کاش یہ کوئی خواب نہ ہو


پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر ایک طرف خوشی ہے، وہاں یہ خدشہ بھی ذہن پر سوار ہے کہ کاش یہ کوئی خواب نہ ہو۔ سول اداروں میں ایک جذبے کی لہر نظر آرہی ہے جو کہ خوش آئند ہیں۔ احتساب کے عمل میں حیرت انگیز طور بتدریج تیزی آرہی ہے۔ چار سال پہلے عوام کا سول اداروں پر اعتماد ختم ہوچکا تھا۔ سپریم کورٹ سے لیکر نیب اور نیب سے لیکر ایف آئی آئے تک یہ ادارے صرف کھوکھلے ادارے تصور کئے جارہے تھے۔ انصاف کی امید تو دور بلکہ الٹا ملزم کو پروٹیکٹ کرنے کا الزام لگتا تھا ان اداروں پر۔ لیکن سول اداروں کے موجودہ جذبے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جو کھویا ہوا وقار تھا، اب وہ بحال ہورہا ہے۔

پانامہ سکینڈل کیس جو کہ شریف خاندان پر کسی قہر سے کم نہیں تھا، طویل سماعتوں کے بعد بلآخر فیصلہ بھی آگیا۔ طاقتور حکمرانوں کو پہلی بار جمہوری دور میں ہی کٹہرے پر کھڑے نظر آئے۔ اس کے ساتھ ملزموں کو سزائیں بھی ہوگئے۔ اداروں کی مضبوطی اور وہ بھی جمہوری دور میں یقیناً ایک نیک شگون ہیں۔

کیونکہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کس طرح ان اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ سیاستدان جیسے چاہتے ویسے فیصلے تحریر کرواتے، جسٹس قیوم کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ اپنے من پسند چیئرمین لاکر ان اداروں پر بیٹھا دیتے تھے، اور پھر ان سے نوکروں کی طرح کام کروایا کرتے تھے۔

پانامہ کیس سے جہاں شریف خاندان کو سزائیں ہوئی وہاں پر کچھ غیر جانبدار لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا شریف خاندان کے خلاف فیصلہ ناانصافی پر مبنی فیصلہ تھا؟ بالکل بھی نہیں۔ تو کیا پھر یہ انصاف پر مبنی فیصلہ تھا؟ یہ آنے والا وقت طے کرے گا۔ اگر انصاف کا ترازو نواز شریف پر ہی رک گیا تو اسے انصاف کہنا مشکل ہوگا اور اگر یہی ترازو اور بڑے مگرمچھوں پر حاوی ہوا تو پھر یقین سے کہا جاے گا کہ بالکل فیصلہ عین انصاف پر مبنی تھا۔

کچھ دنوں پہلے بلوچستان میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ احتساب ہوگا تو بلاتفریق ہوگا ورنہ نہیں ہوگا،اب بات شروع ہوگی تو اوپر سے ہو گی پٹواری یا تھانیدار سے نہیں، ایک سابق وزیراعلیٰ کی انکوائری جاری ہے، دو کی الیکشن کے بعد ہوگی،کرپشن ختم کرنے کے لئے جدوجہد جاری رہے گی، جن کے پاس 6 مرلے کامکان نہیں تھا آج بیرون ملک عمارتیں ہیں، سب سے پوچھا جائے گا اتنی دولت ان کے پاس کیسے آئے۔ اللہ انہیں اس بیان کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق دیں۔

lگر اسی جذبے کے ساتھ احتساب کا عمل بڑھتا گیا، اور واقعی میں بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے شروع ہوگئے، تو وہ وقت بھی دور نہیں ہوگا، جب پاکستان کو ایک ایماندار ملک پکارا جاے۔ کیونکہ قانون کا اطلاق اگر حد درجے انتہائی غریب اور حد درجے انتہائی امیر لوگوں پر یکساں لاگو ہوں تو جرائم میں بھی حد درجے کی کمی واقع ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلۂ ہمارا یہ ہے کہ چھوٹے اور بے بس مجرموں کو تو باآسانی سے پکڑتے ہیں مگر دوسری طرف ہم طاقتور اشرافیہ پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس ملک کا بنیادی مسلۂ ہی بدعنوان لیڈرز ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہماری عوام بھی ان کرپٹ اشرافیہ کے دفاع میں عجیب منطق پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک جملہ خاصہ مشہور ہے اور میں نے بذات خود کہی لوگوں سے بھی سنا ہے کہ” کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے” اب اگر یہ باتیں اس دیس کے رہنے والے باسی خود کرتے ہوں تو، اس دیس کے باسیوں پر رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔

خیر ہماری خواہش بھی ہے کاوش بھی ہے اور دعا بھی ہے کہ اس احتساب کا عمل صرف ایک پارٹی تک محدود نہ ہو، اور نہ ہی ایک شخص تک محدود ہو، بلکہ احتساب کا دائرہ وسیع کر کے تمام جماعتوں کے تمام کالے کرتوتوں والے جابروں تک پھیلایا جائے، کیونکہ چند دن پہلے یہ خبر خبروں کی زینت بنی کہ سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا گیا، خیر بعدازاں نہ تو وہ ایف آئی اے کے طلبی پر وہ پیش ہوئے بلکہ دوسرے طرف سپریم کورٹ سے بھی حکم آیا کہ پتہ لگایا جاے کہ کس کے کہنے پر آصف زرداری اور فریال کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔ اس ملک کو نہ تو ایک شخص نے نقصان پہنچایا اور نہ ہی ایک جماعت نے اس ملک کے جڑوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس احتساب کا پتہ الیکشن کے بعد واضح ہوجائے گا کہ کیا یہ احتساب صرف ایک شخص کو اقتدار سے باہر پھینکنا تھا یا پھر واقعی میں ملک پاکستان کو گندے انڈوں سے پاک کرنے عہد کرلیا گیا۔ یہ بس آنے والے چند مہینوں میں طے ہوجائے گا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ اگر احتساب کا عمل یہاں رک گیا تو پھر نیب کورٹ کے فیصلہ کو انصاف پر مبنی فیصلہ کہنا مشکل ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).