الیکشن 2018: بلوچستان میں سیاسی اجتماعات کی جگہ تعزیتی اجتماعات


مستونگ

ضلع مستونگ میں جمعے کو ہونے والے دھماکے میں 149 افراد ہلاک ہو گئے تھے

بلوچستان کے علاقے مستونگ میں خودکش حملے کے بعد سیاسی سرگرمیاں مانند پڑ گئیں ہیں اور سیاسی اجتماعات کی جگہ تعزیتی اجتماعات نے لے لی ہے۔

جمعہ 13 جولائی کو ہونے والے حملے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی سمیت 149 افراد ہلاک ہوئے اور دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔

مستونگ گذشتہ ایک دہائی سے شدت پسندی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ پچھلے سال یہاں جے یو آئی سے وابستہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا غفور حیدری پر حملہ کیا گیا اور اسی علاقے میں ہزارہ کمیونٹی بھی مسلسل نشانہ بنتی رہی ہے۔

مستونگ دھماکے کے بارے میں مزید پڑھیے

مستونگ دھماکہ: ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 149

مستونگ دھماکہ: ’تین بیٹے دیکھنے گئے تھے، تینوں مارے گئے‘

مستونگ خود کش حملہ: 128 افراد ہلاک، امریکہ کی مذمت

پاکستانی فورسز نےگذشتہ سال ہی یہاں آپریشن میں داعش کا نیٹ ورک ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کارروائی میں داعش سندھ اور بلوچستان کے سربراہ غلام مصطفیٰ مزاری سات دیگر ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔

بلوچستان میں اس وقت سیاسی جماعتیں مذہبی شدت پسندوں اور بلوچ عسکریت پسندوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ انتخابات سے قبل ان کا بنیادی ہدف سرکاری تنصیبات اور فورسز تھیں۔

بلوچستان عوامی نیشنل پارٹی کیوں؟

مستونگ

بلوچستان عوامی پارٹی حال ہی میں صوبے کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی ہے۔ اس میں شامل تمام رہنما اقتدار میں شریک رہے ہیں۔ تنظیم کے ایک رہنما سعید ہاشمی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔

‘سٹیبلشمنٹ ایک باریک لکیر ہوتی ہے ان جماعتوں اور سٹیبلشمنٹ کے درمیان جو حکومت میں رہتے ہیں۔ اب میں چار مرتبہ حکومتوں میں رہا ہوں میں سینیٹر بھی رہا لیکن سٹیبشلمنٹ کے بغیر میں بھی کام نہیں کرسکتا۔ ہم الیکٹیبل ہیں اور ہمارے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہے ہیں۔’

فوج کے شعبہ تعلق عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی ٹوئٹر پر سراج رئیسانی کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک تصویر جاری کی جس میں انہوں نے بھارتی جھنڈے پر دونوں پاؤں رکھے ہیں۔

https://twitter.com/peaceforchange/status/1017883154802233344

اس کے ساتھ ساتھ ایک پرانی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہے جس میں سراج رئیسانی ایک دوسرے شخص کے ساتھ قرآن لیے کھڑے ہیں جبکہ مسلح لوگ اس کے نیچے سے گزر رہے ہیں پس منظر میں الجہاد الجہاد کا نغمہ جاری ہے۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں سراج رئیسانی کو اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں شریک قرار دیتی رہی ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما جام کمال کہتے ہیں کہ سراج رئیسانی بڑے محب وطن تھے۔

مستونگ

کوئٹہ میں انتخابی سرگرمیوں کے لیے تیاری جاری

‘وہ جذباتی پاکستانی تھے۔ انھوں نے انڈیا کے خلاف اور بہت ساری چیزوں کے بارے میں کھل کر اپنے موقف کا بیان کیا تھا وہ عنصر اس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔’

سراج رئیسانی کا مقابلہ اپنے ہی بھائی، سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی سے تھا۔ ان کے دوسرے بھائی حاجی لشکری رئیسانی اس حملے کو خارجہ پالیسی سے جوڑتے ہیں۔

‘ہماری خارجہ پالیسی نہ ہونے کے برابر ہے اور خارجہ پالیسی جہاں نہیں ہوتی وہاں اس قسم کے حالات بن رہے ہیں اور مزید پیچیدگی کی طرف جائیں گے۔ تدارک اس لیے نہیں ہوگا کیونکہ جو لوگ پالیسی بناتے ہیں وہ اپنی پالیسی کو رول بیک نہیں کرسکتے اور اب اس دلدل میں دھنس گئے ہیں۔’

بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا بائیکاٹ

مستونگ

پاکستانی فورسز نےگزشتہ سال ہی یہاں آپریشن میں داعش کا نیٹ ورک ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا

بلوچستان میں الیکشن کمیشن اور فورسز کے لیے دوسرا بڑا چیلینج عسکریت پسند جماعتوں کا بائیکاٹ ہے۔

گذشتہ انتخابات میں عسکریت پسند تنظیموں نے بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے آوران، تربت، مکران، نصیر آباد، کوہلواور ڈیرہ بگٹی سمیت کئی علاقوں میں ٹرن آوٹ کم رہا۔

حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران آوران، تربت، کھاران اور حب میں نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے کیمپوں پر حملے کیے گئے ہیں اور ان میں سے اکثر جماعتیں وہ ہی ہیں جو شریک اقتدار رہی ہیں۔

عسکریت پسندوں کے غیرمتوقع حملے

بلوچستان میں گذشتہ ایک دہائی سے فورسز کا خاص طور پر بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف سرجیکل آپریشن جاری ہے۔

یہ کارروائیاں ان علاقوں میں زیادہ ہوئی ہیں جہاں گذشتہ انتخابات میں بائیکاٹ کیا گیا تھا۔

تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ جس طرح فورسز نے کارروائیاں کی ہیں اس سے توقع تھی کہ اس بار ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ان کا وجود ہی نہیں رہا۔

‘عسکریت پسندوں کی یہ حکمت عملی ہے کہ خوف مزید پیدا کرو اور آنے والے دنوں میں وہ مزید اسے بڑھائیں گے تاکہ لوگ گھروں تک محدود رہیں اور انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ وہ اپنی موجودگی دکھانے چاہتے ہیں۔’

ریاست معاون قوتیں

مستونگ

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل

گذشتہ حکومت میں شریک نیشنل پارٹی کی سرگرمیاں محدود نظر آتی ہیں، جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل حالیہ انتخابات میں زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں۔

گذشتہ انتخابات میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت محدود تھی۔

مستونگ میں خودکش بم حملے سے قبل کوئٹہ سے لیکر لسبیلہ تک ان کی جماعت آزادانہ طور پر انتخابی مہم میں شریک تھی۔

سردار اختر مینگل بلوچستان عوامی پارٹی کے فروغ پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو عسکریت پسند جماعتیں ہیں ان کی طرف سے تو پہلے بھی بائیکاٹ تھا اور اب بھی ہے اور وہ تو اس نظام سے دور ہیں لیکن ’اگر ریاست کی جانب سے ایسے واقعات ہوتے ہیں اور ریاست کی معاون کچھ قوتیں اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوتی ہیں تو وہ عوام کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔‘

‘ایسے کچھ علاقے ہیں جو عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں جہاں پر حکومت کی کوئی رٹ ہی نہیں۔ ان علاقوں میں کوئی بائیکاٹ کرے نہ کرے، ووٹر کا ٹرن آوٹ پہلے بھی بہت کم تھا اور شاید اب بھی کم ووٹ پڑیں۔’

مستونگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp