علاج دنداں، اخراج دنداں


انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے اور ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہے کہ وہ ووٹروں کو اپنی طر ف راغب کرے۔ ہمیشہ کی طرح اس انتخابات میں جو الفاظ سب سے زیادہ بک رہے ہیں وہ ہے تبدیلی اور انقلاب۔
’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے‘

’قوم کی تعمیر کھیل تماشا نہیں، حقیقی انقلاب لائیں گے‘
’ہم اسلامی انقلاب لے کر آئیں گے‘

یہ وہ نعرے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے تواتر سے سننے کو مل رہے ہیں۔ ہر دوسری جماعت یہاں انقلاب یا تبدیلی لانے کی دعوے دار ہے اور عام عوام کو ان نعروں سے لبھاتی ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہاں سب کا چُورن بک رہا ہے جو بھی انقلاب یا تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے عوام اس کے گرد جمع ہو جاتی ہے۔

مملکت خداد میں شاید ہی کوئی ہو جو معاشرے میں موجود مسائل سے اثرانداز نہ ہوتا ہو۔ اسی لیے ہر کوئی ان مسائل کا حل بھی چاہتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسائل کے حل کے لیےلوگ انہی نعرہ لگانے والوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ جو بھی اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کا دعوی کرے ہم اسے مسیحا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں

یہاں ہر جماعت اپنا منشور یہی بتاتی ہے کہ ہم نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو وہی جماعت اسی فرسودہ نظام کو سب سے زیادہ تعاون فراہم کر رہی ہوتی ہے۔ جن طبقات کے خلاف تبدیلی لانے کا تہیہ کیا جاتا ہے وہی طبقات اس جماعت میں غالب نظر آتے ہیں۔ ان جماعتوں کی تو بقاء اسی فرسودہ نظام میں ہے۔ اس ظالمانہ نظام کے ساتھ ان طبقات کے مفادات جڑے ہیں۔ کسی بھی جماعت کا جائزہ لے لیں۔ آپ کو اس جماعت میں جاگیر دار یا سرمایہ دار طبقہ ہی نظر آئے گا۔ کہیں حقوق کے نام پر تو کہیں مذہب کے نام پر یہ انقلاب کا چُورن بیچا جا رہا ہے۔ اور ہم بھی یہ چورن خریدنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ کوئی مستند ڈاکٹر تو مہیا نہیں تو عوام ان نیم حکیموں کے چُورن سےہی علاج کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ناسور بن جائے تو اس کے لیے عمل جراحی کرنا ہوتا ہے صرف گولیوں اور انجکشن سے کام نہیں چلتا۔

علاج دنداں، اخراج دنداں

انقلاب کا مطلب موجودہ نظام کو بنیادوں سے بدل کر اس کی جگہ ایک نیا نظام لانا ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں تبدیلی یا انقلاب سے مراد صرف حکمرانوں کی تبدیلی ہے۔ بس پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت لے آو اور تبدیلی آ گئی۔ اپنی پسند کا وزیر اعظم آ جائے تو انقلاب آ گیا۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معاشرے میں انقلاب یا تبدیلی لانی ہو تو اس کا مطلب ریاست کے تینوں ستونوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ سیاست، معیشت اور فکر کسی بھی نظام کی بنیاد ہیں نظام بدلنا ہو تو ان شعبوں میں بنیادی تبدیلی لائی جاتی ہے۔ تبدیلی لانا صرف نظام کو چلانے والے افراد کی جگہ نئے افراد لانا نہیں ہوتا بلکہ اس نظام کے تمام کل پرزوں کو بدلنا ہوتا ہے۔

حکومت بدلنے کے لیے تحریکات تو چلائی جاتی ہیں۔ انتخابات کا عمل بھی کیا جاتا ہے لیکن جس فرسودہ جمہوری نظام کے ذریعے یہ جماعتیں دولت اور طاقت کی بنیاد پر اپنے ممبران کو منتخب کروا کر اسمبلی میں پہنچاتی ہیں، اس کو بدلنے کی کبھی بات نہیں ہوئی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو صنعتکار مزدور کا استحصال کر تا ہے اسمبلی میں وہی مزدور کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ جاگیردار کیسے اسمبلی میں بیٹھ کر کسان کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائے گا؟ آج تمام سیاسی جماعتوں میں ہمیں انھیں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ سیاسی مذہبی جماعتیں بھی ہمیں اسی نظام کو مضبوط کرتی نظر آتی ہیں۔ اس مکارانہ، مفادانہ اور منافقانہ سیاسی نظام کو توڑے بغیر معاشرے میں درست جمہوریت کیسے رائج ہو سکتی ہے؟

معاشرے میں سب سے بڑا ظلم ہمارا معاشی نظام ہے جو سرمایہ داریت پر مبنی ہے۔ کیا کسی جماعت نے آج تک اس معاشی نظام کو بدلنے کی بات کی؟

ہمارا نظام عدل برٹش دور کی ضرورت کی تحت بنایا گیا اور ہم نے اسی پرانے عدالتی نظام کو گلے لگایا ہوا ہے۔ کیا کسی جماعت نے اس عدالتی نظام کو بدلنے کا پروگرام دیا؟ وکلا ء تحریک کے نتیجے میں جو انقلاب لایا گیا اس نے اس فرسودہ عدالتی نظام میں کیا تبدیلی برپا کی؟

بیوروکریسی کا ڈیڑھ سو سال پرانا نظام جو برطانیہ نے ہندوستانی قوم کو دبانے کے لیے بنایا۔ ہم آج بھی اسی نظام کو یہاں چلا رہے ہیں کیا ضرورت نہیں کہ اس افسر شاہی کے نظام سے جان چھڑا کر عوامی خدمت کی بنیاد پر ایک نیا بیوروکریسی کا نظام لائیں۔ لارڈ میکالے کا کلرک پیدا کرنے والا دوہرا نظام تعلیم بدلنا کس جماعت کے منشور پر ہے؟

ہمیں دیکھنا چاہیے کہ انقلاب، انقلاب کے نام پر عوام کا استحصال کرنے والی جماعتوں نے کیا کبھی ان نظاموں کو بدلنے کی بات کی۔ اور اگر کسی نے ان نظاموں کو بدلنے کا دعوی کیا بھی تو انھوں نے کیاکیا؟ بس کچھ تبادلے کر دیے گئے یا کچھ نئی پالیسیاں بنا دی گئیں اور اس کو تبدیلی اور انقلاب کا نام دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں اتنی تبدیلیاں اور اتنے انقلابات کے بعد بھی عوام کی حالت جوں کی توں ہے بلکہ روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

اگر ہم واقعی انقلاب یا تبدیلی کوسمجھنا چاہتےہیں تو روس، چین اور ایران میں آئے انقلابات کامطالعہ کرنا چاہیے۔ اور ہمارے لیے سب سے بہترین مثال وہ انقلاب ہے جو آپ ﷺ نے اپنی جماعت کے ساتھ مل کر خطہ حجاز میں برپا کیا۔ آپؐ نے ابوجہل کے موجودہ نظام کو سہارا دینے اور اس کا حصہ بننے کی بجائے اس نظام کو بنیادوں (فکر، معیشت، سیاست) تبدیل کر کے ایک نیا نظام لے کر آئے۔

آج یہ طے ہے کہ صُورت احوال کا واحد حل معاشرے میں ایک ہمہ گیر تبدیلی لانا ہے۔ اور وہ تبدیلی صرف چہروں تک محدود نہیں بلکہ نظام کی بنیادوں میں لانا ہو گی۔ آج کوئی جماعت اگر تبدیلی کا نعرہ بلند کرے لیکن اس کے پیش نظر صرف حکومت بدلنا یا نئے چہروں کو لے کر آنا ہے تو جناب یہ تبدیلی یا انقلاب نہیں۔ وہ صرف اپنا چُورن بیچ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).