ٹرمپ ازم اور امر بالمعروف


عدم اعتماد کے پھندے میں پھڑ پھڑاتے وزیراعظم عمران خان اس کرسی کو بچانے کے لیے مرنے مارنے پر تلے نظر آ رہے ہیں جس کی انہیں طمع نہیں۔ اندازِ سیاست اور طرزِ تکلم تو وہی لگ رہا ہے جو سابق صدر ٹرمپ کا خاصہ تھا۔

ٹرمپ نے کیپٹل ہل (پارلیمنٹ) پر حملہ تو انتخابات ہارنے پر کروایا تھا، مگر ہمارے کپتان نے عدم اعتماد کا ووٹ پارلیمنٹ میں پڑنے سے پہلے اپنے ہی دارالحکومت پہ ہلہ بول دیا ہے اور وہ بھی امر بالمعروف یعنی نیکی پھیلاو کے نام پر۔ اور ان کے وزیر اطلاعات نے دھمکی یہ دی ہے کہ اراکین قومی اسمبلی ووٹ ڈالنے جائیں گے بھی اس ہجوم سے گزر کر اور ان کی واپسی بھی اسی سے گزر کر ہو گی۔ کچھ ایسا ہی متشدد محاصرہ امریکی کانگریس مین کو چھ جنوری 2021ء کو درپیش آیا تھا جب وہ صدر بائیڈن کی جیت کی تصدیق کرنے والے تھے۔

امریکی سینیٹ کے چیئرمین و نائب صدر اور ہاوس کی سپیکر کو بلوائیوں سے مشکل سے بچایا جاسکا تھا اور پارلیمنٹ کو تاراج کردیا گیا تھا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظامِ مصطفی کے نام پہ تحریک چلائی گئی تھی تو وہ مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کرنے پہ مجبور ہوئے تھے۔ لیکن عمران خان کے خلاف تو کوئی فسادی میدان میں نہیں۔

پھر مدینہ کی ریاست کے نعرے کے باوجود امر بالمعروف کا نعرہ لگا کر بھلا وہ کس برتے پر مذہبی مصلح یا اوتار ہونے کے دعویدار بننے کی کوشش میں ہیں۔ وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور لبیک یارسول اللہ والوں کے دام میں تو نہیں پھنسنے جارہے۔

مولانا فضل الرحمان بہت دیدہ بینا ٹھہرے۔ انہوں نے ترکی بہ ترکی والنہی عن المنکر یعنی برائی کو روکنے کی کال دیتے ہوئے اسلام آباد میں جلسے اور دھرنے کا اعلان کردیا جو 26 مارچ سے 28 مارچ تک یا اس سے آگے جاری رہے گا جب تک عدم اعتماد کے ووٹ پر پارلیمنٹ ہاوس میں کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی۔

بروز ہفتہ مسلم لیگ نواز اور جمعیت کے کارواں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوچکے ہیں اور بلاول بھٹو نے پارا چنار اور عمران خان نے کمالیہ میں بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ آج اور کل اسلام آباد میں گھمسان کا سیاسی رن پڑے گا۔

قرائن سے ظاہر ہے کہ عمران خان کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک اور اپنی جماعت کے مخرفین اور مبینہ ضمیر فروشی کو انہوں نے اپنے کرپشن کے خلاف احتساب کے پٹے ہوئے بیانیے میں پھر سے ہوا بھرنے کے لیے شدت سے استعمال کیا ہے۔ جس صوبہ پختون خوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تحریک انصاف پٹ گئی تھی، وہیں عمران خان نے بڑے جلسے کیے ہیں اور اپنے حمایتوں کو پھر سے ایک نیا ولولہ دیا ہے۔

وہ حکومت میں ہونے کے باوجود اور اس کی مدد سے سڑکوں کو گرم کرنے کی راہ پہ چل نکلے اور یہ پروا کیے بغیر کہ پارلیمانی جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اترتی ہے تو اتر جائے، ان کی بلا سے۔ وہ عدم اعتماد کا ووٹ بھی پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر لینا چاہتے ہیں۔

سڑکیں زیادہ ہی گرم ہوگئیں تو کیا کیا خاکستر ہوسکتا ہے اس کی انہیں کوئی پروانہیں۔ ہائبرڈ سیاسی نظام جس کی کہ وہ خود پیداوار ہیں گرے گا تو اس کی جگہ کیا آئے گا اس کا انہیں کوئی گمان نہیں۔ وہ بس سیاسی شہید بن کرپھر سے میدان میں اترنے کی فکر میں ہیں۔

لیکن ہائبرڈ نظام اور ”سلیکٹڈ حکومت“ سے لڑتے لڑتے پی ڈی ایم،پاکستان پیپلزپارٹی اور اب مشترکہ حزب اختلاف اپنے اساسی مقاصد سے پیچھے ہٹ گئی ہیں جس کا بنیادی ہدف سول ملٹری تعلقات میں صفتی تبدیلی لانا اور جمہور کی بالا دستی کو یقینی بنانا تھا۔ اپوزیشن کے لیے ہائبرڈ نظام کے بنیادی ستون یعنی مقتدرہ کا ”غیر جانبدار“ ہوجانا ہی صلح حدیبیہ کے لیے کافی تھا۔

”سلیکٹڈ حکومت“ نے تو دھڑام سے گرنا ہی تھا، لیکن اپوزیشن کا ووٹ کی حرمت کا نعرہ بھی عدم اعتماد کے ووٹ کی بے حرمتی کے ساتھ شرمندہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر دو اطراف ایک دوسرے کے اراکین کو توڑنے کے دعوے کررہے ہیں اور حکومت کے اتحادی ہیں کہ خوب دام لگوارہے ہیں۔

شواہد سے لگتا ہے کہ 155 ارکان پر مشتمل تحریک انصاف کے لیڈر ایوان زیریں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ تحریک انصاف اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ اتحادی بلیک میل کررہے ہیں۔ ساڑھے تین سال کی پاکستان کی سب سے ناکام حکومت کے پلے سوائے ایک ہیلتھ کارڈ اور احساس پروگرام کے عوام کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔

عمران حکومت اپنے کرپشن کے خاتمے اور پاکستان کی طبقاتی تقسیم ختم کرنے کے ماسٹر بیانیے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، جو معاشی حالت اسے ورثے میں ملی تھی آج حالات اس سے کم از کم دگنے برے ہیں اور یہ آئندہ حکومت سے بھی جلد ٹھیک ہونے کو نہیں۔ اب جب ڈراپ سین ہونے کو ہفتہ دس دن رہ گئے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو بھی بحران رہے گا، ناکام رہتی ہے تو بحران اور بھی بڑھ سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ پارلیمنٹ کا معاملہ پارلیمنٹ ہی میں طے کیا جائے۔ عدالتیں اس میں ملوث ہوں نہ ادارے۔

عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں رائے دہندگان سے فوری رجوع کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ یا تو عمران حکومت اس برس عام انتخابات کا اعلان کردے اور انتخابی اصلاحات اور جنوبی پنجاب کے صوبے پر قومی اتفاق رائے کے لیے دونوں اطراف با مقصد مذاکرات کرے، یا پھر عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں انتخابی اصلاحات کے ساتھ ہی نئے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا جائے۔

اس سیاسی بحران کے جمہوری و پارلیمانی اور پرامن حل سے جمہوری عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ جو بھی اس راہ سے ہٹے گا جمہوریت دشمن کہلائے گا۔ اور اس ملک میں جمہوریت دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔ جو جمہور کے علمبردار ہیں اپنی اپنی پارٹیوں کو گھر کی باندی بنا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسی سیاسی جتھہ بندیوں کے ساتھ عوام کی حاکمیت کی جنگ نہیں لڑی جاسکتی اور نہ جیتی جاسکتی ہے۔ نیا پاکستان کا نعرہ ہو یا پرانے پاکستان کی واپسی عوام الناس کے لیے ان میں کوئی خاص کشش نہیں۔

آمرانہ قوتوں کی شکست اور جمہور کی حکمرانی کے لیے ایک وسیع تر جمہوری عوامی انقلاب چاہیے۔ باشعور و آزاد اور منظم رائے دہندگان، منظم عوام دوست جماعتوں، آزاد و خود مختار میڈیا اور ایک روشن خیال سول سوسائٹی کے بغیر جمہوریت کی گاڑی پٹری پر اترتی چڑھتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments