عمران خان اور پرویز خٹک کا ناقابل برداشت لب و لہجہ


معاف کیجئے گا کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن میں سانحہ یکہ توت اور سانحہ مستونگ پر کچھ نہیں لکھنا چاہتا، اس لئے کہ لگی لپٹی رکھنا عادت نہیں اور سچ بولنے سے میری تو ناں ہی سمجھیں ۔ ایک آدھ بوٹا جو لگا ہے لگا رہنے دیں محکمہ زراعت نے نوٹس لے لیا تو میرے جیسا غریب جیتے جی مارا جائے گا۔ اس بات کا لیکن حد درجہ افسوس ہے کہ ایک سواڑتالیس انسان مارے گئے اور دوسو سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ ان سب کا خون کس کس کے سر ہے یہ ہمیں کبھی نہیں بتایا جائے گا اس لئے کہ پاکستانی سرزمین پر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونے والی پہلی دہشتگردی میں مارے جانے والے خان لیاقت علی خان کے قاتلوں کا بھی آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ سنا ہے کوئی افغانی تھا جس نے ان پر گولی چلائی لیکن ہمیں تو آج بھی یہ بتایا جاتا ہے کہ افغانی ہمارے بھائی ہیں ۔ لاکھوں افغانی بھائی عشروں سے اس سرزمین پر بستے ہیں اور ہمارے ہی وسائل استعمال کرتے ہیں لیکن مملکت کے قانون کے تحت وہ ریاست کو یہ بتانا بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں رہائش پذیر ہیں ۔ بھائی جو ٹھہرے۔

دہشتگردی کے ان دونوں واقعات میں شہید ہونے والے ایک سو اڑتالیس انسانوں میں سے ہم صرف نوابزادہ سراج رئیسانی اور ہارون بلو ر کا نام جانتے ہیں اور بس۔یہ سراج رئیسانی اور ہارون بلور کون تھے ؟بتایا گیاہے کہ پاکستان کے بیٹے اور سپاہی تھے،جومملکت کے آئین کے تحت عوام کی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق عوام سے ہی مانگ رہے تھے۔ آئین !جس کے تحت ریاست کے شہریوں کو سیاست کرنے کاپورا حق حاصل ہے۔سیاست !پارلیمانی سیاست، انتخابی سیاست جس کے تحت یہ ملک وجود میں آیا۔ خاکسار فقیر کی بارگاہ میں حاضر تھا جب پوچھا گیا ”لغت میں سیاست کا مطلب کبھی پڑھا ہے“ ۔ طالب علم نے معذوری ظاہر کی تو فرمایا ” فساد برپا کرنا“۔جس کو اختلاف ہے وہ بتائے کہ مملکت پاکستان کی سیاست اس کے سوا ہے کیا؟۔

ایک سیاستدان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس ملک اور اس کی عوام کی خوشحالی کے لئے تن من دھن ایک کئے ہوئے ہے لیکن دو برس ہونے کو آئے وہ قوم کو اس سوال کا تسلی بخش جواب فراہم نہیں کر سکا کہ اس کی بے پناہ دولت کے ذرائع کیا ہیں؟۔دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن خود کی اربوں کی سرمایہ کاری ملک سے باہر ہے ۔ دم تو بھرتے ہیں غریب کا لیکن نہیں جانتے کہ ان کے ایک دن کے کھانے کی قیمت غریب کے پورے خاندان کے لئے شائد سال نہیں تو مہینے بھر کے لئے کافی ہوگی ۔

خالق کائنات کلثوم نواز کو صحت و تندرستی عطا کرے ، مصیبت کی اس گھڑی میں خاندان کو سب کچھ بھول جانا ایک فطری امر ہے ۔یہ سائنس سمجھنے سے لیکن پوری قوم قاصرہے کہ وہ کون سی بیماری ہے جو پاکستان کی طرف منہ کرتے ہی لندن کی گلیوں میں دندناتے ایشیا کے بہترین وزیرخزانہ کو آلیتی ہے؟۔

دوسرے سیاستدان نے کرم نوازی کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس کی مخالف سیاسی جماعت کے حامی انسان نہیں گدھے ہیں ۔ بائیس کروڑ انسانوں پر حکومت کا حق جتانے والے نے مگر یہ نہیں بتایا کہ کن خصوصیات کی بنا پر اسے گدھوں سے ممتاز قرار دیا جائے ۔ کچھ دن پہلے فیس بک پر ایک فتوی باز نے مزاح نگار دوست عدنان خان کاکڑ پر جملہ کسا ”لعنت ہے تم پر“۔برادر خورد وجاہت مسعود انتہائی خوش ہوئے ،کہا” مجھے آپ کا یہ کمنٹ بہت پسند آیا ، اس لئے آپ پر تین بار لعنت “۔

اپنے ترنگے کے سائے سے باہر ہر سیاستدان کو چور اور بدعنوان قرارد ینے والا یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ رکشے کی طرح جہازوں پر ایک ایک دن میں تین تین شہروں کے پھیرے لگانے کا خرچہ کہاں سے آرہا ہے ؟۔ قائد اعظم،مادر ملت ، خان لیاقت علی خان ،حسین شہید سہروردی ، خواجہ ناظم الدین اورعبد الرب نشترکی میراث پر قابض ہونے والے جلسوں میں مخالفین پر چلاتے اور آوازے کستے ہیں اور عوام ان پر تحسین کے ڈونگرے برساتی ہے۔ کوئی بتائے کہ یہ جارحیت جب قوم کے بچوں میں سرایت کرے گی تو اس ملک میں خانہ جنگی کو کون سے منتر روک پائیں گے ۔ کس مزار کی چوکھٹ پر سجد ہ ریز ہوکر اس نقصان کی تلافی کی دعا کی جاسکے گی ؟کون سا وظیفہ ہمیں اس جہنم سے نکال سکے گا؟

میری کلاس فیلو ایک سید زادی ٹھیٹھ پنجابی میں کہا کرتی ”جیہو جئی کوکو ، اوہو جئے بچے“(جیسی مرغی ویسے چوزے)۔پانچ برس تک ملک کے اہم ترین صوبے کے عوام کی زندگیوںکے سیاہ وسفید کا مالک، گویا صوبے کی عوام کا باپ جانے کس ترنگ میں ہذیان بک رہا تھا۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور ووٹروں کو طوائف کے بچے ہونے کی گالی دینا والا پرویز خٹک شائد بڑھاپے کے سبب یادداشت کھو بیٹھا ہے ۔کوئی اسے یاد دلائے کہ کچھ عرصہ پہلے تک پیپلزپارٹی کا پرچم خود اس کے اپنے گھر پر لہرایا کرتا تھا۔ پھر جب وہ تبدیلی کا علمبردار بنا تو حکومت کی ہوس میں اسی پیپلزپارٹی سے جدا ہونے والے ایک سیاسی گروہ کے پیروں میں جا پڑا۔

پیپلزپارٹی کی بھی سن لیجئے!محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب ان کی جماعت حکومت میں آئی تو چاہیے تو یہ تھا کہ عوام کی خدمت اور خوشحالی کے لئے دن رات ایک کر دیتے۔ دس برس کی حکومت کا لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ہفتہ بھر پہلے کراچی سے آیا ہوں، کوئی گلی کوچہ ایسا نہیں جہاں کچرے کے سبب بدبو کے بھبھکے نہ اڑتے ہوں ۔ گٹروں کا پانی کروڑوں کی جائیدادیں تباہ کر رہا لیکن کوئی پرسان حال نہیں ۔

دنیا پانی کو دوبارہ نہیں ،سہ بارہ قابل استعمال بنا لیتی ہے لیکن سمندر کنارے آباد کراچی کی پوش کالونی شادمان میں تین دن سے پانی میسر نہ تھا۔ کنٹینر مافیا شائد جنت کی نہروں سے براہ راست کنکشن حاصل کرتا ہے کہ آٹھ سے بارہ ہزار روپے میں ایک کنٹینردستیاب ہے۔

اڑھائی برس ہوتے ہیں کراچی میں میٹرو بس کی تعمیر کا آغاز ہوا لیکن ابھی تک تکمیل کے آثار تک نہیں جبکہ یہی میٹرو پنجاب کے شہروں میں ایک برس میں مکمل ہوجاتی ہے ۔ عرب کے بدوؤں نے اپنے ساحل ایسے سحر انگیز بنا دیئے کہ دنیا بھر کے شہری ان ساحلوں پر گزارے لمحات کو زندگی کا حسیں وقت قرار دیتے ہیں لیکن کراچی میں آپ کلفٹن جائیں ،ہاکس بے یا منوڑہ سمندر کا گٹر جیساپانی انسان کا ذوق ، حس لطیف اور سمندر کا رومان سب دم توڑ دیتے ہیں۔

دنیا داروں سے تو کیا گلہ؟قوم نے مذہبی رہنماو ¿ں کی طرف دیکھا تو وہاں بھی جنت کے حصول کی قیمت ووٹ ہی قرار پایا ۔ وہی ووٹ جس کے حصول کے بعد چند وزارتیں اور دوسرے حکومتی عہدے آپ کے ایمان کی قیمت قرار پاتے ہیں ۔ اہل دانش سمجھتے ہیں کہ مسلسل دس برس کی جمہوریت سے ملک میں بہتری آئی ہے لیکن ڈھکے چھپے اور واضح الفاظ میں آمروں کی روحانی اولاد کی کارستانیاں بھی بیان کی جاتیں ہیں ۔ انسان ہوں ، ادارے یا ملک ،ٹھوکریں کھا کر سنبھل جاتے ہیں ، مصیبتیں اور تکالیف ان کو کندن بنا دیتی ہیں لیکن یہ قوم جانے کس مٹی کی بنی ہے کہ ستر برس کے سفر کے بعد بھی Polarization کی اس سٹیج پر کھڑی ہے کہ اگلا قدم تباہی و ذلت کے اندھے کنوئیں میں پڑے گا ۔ سوچتا ہوں آنے والی نسلوں کو کیا دے کر جائیں گے ہم ؟۔

(بھائی خواجہ کلیم، مجھے افسوس ہے کہ میں اس تبصرے پر اپنا ردعمل روک نہیں پایا تھا۔ آپ آگاہ ہیں کہ ہم سب پر اس درویش کے بارے میں نہایت سخت تنقیدی تحریریں ماتھے پر بل ڈالے بغیر شائع کی جاتی ہیں۔ تنقید برداشت کرنے کا ظرف ہم میں ہے۔ لیکن یہ تو کوئی تنقید نہیں کہ عدنان کاکڑ نے ایک تجزیہ دیا ہے۔ محترم تبصرہ کرنے والے نے تین لفظ لکھ دیے جو آپ نے دہرائے بھی ہیں۔ میری نظر پڑی تو اشتعال پر قابو نہیں رکھ سکا۔ میری معذرت قبول کیجئے کیونکہ میں نے بہرحال اپ کے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی کہ میں نازیبا زبان کا جواب بدتہذیبی سے نہیں دوں گا۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).