نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو ہی پابند سلاسل کیا جا چکا ہے اور اپنے لاڈلے عمران نیازی کی جیت کا راستہ ہموار بھی کیا جا چکا ہے اور اناوں کی تسکین بھی حاصل کی جا چکی ہے تو ایسے میں لگے ہاتھوں مفرور مجرم جرنل پرویز مشرف کی بہادری کا لٹمس ٹیسٹ لینے کا بھی نادر موقع ہے۔ ایک ایسا وقت جس میں نگرانوں سے لیکر منصفوں تک سب “اپنے” ہیں پرویز مشرف کو وطن بلوا کر راو انوار کی مانند باآسانی ضمانت دلوا کر کچھ عرصے میں اس پر قائم شدہ مقدمات بھی ختم کئیے جا سکتے ہیں۔ لگے ہاتھوں “اپنوں” کی زیر نگرانی پاکستان کے مستقبل کے متوقع وزیر اعظم کا ڈوپ ٹیسٹ لیکر اس پر کوکین استعمال کرنے کے الزام کو بھی غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ احتساب کا سلسلہ چل ہی نکلا ہے تو ملک ریاض اور دیگر من پسند افراد کے کیسز بھی باآسانی من پسند احتساب کے زریعے ختم کروائے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف اور مریم نواز کو سبق سکھانے کیلئے اڈیالہ جیل میں جو اہتمام کیا گیا ہے اس کو دیکھ کر باآسانی ایک عوامی سیاسی راہنما اور اس ملک میں جمہوری بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کی اوقات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ نواز شریف جو کہ ملک کا تین دفعہ منتخب وزیر اعظم رہ چکا ہے اسے جیل کی کوٹھڑی میں فرش پر ایک گدے پر سلایا جا رہا ہے۔ خستہ حال کوٹھڑی اور اس سے ملحق غلیظ ترین بیت الخلا اسے اس کی اوقات یاد دلوا رہا ہے۔ جبکہ مریم نواز نے بذات خود کسی بھی قسم کی سہولت لینے سے انکار کرتے ہوئے عام قیدیوں کی مانند رہنے کو ترجیح دی ہے۔ مریم نواز اعصابی طور پر نادیدہ قوتوں کو ابھی تک واضح شکست دیتی دکھائ دیتی ہیں۔

خیر نواز شریف اور مریم نواز کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرتے دیکھ کر مفرور جرنیل پرویز مشرف کو شاید آئینے میں اپنے آپ سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ہو گا۔ شاید اسی لئیے میڈیا کو نواز شریف اور مریم نواز سے مکمل دور رکھنے کی حکمت عملی بھی ترتیب دے گئ ہے ۔ نواز شریف اور مریم پر دیگر مقدمات جیل کے اندر ہی چلائے جائیں گے تا کہ میڈیا کسی بھی طور ان دونوں کی تصاویر یا فوٹیج نشر نہ کرنے پائے۔ یوں نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق نہ تو میڈیا پر نواز شریف اور مریم نواز نظر آئیں گے اور نہ ہی پرویز مشرف اور اس جیسے دیگر ملزمان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب جبکہ گاڈ فادر اور سیسیلین مافیا جیل میں جا چکا ہے تو قوی امید کی جا سکتی ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ مودی کا یار چونکہ جیل بھیجا جا چکا ہے اس لئیے شاید جلد ہی ہم بھارت کے دانت کھٹے کرتے ہوئے لال قلعے پر اہنا پرچم لہرا دیں گے جبکہ اففانستان ہمارے قدم چومنے کیلئے تیار بیٹھا ہو گا۔ قوی امید ہے کہ فرشتہ صفت عمران خان اقتدار میںآتے ہی دودھ اور شہر کی نہریں وطن عزیز میں بہا دیں گے اور اپنے آس پاس کھڑے بے ایمان لوگوں کے علاوہ تمام بے ایمان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیں گے۔ جلد ہی امریکہ اور برطانیہ کے لوگ دس کروڑ نوکریوں میں سے چند نوکریاں ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے جبکہ پوری دنیا ہماری اعلی عدلیہ سے ڈیمز بنانے کے نسخہ کیمیا کی بھیک مانگتی دکھائی دے گی۔ شیخ رشید اور عمران خان کی شائستہ گفتگو کو نصاب میں شامل کرتے ہوئے معاشرے کی اخلاقی تربیت کا بھی بندوبست کر دیا جائے گا ۔ البتہ کرپٹ لیڈرز کے بیانئیے کو ماننے والی عوام کا ایک بڑا حصہ جو بقول عمران خان کی اخلاقی لغت کے مطابق “گدھا” ہے ووٹ پھر بھی نواز شریف کی جماعت کو ہی دے گا۔

بات اب کچھ یوں ہے کہ آئندہ انتخابات میں نواز شریف کو پڑنے والا ہر ووٹ اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ ہو گا اور یہ ایک ایک ووٹ کانٹوں کی مانند ان قوتوں کو چبھے گا جنہوں نے وسیع ترین ملکی مفاد میں اضافی ذمہ داری لیتے ہوئے سیاست کے میدان میں عمران خان جیسی کٹھ پتلی کو لانچ کیا اور سسلین مافیا کو جیل بھیجا۔ یہ انتہائ زیادتی ہے کہ پنجاب کی عوام کی اکثریت آج بھی نہ تو ان قوتوں کی پس پردہ خدمات کا اعتراف کرتی ہے اور نہ ہی نواز شریف اور مریم نواز پر چلنے والے مقدمات کو انتقامی کاروائ کے بجائے انصاف پر مبنی ٹرائل قرار دیتی ہے۔ ایسے نافرمان عوام کے اجتماعی بے وقوفانہ شعور کو ہرگز بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس لئیے اس بات کو ممکن بنایا جانا بیحد ضروری ہے کہ انتخابات کے نتائج وسیع ترین قومی مفاد میں عمران خان اور ہمنواوں کے حق میں ہی آئیں۔ آخر ایک تگ و دو کے بعد وسیع ترین قومی مفاد میں عمران خان اور شیخ رشید کے تعاون سے ایک ایسی نسل تیار کروائی گئی ہے جو پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کی ہیئت اور اسرار و رموز سے نابلد دشنام طرازیوں اور بڑھکوں کے سہارے آنکھیں بند کر کے مطالعہ پاکستان کے لکھے کو حرف آخر مانتی ہے ۔ایسی ذہین ترین نسل کو ایک عظیم راہنما عمران خان کی جیت کا تحفہ نہ دے پانا یقینا ایک زیادتی ہے اس لئے بے حد مناسب ہو گا کہ پچیس جولائ سے پہلے ہی نتائج سنوا کر عمران خان کی فتح کے شادیانے بجوا دئیے جائیں۔ رہی بات سسلین مافیا نواز شریف اور مریم نواز اور ان کے سپورٹرز کی تو ایسے ہی افراد کے بارے میں جبیب جالب نے فرمایا تھا کہ ” یہ جو دس کروڑ ہیں یہ جہل کا نچوڑ ہیں”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).