تحصیل…  ایک غیر سرکاری تحقیقی مجلّہ


پاکستان کی علمی فضا، اگر ایسی کوئی فضا ہے، سائنسی یا انسانی علوم کے لیے ساز گار نہیں۔ مولوی عبدالحق نے پاکستان آکر دوسہ ماہی رسالوں کی اشاعت کا آغاز کیا تھا۔ ایک سائنس سے اور دوسرا معاشیات سے متعلق تھا۔ وہ چند شمارے ہی شائع کر سکے۔ یا تو قارئین نے دلچسپی ظاہر نہیں کی یا ان موضوعات پر باقاعدگی سے لکھنے والے دستیاب نہ ہو پائے۔ سائنس داں یا ماہر معاشیات ہونا الگ بات ہے اور سائنسی یا معاشیاتی موضوعات پر اُردو میں شگفتہ انداز میں اظہار خیال کرنے کی اہلیت رکھنا الگ معاملہ ہے۔ غالباً اُردو میں اس طرح کے موضوعات پر رسائل شائع نہیں ہوتے۔ یونیورسٹیوں کے اُردو شعبے رسالے ضرور شائع کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کے مندرجات، اُردو ادب کے دائرے میں رہ کر تنقیدی اور تحقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

’’تحصیل‘‘ جس کے پہلے دو شمارے میرے سامنے ہیں، اسی قسم کا رسالہ ہے۔ یہ کسی یونیورسٹی کی طرف سے شائع نہیں کیا گیا۔ اس کا ناشر ادارہ معارفِ اسلامی کراچی ہے۔ طباعت عمدہ اور کاغذ اچھا ہے۔ اشتہار ایک بھی نہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس کے اخراجات کون برداشت کر رہا ہے اور کب تک کرتا رہے گا۔ مدیر معین الدین عقیل ہیں، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ زیادہ مضمون اُردو میں ہیں، لیکن انگریزی تحریروں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔

مندرجات پر نظر ڈالی جائے تو بعض تو اسی طرح کے ہیں، جیسے جامعات کی طرف سے شائع ہونے والے اُردو تنقیدی و تحقیقی رسائل میں بڑی تعداد میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ تاہم بعض مضامین بلاشبہ قابلِ ذکر ہیں اور اگر یہ زیادہ ہوتے تو ’’تحصیل‘‘ کی قدر و منزلت بڑھ جاتی۔

سب سے گراں قدر تحریر البیرونی کی تصنیف ’’کتاب الجماہر فی معرفتہ الجواہر‘‘ کے ایک باب کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ عطش درانی نے کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اصل متن کے بجائے انگریزی ترجمے کو مدِ نظر رکھا ہے۔ اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ کتاب کے کچھ حصے کا ترجمہ پہلے کہیں شائع ہو چکا ہے۔ اسے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

باب یاقوت سے متعلق ہے۔ اسے پڑھ کر البیرونی کی وسعتِ نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ البیرونی ان محققین کی طرح یبوست زدہ نہیں جو کسی علم کی شاخ میں اختصاص تو رکھتے ہیں، لیکن جن کی تحریر، معلومات افزا سہی، خشک اور بے رس ہوتی ہے۔ یاقوت کے بارے میں البیرونی کا علم حیرت ناک ہے۔ بحث تو بے شک یاقوت اور اس کی قسموں سے ہے، لیکن تحریر جغرافیہ، تاریخ، سیاحت، حکایات، شاعری سبھی پر محیط ہے۔ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ پورا باب ایک انسائیکلوپیڈیائی ذہن کی براقی اور ہمہ گیری کا عکاس ہے۔

گوشۂ نوادر میں اُردو کی پہلی لغت ’’تحفتہ الہند‘‘ کو قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ لغت نویس کا نام میرزا خان یا میرزا جان ہے۔ ’’تحفہ الہند‘‘ 1676ء سے قبل کی تصنیف ہے۔ فارسی متن سات ابواب، مقدمے اور خاتمے پر مشتمل ہے۔ اس کے آخر میں اُردو، فارسی لغت بھی ہے۔ اس لغت کا اضافہ مصنف نے 1711ء میں کیا تھا۔ اُردو لفظ کے مقابل میں جہاں فارسی معنی درج کیے ہیں، وہیں لفظ کو دیوناگری میں بھی لکھ دیا ہے۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ قلمی نسخہ معروف مستشرق سرولیم جونز کی ملکیت میں رہ چکا ہے۔ ولیم جونز نے بعض لفظوں کے انگریزی معنی کا اندراج بھی کر دیا ہے۔ لغت کی قدامت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن مدیر کی یہ خواہش کہ کوئی صاحبِ ذوق اسے مرتب کرنے کا تہیہ کرے گا، پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

پہلے شمارے میں ہندوستان اور سیلون سے متعلق ان قلمی دستاویزات، روزنامچوں اور خطوط کی فہرست بھی شامل ہے، جو سکاٹ لینڈ کی نیشنل لائبریری میں محفوظ ہیں۔ اس فہرست کا عکس نجیبہ عارف صاحبہ نے فراہم کیا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت ساقابلِ قدر مواد مذکورہ کتب خانے میں موجود ہے۔ اس سے کوئی فائدہ اٹھانا بھی چاہے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ انگریزی قلمی نسخوں کو پڑھنے کی استعداد پاکستان میں بہت کم لوگ رکھتے ہوں گے۔

انگریزی میں لکھے گئے مضمون بہتر معلوم ہوتے ہیں۔ سید تنویر واسطی کا مضمون ’’جمہوری دور کے ترکی شعرا‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ اس میں دس اہم شعرا کی چیدہ نظموں کے متن اور انگریزی تراجم شامل ہیں۔ انور معظم نے دو الگ الگ مضامین میں بھارتی مسلمانوں کی مذہبی شناخت کے مسئلے کا اور مسلم ثقافت کے زوال کی حقیقی وجہ کا جائزہ لیا ہے۔ سہیل عمر کے مذہبی رواداری اور یروشلم کے معاملے میں تاریخی درستی کے بارے میں مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ افتخار شفیع نے شبلی، اقبال اور ارنلڈ کے افکار اور مراسم کی روشنی میں انگریزی اور پاکستانی ثقافت پر نظر ڈالی ہے۔

بغیر سوچے سمجھے رائے زنی کی مثالیں ہمارے ہاں عام ہیں، لیکن ایرانی اہلِ قلم بھی بظاہر مختلف نہیں۔ ذبیح اللہ صفا کی کتاب ’’تاریخ ادبیات ایران‘‘ کے پہلے باب کا ترجمہ شمارۂ اوّل میں شامل ہے۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’اس زمانے میں دو طاقتور حکومتیں بازنطینی اور ساسانی اس عہد کی متمدن دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی کر رہی تھیں اور عرصے سے دنیا پر تسلط پانے کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما تھیں۔‘‘ مصنف کو یہ بھی علم نہیں کہ اس زمانے کی ممتدن دنیا میں ہندوستان اور چین بھی شامل تھے، جن پر بازنطینی اور ساسانی سرے سے حکمراں ہی نہ تھے۔ اس کے علاوہ دنیا پر تسلط پانے کے لیے نبردآزما ہونے کا کیا مطلب ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کا کیا تصور مصنف کے ذہن میں ہے۔

صرف ایک بات تشویش ناک ہے۔ پہلا شمارہ 492 صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے شمارے میں صرف 314 صفحے ہیں۔ کیا اگلے شماروں میں صفحات کی تعداد اس تناسب سے کم ہوتی جائے گی؟ قیمت کہیں درج نہیں۔ برقی پتا یہ ہے: tehseel.irak@gmail.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).