مَوت کے فرشتے سے راز ونیاز


آہ! آخر تم آگئے۔ ایک دن توتمہیں آنا ہی تھا۔ سانسوں کو الوداع توکہنا تھا۔ موت کے کاندھوں پر جنازہ دھرنا ہی تھا۔ آج تک تم سے فرار بھلا کون پا سکا؟ تم وہ ہو، جس سے ملاقات کی کسی خواہش نے کبھی میرے اندر سر نہ اٹھایا، حتی کہ زندگی نے جب جب کڑوے کسیلے گھونٹ پلائے تو بھی دل کے کسی کونے میں تمہارا کوئی خیال چھو کر نہیں گزرا۔ کہیں جو تمہارا ذکر چھڑا دماغ نے خیال کی توجہ کا دھارا دانستہ ادھر ادھر موڑ دیا۔ زندگی کے کشکول میں چن چن کر ایسے سکے ڈالے کہ تم سے ملاقات کا کبھی کوئی بہانہ نہ بن پائے۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ ساغر ومینا جیسی شاداب اور فرحت بخش زندگی میں تم سے ملاقات کا کوئی سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا، پھر کتنے ہی دنوں تک خوف زدہ دل کو بہلاتی رہی اور خود کو یہ سوچ کر تسلی دیتی رہی کہ موت کے دروازے پر لگنے والا قفل کھلنے میں ابھی تو بہت وقت باقی ہے۔ سو میں آگے بڑھتی رہی۔ زندگی مجھ میں اور میں زندگی میں جیتی رہی۔ تم سے بچنے کے سارے جتن کرتی رہی۔ مگر! وائے افسوس، تم آج میرے سامنے فاتحانہ مسکراہٹ لیے کھڑے ہو۔ تم جیت گئے عزرائیل! میں ہار گئی۔

عمر رفتاں کے بکھیڑوں کو نمٹاتے ہوئے ایک دھڑکا اکثر تمہاری آمد کالگا رہا۔ تم سے بچنے کے لیے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا۔ دماغ قابو میں اورجگر کوٹھنڈا رکھا۔ کیسے کیسے نہ اپنی صحت کے ناز اٹھائے۔ کبھی حکیموں کی دوا کی تو کبھی فقیروں کی دعالی۔ کبھی خوش رنگ اور مہکتی غذاؤں سے منہہ موڑا تو کبھی بے وقت آرام سے ناتا توڑا۔ اپنے اندر کی گھڑی کو کبھی رکنے نہ دیا، کہ اس کی ٹک ٹک ہی تو اس بات کی علامت تھی کہ تم جلدی نہیں آؤ گے۔ آج تمہیں دیکھ کر لگا کہ ساری ریاضتیں بے کار گئیں۔ زندگی کے لیے کوئی خطرہ مول نہ لے کر بھی میں آج بے بس ہو گئی۔ ہائے رے انسان تری بے بسی! نہ اپنی خواہش سے آنکھ کھلی نہ اپنی مرضی سے دفن ہوا۔

عزرائیل! ابھی رک جاؤ! مجھے گزرے ماہ و سال کا ذرا حساب کر لینے دو۔ میں نے کیا کھویا اور کیا کھونے کو بھی نہ بچا! پیچھے نظر ڈالوں تو بس آہیں ہیں۔ زندگی کیا رہی؟ فقط تم سے بھاگنے کی ایک تگ و دو اور کچھ بھی نہیں۔ اسی جنون میں کبھی دکھوں کو سواری نہ بنایا۔ کسی مسئلے کو غم کی پہاڑی نہ بنایا۔ جسم کو مشغول رکھا تو دماغ کو مصروف۔ تلخ سوچوں سے آزاد رہی۔ دل شاد رہی۔ ہشاش بشاش رہی۔ تنہائی کے آزار سے نڈھال ہوئی نہ جھمیلوں سے پریشان۔ پھر بھی تم چلے آئے؟ کیا برا تھا کہ کچھ دیر اور نہ آتے۔ آرزؤوں کی ڈور ابھیْ طویل تھی۔ بہت سی امیدوں کی تکمیل قریب تھی۔ لیکن افسوس! اب تو ہاتھ ملنے کی بھی مہلت نہیں۔

آؤ میں تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں۔ میں تمہارے آنے سے ہمیشہ خوف زدہ رہی۔ اتنی خوف زدہ کہ باپ کے جنازے پر آنکھوں میں آنسو ؤں سے زیادہ خوف تھا۔ تم سے یہ بالواسطہ ملاقات بھی میرے لیے بہت بڑی اذیت تھی۔ میں اسی ڈر کے سائے میں لاکھ چاہ کر بھی باپ کے کفن کو چھو نہ سکی، اس کی ادھ کھلی آنکھوں کے سفید اور بے نور ڈیلوں کو چوم نہ سکی۔ کفن سے ذرا ذرا سے جھانکتے ان پیروں پر سر نہ رکھ سکی جو بہت تھک کر، ایک ڈور سے بندھے آرام کر رہے تھے۔ جوں ہی میرے باپ کا جنازہ اٹھا، میرے دل میں ایک ٹھہراؤ ساآگیا۔ مجھے لگاکہ جنازے کے ساتھ تم بھی گھر سے رخصت ہو گئے ہو اور اب کبھی نہ آؤ گے۔ لیکن کافور میں نہائے سفید لٹھے کی کھڑکھڑاہٹ اور موت کا سناٹا میرے اندر سے کبھی نہ نکل سکا۔ اس سناٹے کو شور میں تبدیل کرنے کو کہاں کہاں کی خاک نہ چھانی۔ کبھی دماغ کی کہی نہ مانی۔ جب تھک کر ذرا سانس بھرنے کو رکی تو وہی موت کا سناٹا میرے اندر اترنے لگا اور کافور کی خوشبو نے میرا ذہنی سکون درہم برہم کردیا۔

اورآج تمہیں مجسم اپنے سامنے دیکھ کر دل چاہ رہا ہے کہ دیوار پر سر ماروں اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑوں۔ میں اندر سے ٹوٹ رہی ہوں۔ تمہاری فاتحانہ مسکراہٹ نے میری روح کو جسم کے اندر ہی مار ڈالا ہے۔ یہ کیا ہوا! اف میرے خدایا! ابھی تو اپنے پیاروں سے دل کی بات بھی نہ کہہ پائی تھی، کوئی چٹھی کوئی وصیت نہ لکھ پائی تھی۔ تم سے بچنے کی دھن میں ایسا سرپٹ دوڑتی رہی کہ کسی چیز کی فرصت ہی میسر نہ آسکی۔ اب تم مجھے لے جانے کے لیے ہاتھ پکڑ ے کھڑے ہو۔ جانتی ہوں عزرائیل تم جلدی میں ہو۔ اب اور رکنے کو تیار نہیں۔ میں ایک لٹے پٹے بے گھر مہاجر کی طرح پیچھے دیکھ رہی ہوں۔ ذرا دیکھو تو! کتنے ادھورے کام تھے جنہیں نمٹانا تھا۔ کتنے روٹھے دلوں کومنانا تھا۔ یہ میرے اپنے ہیں، جن کے چہرے میری آنکھ کے بہتے پانی میں دھندلا رہے ہیں۔ سنو! مجھے کیوں ان سے جدا کرتے ہو؟ یہ سب میرے اندر بوڑھے درختوں کی جڑوں کی مانندپیوست ہیں۔ ہاتھ چھوڑو عزرائیل! ذرا کچھ تو مہلت دو۔ مہلت دو کہ میں انہیں اپنے سینے میں بھینچ لوں۔ ان کے بالوں کی خوشبو کو اپنی روح میں جذب کرلوں۔ ماتھے پہ ایک نرم بوسہ دوں جو کم از کم کچھ دن تو ان کے غم کو میری آغوش میں رکھے۔

سنا تھا جب تم آجاتے ہو تو سب ختم ہو جاتا ہے۔ کیا واقعی میرا سب ختم ہو گیا؟ زندگی کے پیالے میں مجھے اتنے کم سالوں کا عرق کشید کر کے کیوں دیا گیا؟ اس حسین اور دل فریب دنیا کے ذائقوں سے روشناس ہونے کے لیے تو یہ ماہ و سال بہت تھوڑے ثابت ہوئے۔ ہر مشکل کو شکست دینے والی آج تمہارے سامنے ہتھیار ڈالے بے بس پڑی ہے۔ اب بس کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ میں جنازے میں بدل جاؤں گی۔ میرے گھر میں اک آہ وبکا اور ماتم ہوگا۔ زندگی تو پھر بھی حرکت میں ہو گی لیکن میری نہیں۔ موت کی تاریکی میں اک تماشائے زیست ہوگا۔ کبھی شوہر، کبھی بیٹے اور کبھی بھائی کے کندھے پر پہلا اور آخری بوجھ بن کر میں نئے گھر میں منتقل کر دی جاؤں گی۔

میری موت کے منظر میں عزرائیل! بس ایک بار صرف ایک بار اور تم مسکرانا۔ میرے جنازے پر رونے والی کسی آنکھ میں جب آنسو سے زیادہ خوف دیکھو تو ضرور مسکرانا۔ ۔ چلو! اب چلو کہ تماشائے زیست شروع ہونے کو ہے۔ الوداع اے زندگی! نہ چاہتے ہوئے بھی الوداع!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).