آخری خط – اس سے تو اچھا تھا کہ مر جاتے


بیٹے خوش رہو
فون پر بات ہوئی بڑا اچھا لگا، پھرتمہارا خط بھی ملا۔ تمہارے ابو تمہارے بارے میں کافی پریشان ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم نے جو کچھ خط میں لکھا ہے وہ بڑی عجیب باتیں ہیں۔ معصوم لوگوں کا خون بہانا کوئی اسلام نہیں ہے بیٹے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ انگریز اور امریکی ساری دنیا میں مسلمانوں کو پریشان کررہے ہیں۔ یہودیوں نے فلسطینیوں کی زندگی کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔ کشمیر میں بھی مسلمان ہی مررہے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت بُرا ہورہا ہے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کیونکہ ہم لوگ امریکہ اور اسرائیل کے صدر کو نہیں مارسکتے ہیں تو معصوم لوگوں کو مارنا شروع کردیں۔ کسی کے بے وقت مرنے سے خاندان پر جو گزرتی ہے اس کا اندازہ تمہیں تو زیادہ ہونا چاہئیے۔

تمہارے ابو کہہ رہے تھے کہ خط میں اس قسم کی باتیں لکھنا اچھا نہیں ہے۔ تم اپنا ضرور خیال رکھو اور اچھی باتیں ذہن میں رکھو۔ کراچی میں تمہیں نہ نوکری مل رہی تھی اور نہ ہی آگے کسی قسم کی تعلیم کا بندوبست ہوسکا تھا۔ تمہیں وہاں نوکری بھی ملی ہے اور تعلیم بھی حاصل کررہے ہو۔ خود ہی کہتے ہو کہ بہت امن و امان ہے وہاں پر۔ نا انصافی نہیں ہے، کسی کا قتل نہیں ہوتا ہے، کوئی جرم کرتا ہے تو پکڑا جاتا ہے۔ بیٹے وہاں کی یہ باتیں دیکھو جو بُرا ہورہا ہے اسے بُرا سمجھو مگر ایسا کوئی کام نہ کرنا جو انسانیت کے زمرے میں نہیں ہے جو انسانیت میں نہیں ہے وہ اسلام بھی نہیں ہے۔ ہمارے اللہ نے ہمیشہ دوسروں کے حقوق پر زور دیا ہے اور اسے افضل درجہ دیا ہے۔

رخسانہ کے رشتے کے لئے ہم لوگوں نے ہاں کردی ہے تمہیں فون پر بتا ہی چکی ہوں۔ وہ لوگ چھ ماہ کے بعد شادی کرنا چاہتے ہیں، تمہارے بغیر یہ شادی نہیں ہوسکے گی۔ میں چاہتی ہوں کہ تم آؤ اور اس موقع پر تمہاری بھی کم از کم منگنی کردی جائے۔

چھوٹی کو سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا ہے اور وہ بہت خوش ہے۔ اللہ اس کا نصیب اچھا کرے اور وہ اچھی ڈاکٹر بن کر نکلے۔ میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔
بیٹے اپنا خیال رکھو میری عمر بھی تمہیں لگ جائے۔
تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بیٹے خوش رہو
فون پر زیادہ بات نہیں ہوسکی۔ اگر تم شادی کے موقع پر نہیں آسکتے ہو تب بھی یہ شادی لڑکے والوں کو دی گئی تاریخ پر کرنی ہوگی کیونکہ سلمان میاں کی اسی وقت چھٹی ہوتی ہے۔ بہرحال تم کوشش تو ضرور کرنا۔ ہم لوگوں کی تیاری ہے، تھوڑا بہت جو بیٹی کو دینا ہوتا ہے وہ تو بالکل تیار ہی ہے اور اللہ کی مرضی سے خوش اسلوبی سے سب کچھ ہوجائے گا۔ بس یہی دعا ہے کہ امن و امان رہے۔ روز روز کے دھماکوں اور قتل و غارت گری نے زندگی حرام کردی ہے۔ ہر ایک اندر سے پریشان رہتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو اپنے پیاروں کا خوف سے انتظار رہتا ہے اور صبح سے خوف آتا ہے کہ پھر کوئی کام کے لئے، پڑھنے، علاج کرانے، بل دینے گھر سے باہر نکلے گا اور پھر اس کی واپسی شایدنہ ہو۔ بہرحال شادی کی تاریخ طے کردی گئی ہے تم کوشش تو بہرحال کرنا۔

تمہارے ابو کی طبیعت خراب رہتی ہے۔ اب ریٹائرمنٹ میں صرف اٹھارہ مہینے رہ گئے ہیں۔ دیکھو اس کے بعد کیا کرتے ہیں۔ کسٹم کے محکمے میں کام کرکے بھی انہوں نے ناجائز نہیں کمایا۔ ضروریات پوری کرنے کے لئے شام کو بھی پارٹ ٹائم کام کرتے رہے مگر عزت سے زندگی گزاردی۔ اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا تھا ہم دونوں کی زندگی میں۔ اوپر والے نے بڑے امتحان لئے ہیں۔ اگر اس کی یہی مرضی تھی تو یہی صحیح۔ حشر کے دن منہ دکھانے کے قابل تو ہیں ہم لوگ۔

بیٹے پاکستانیوں کے بارے میں بڑی اُلٹی سیدھی اورعجیب و غریب خبریں آتی رہتی ہیں۔ نہ جانے ہم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے اوپر سے ہمارے ٹیلی ویژن والے بھی اس طرح سے دکھاتے ہیں کہ جیسے ساری دنیا ہمارے خلاف ہے۔ یہ نہیں دکھاتے کہ ہم لوگ ساری دنیا میں کیا کیا اچھا کرتے رہتے ہیں۔ بس اللہ ہی ہماری حفاظت کرے اور ہمیں صحیح راہ پر رکھے۔
اپنا خیال رکھو، تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بیٹے
شادی میں تم آگئے بڑا اچھا ہوا، تمہارے سامنے رخسانہ عزت سے رخصت ہوگئی یہ بھی اچھا ہوا، تم ڈھیر سارے روپے لے کے آئے اور دھوم دھام سے اپنی بہن کی شادی پر خرچکیے۔ اچھا ہوتا کہ یہ پیسے تمہاری اپنی محنت سے کمائے ہوئے پیسے ہوتے تو آج میں چین سے ہوتی۔ میں اورتمہارے ابو رات کو سکون سے ہوتے۔ مجھے تمہارا انداز اچھا نہیں لگا اور رخسانہ کی رخصتی کے بعد تمہارا مہینہ بھر کے لئے غائب ہوجانا بھی اچھا نہیں لگا مگر میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ تم اتنی بڑی بربادی اپنے اوپر اور ہمارے اوپر لے کر آؤگے۔

رخسانہ تو اپنے گھر چلی گئی پھر وہاں سے سعودی عرب بھی پہنچ گئی، لوگ شادی بھی بھول گئے مگر وہاں جا کرایئرپورٹ پر تمہاری گرفتاری بغیر کسی وجہ کے نہیں ہے بیٹے۔ تمہارے دوست نے جب فون کرکے بتایا تو میرا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا۔ تمہارے دیے ہوئے ڈالر مجھے جیسے ڈسنے لگے۔ تمہارے ابو نے تمہارے غم کو بھی اسی طرح سے اپنے لئے روگ بنالیا ہے جیسے عامر کا غم ہے مگرتمہارا دیا ہوا دکھ بڑا دکھ ہے جسے وہ برداشت نہیں کرسکیں گے۔

تمہاری گرفتاری کے بعد سے بار بار پولیس اور پتہ نہیں کن کن اداروں کے لوگ گھر پر بار بار آرہے ہیں۔ دس دن تک تمہارے ابو کو انہوں نے جیل میں رکھا ہے۔ تمہارے بارے میں باتیں پوچھ رہے ہیں۔ گھر کی تین دفعہ تلاشی لی جاچکی ہے۔ تمہاری ایسی تصویریں ہیں جس میں تم میرے بیٹے نہیں لگتے ہو۔ بیٹے ہم نے تو کبھی تمہیں نہیں سکھایا تھا کہ بم بنانے کی تربیت لو۔ بم پھاڑنے کے طریقے سیکھو معصوم لوگوں کی جانیں لینے کا پروگرام بناؤ کیونکہ۔ امریکہ اور اسرائیل معصوم مسلمانوں کی جان لے رہے ہیں۔ یہ کیسا اسلام ہے بیٹا یہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ایسا تو کسی نے بھی سکھایا نہیں ہے ہمارے نبی تو رحمت اللعالمین ہیں، رحمت المسلمین ہیں، میں تمہارے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوگئی ہے۔

تمہارے دوست کا ایک ہی دفعہ فون آیا صرف یہ بتانے کے لئے کہ تم کہاں ہو اور تمہارے خلاف قانونی کارروائی ہورہی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ پھر فون نہیں کرے گا کیونکہ شاید ہم لوگوں کا فون ٹیپ ہورہا ہوگا اور وہ کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا ہے۔ اس کی بات بالکل صحیح ہے اور مجھے یہ اوربھی دکھ ہے کہ تمہارے دوست بھی تم پر بھروسہ نہیں کرسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ بُرا کیا ہوسکتا ہے۔

ماؤں کو اپنے بچوں کی ناکامی پر خوشی نہیں ہوتی ہے۔ وہ تو بچوں کی کامیابی کے لئے جان تک دے دیتی ہیں مگر مجھے تمہاری ناکامی پر بہت خوشی ہے۔ اس لئے نہیں کہ تمہاری جان بچ گئی جن حالات سے تم گزررہے ہو اور جن حالات سے تم گزروگے اس سے تو اچھا تھا کہ مرجاتے تم نے تو شاید یہی سوچا ہوگا۔ تمہاری ناکامی کی خوشی اس لئے ہے کہ تم نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کی جان لے لیتے۔ کتنے بچے مرجاتے، باپ گھروں کو نہیں پہنچتے، مائیں اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کسمپرسی میں موت کو گلے لگالیتیں اور گھروں میں انتظار کرتے ہوئے ماں باپ، بھائی بہن، بیٹے بیٹیاں میرے اورتمہارے ابو کی طرح سے وہی ماتم کررہے ہوتے جو ہم عامر کے لئے کررہے ہیں۔

تم اس کا اندازہ کیا کرسکتے ہو۔ تم ماں نہیں ہو باپ نہیں ہو تم تو بیٹے بھی نہیں ہو۔ تم تو کسی ایسے نظریے، کسی ایسے مذہب، کسی ایسے اسلام پرکاربند ہو جو ان رشتوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا ہے۔ کاش میں تمہاری ماں نہیں ہوتی۔ میری اس خواہش کے باوجود کوکھ کا رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا ہے۔ تمہیں بھلانے کی کوششوں کے باوجود تم میری زندگی سے نکل نہیں سکتے ہو، اب ساری عمر عامر کو یاد کرکے روتی رہوں گی اور تمہارے لئے دعا ہی کروں گی، یہی اگر اوپر والے کی منشا ہے تو اور کیا کرسکتی ہوں۔
تمہاری کھوئی ہوئی ماں

یہ میرا آخری خط ہے جو میں روز لکھتی ہوں اوربعض دفعہ ایک دن میں کئی کئی دفعہ لکھتی ہوں، کبھی ایک طریقے سے کبھی دوسرے طریقے سے پھر اسے پھاڑ کر پھینک دیتی ہوں اس لئے کہ اس خط کو تمہارے پاس بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس دکھ کا تمہارے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے اور مجھے تمہارے جواب کا انتظار بھی نہیں ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3