نیپال کے خلاف بھارت کی جارحیت


\"mujahidدو روز قبل نیپال نے صدر بدھیا دیوی بھنڈاری کا بھارت کا دورہ منسوخ کرتے ہوئے نئی دہلی میں اپنے سفیر دیپ کمار اپادھے کو واپس بلا لیا ہے۔ یہ اعلان دورہ شروع ہونے کے تین روز قبل کیا گیا اور کھٹمنڈو یا نئی دہلی سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں آیا ہے۔ لیکن اس اچانک اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیپال کے سیاستدان ملک کی اندرونی سیاست میں بھارت کی مداخلت اور ملک میں ”را“ کے بڑھتے ہوئے رول سے سخت پریشان ہیں۔ اس حوالے سے اگرچہ پریشانی کا اظہار سامنے آتا رہا ہے لیکن نیپال کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ تاہم گزشتہ ہفتے کے دوران نیپال کے سیاسی بحران میں اس وقت اضافہ ہوا جب نیپالی کانگریس پارٹی نے وزیراعظم کے۔ پی۔ اولی کی علیحدگی کے لئے تحریک کا آغاز کیا۔ اس طرح متحدہ کمیونسٹ پارٹی (ماﺅ نواز) کی چیئر پرسن پشپا کامل داہا کو اقتدار کا لالچ دے کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ لیکن وزیراعظم اولی نے داہا کے متعدد مطالبات مان کر ان سے سیاسی معاہدہ کر لیا اور بھارت کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔

بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والے تبصروں اور اندرونی ذرائع کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کے پی اولی نے سیاسی بحران پر قابو پانے کے بعد بھارت کو واضح پیغام دینے کے لئے صدر بھنڈاری کا دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نئی دہلی سے نیپالی سفیر کو بھی واپس بلا لیا گیا ہے جبکہ یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ کھٹمنڈو میں بھارت کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نئی دہلی کے سفارتی ذرائع نے اس بات کی تردید کی ہے۔ لیکن نئی دہلی سے نیپال کے سفیر دیپ کمار اوپادھے کی واپسی کے بعد عام سفارتی طریقہ کار کے مطابق بھارت بھی کھٹمنڈو میں اپنے سفیر کو واپس بلا لے گا۔ وزیراعظم اولی نیپال کی کمیونسٹ پارٹی (لینن نواز) کے سربراہ ہیں۔ بھارت کی شہ پر ملک کے مدھیشی گروپ نے گزشتہ سال کے آخر میں شدید احتجاج کئے تھے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کام کا آغاز کیا تھا۔ نیپالی وزیراعظم نے حالات پر کنٹرول کے لئے نئی دہلی سے مدد طلب کی تھی اور وہ خود بھی نئی دہلی گئے تھے تا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے ساتھ معاملات طے کئے جا سکیں۔ لیکن بھارت کی سرمایہ پرست مودی سرکار نیپال میں کمیونسٹ راج کے خلاف ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ملک میں کوئی مضبوط اور پائیدار حکومت برقرار نہ رہے تا کہ نئی دہلی کھٹمنڈو کے لیڈروں کو انگلیوں پر نچاتا رہے۔

اس بار اس مقصد کے لئے کمیونسٹ پارٹی (ماﺅ نواز) کی چیئر پرسن پشپا داہا کو وزیراعظم بنوانے کا جھانسہ دے کر حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کمیونسٹ پارٹی کے دونوں گروہوں میں نظریاتی اختلافات ہیں اور وہ عام طور سے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جبکہ چین بھی نیپال میں پاﺅں جمانے اور تعلقات بہتر بنانے کے لئے پیش رفت کر رہا ہے، بھارت کی طرف سے ماﺅ نواز گروپ کی اعانت کرنے کا ہتھکنڈہ مبصرین اور ناقدین کے لئے یکساں طور سے حیران کن ہے۔ بھارت میں نریندر مودی حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی یک طرفہ اور عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے کھٹمنڈو کو خود سے دور کر رہی ہے۔ اسی لئے بیجنگ کو اس ملک میں پاﺅں جمانے اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ بھارت میں سیاسی و اسٹریٹجک مفادات کے علاوہ ثقافتی اور مذہبی وجوہات کی وجہ سے بھی نیپال سے قریبی تعلقات ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نیپال کی 27 ملین آبادی میں 80 فیصد سے زائد ہندو ہیں۔ اس کے علاوہ 50 کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت بھارت اور نیپال کے باشندے بلا روک ٹوک ایک دوسرے کے ملکوں میں آ جا سکتے ہیں۔ نیپالی باشندوں کو بھارت میں کام کرنے حتیٰ کہ سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ لیکن وہ فوج یا حساس اداروں میں نوکری کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارت کے باشندوں کو نیپال میں ایسے حقوق نہیں دئیے گئے۔

یہ معاہدہ بظاہر نیپال کی دوستی میں کیا گیا تھا تا کہ پسماندہ اور غربت کا شکار ملک کے باشندے بہتر مواقع کے لئے بھارت کا سفر اختیار کر سکیں۔ لیکن یہ صرف بھارت کی طرف سے نیپالی باشندوں کے لئے خیر سگالی کا اظہار نہیں تھا۔ کیونکہ اس معاہدہ کا ایک حصہ خفیہ رکھا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس خفیہ حصہ میں جو شقات موجود ہیں، ان کے تحت نئی دہلی نیپال کی دفاعی حکمت عملی کو کنٹرول کرتا ہے۔ بھارت کی مرضی کے بغیر کھٹمنڈو کسی قسم کے ہتھیار نہیں خرید سکتا اور فوج کو توسیع نہیں دے سکتا۔ نیپال میں اب ان پابندیوں کے خلاف سیاسی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔

بھارت کو 1996 سے 2006 کے درمیان نیپال کی خانہ جنگی کے دوران نیپال کے معاملات میں زیادہ مداخلت کا موقع ملا تھا۔ اس خانہ جنگی میں ماﺅ نواز کمیونسٹ پارٹی نے ملک سے بادشاہت ، مذہبی تعصب اور ناانصافی و کرپشن کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ اس جنگ میں 15 ہزار سے زیادہ لوگ کام آئے تھے۔ تاہم نومبر 2006 میں فریقین میں جامع معاہدہ ہو گیا تھا۔ اسی معاہدہ کے نتیجے میں 2008 میں ملک سے بادشاہت کا خاتمہ ممکن ہوا تھا۔ لیکن اس جنگ کے بعد بھارت کی مداخلت اور ہوس ناکی میں اضافہ ہو گیا۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ اب وزیراعظم کے۔ پی۔ اولی کی حکومت گرانے کی سازش کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے اس سازش کا اندازہ کرتے ہوئے اسے ناکام بنانے کے لئے سیاسی مہارت کا مظاہرہ کیا اور سیاسی و نظریاتی مخالف گروہ کے ساتھ معاہدہ کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ اب بھارت کو پیغام دینے کے لئے صدر بدھیا دیوی کا دورہ منسوخ کیا گیا ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں نیپال کی خود کو نئی دہلی کے چنگل سے چھڑانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یا نئی دہلی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ نیپال کے ساتھ نوآبادی کا سلوک کرنا بند کرے اور مساوی ریاستوں کے طور پر معاملات طے کئے جائیں۔ لیکن نیپال کے سیاسی نظام میں کسی ایک جماعت کو مکمل کنٹرول یا اکثریت حاصل نہیں ہے۔ مختلف سیاسی گروہوں کے درمیان شدید رقابتیں اور مخالفت بھی موجود ہے۔ بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نیپال کے سیاسی نظام کو پوری طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اس لئے یہ خوش فہمی قائم کرنا کہ وزیراعظم اولی بھارت کے رسوخ یا دسترس سے نجات حاصل کر لیں گے، خام خیالی ہو گی۔

اس بحران سے البتہ نیپال کے علاوہ دنیا پر بھی یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت ایک بڑی آبادی کا طاقتور ملک ہونے کے باوجود اپنے ہمسایہ میں موجود چھوٹے اور معاشی اور فوجی لحاظ سے کمزور ملکوں کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ حالانکہ بھارت کو خود اپنے ملک میں غربت ، سیاسی عدم استحکام ، مذہبی انتہا پسندی ، کشمیر کے علاوہ متعدد ریاستوں میں علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا بھی سامنا ہے۔ نئی دہلی کی حکومت ان مسائل پر غور کرنے کے بعد انہیں حل کرنے کی بجائے بدستور توسیع پسندی اور ہمسایہ دشمن پالیسیوں پر گامزن ہے۔

پاکستان کے ساتھ بھی بھارت کے اختلافات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس نے تقسیم ہند کے بنیادی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طاقت کے زور پر کشمیر کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ میں یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ کشمیر میں استصواب کے ذریعے حتمی فیصلہ کیا جائے گا …….. وہ ان وعدوں اور معاہدوں سے منحرف ہو چکا ہے۔ گزشتہ 65 برس کے دوران مقبوضہ کشمیر پر قبضہ مستحکم کرنے اور کشمیریوں کو زیر نگیں رکھنے کی حکمت عملی کی وجہ سے ہی پاکستان کے ساتھ دشمنی کا رشتہ استوار کیا گیا۔

اس دشمنی کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تین جنگیں ہوئیں اور پاکستان کو بھارتی مداخلت کی وجہ سے تقسیم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی جب پاکستان نے کشمیریوں کے حق خود اختیاری پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تو پاکستان کے خلاف بھارت کی معاندانہ پالیسیاں اور جنگی تیاریاں بھی جاری رہیں۔ ان حالات میں جب تک عالمی رائے عامہ بھارت کے اس مکروہ چہرہ کو پہچان کر اسے جارحیت ترک کرنے پر آمادہ نہیں کرتی، بھارت ہمسایہ ملکوں کا جینا حرام کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments