کراچی کے عسکری پارک کا 360 پنڈولم جھولا آخر کار گر گیا


نظر بد برحق ہے۔ مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ صرف کراچی کا خون ہی کیوں ہلکا ہے۔ کوئی اچھی پیش رفت صرف چند ایام کی مہمان ہی کیوں ہوا کرتی ہے؟

کراچی آئے کئی دن ہوئے۔ خوش گوار تبدیلی تھی مگر میرا قلم ٹھہرا طنزیہ۔ اس دفعہ اچھی تبدیلی لگی کراچی میں۔ خاص کر راشد منہاس روڈ پہ۔ لکی ون مال اپنی نوعیت کا ایک جدید اور خوبصورت مال بنایا گیا ہے کہ جس میں جا کے باہر کے ملک جانے کا گمان ہوتا ہے، تعمیر کے لحاظ سے بھی اور قیمتوں کے اعتبار سے بھی۔ پھر نیو پلیکس سینما کا نیا اضافہ ملا۔ وہ بھی کسی صورت کسی باہر کے ملک سے پیچھے نہ تھا۔ تلاشی کے لحاظ سے تھوڑی بے ہودگی لگی کہ ساری تلاشی عورتوں کے لیے تھی۔ مردوں کا موبائل باسکٹ میں اور بس۔ وہ جیبوں میں جو لے جائیں خیر ہے۔ خیر تعمیری اعتبار سے میرا کراچی خوبصورت ہوتا نظر آیا۔ میں، جس کے سال کا زیادہ حصہ پنجاب میں گزرتا ہے، پچھلے تین برس سے کراچی آ کے دل کڑھ سا جاتا تھا کہ کوئی تعمیری کام، کوئی لوگوں کی سیر و تفریح، کسی بات پہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس بار کراچی آ کے میرے شکوے دور ہوئے۔

سڑکیں بہتر ملیں۔ کچرا کم ملا او ر تفریحی مقامات میں اضافہ ہوا۔ سمندر میں کلفٹن کا ساحل، جو دو دریا کی طرف نکلتا ہے، قدرے صاف ملا۔ گھٹنے بھگونے کو لہروں نے چھوا ہی ہو گا کہ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے پندرہ سے بیس مکرانیوں نے گھیر لیا۔ نصف دائرہ بنائے، منہ کھلے آنکھیں باہر۔ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ قدرے نظر انداز کرنا چاہا مگر خون کھول سا گیا کہ کوئی 150 نوجوان تو وہاں کراچی سے تعلق رکھنے والے بھی تھے، وہ اپنے کام سے کام رکھتے نظر آئے۔

نجانے کیوں، کراچی کی ٹیکسی سروس ہو یا ساحل، دو دریا کے ہوٹل ہوں یا سفاری پارک۔ لوگ شروع کر کے چھوڑ کیوں دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ چیزیں بد حالی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پچھلے ہفتے بچوں کو میاں کے ہاتھ سند باد بھیج دیا۔ بیٹی کا موڈ خراب تھا کہ لکی ون مال میں رولر کوسٹر پہ بیٹھنے کی اجازت نہ دی تھی میں نے۔ بہت شرم کی بات ہے مگر کیا کروں کہ یہاں کے جھولوں کے لیے دل نہیں مانتا۔ خیر جناب باپ کی لاڈلی۔ سند باد لے گئے اور باپ نے ماں کے نا ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارے جھولوں میں بٹھا ڈالا۔ پھر گھر آ کر جو بتایا تو میرا غصے سے برا حال۔

یہ واحد معاملہ ہے کہ جس میں مجھے شوہر نامدار پہ ذرا اعتبار نہیں۔ بچی کی فوجی ٹریننگ کروا کے لے آئے۔ پھر دھیرے سے بتایا کہ یہ تھوڑا ڈر بھی گئی تھی۔ پھر مسکرا کے کہا کہ میں بھی ڈر گیا تھا۔ مگر میں ڈرپوک نہیں ہوں، اس جھولے میں کوئی نقص لگ رہا تھا۔ ’ٹھک‘ کی آواز آتی تھی۔ آخر انجینئر جو ٹھہرے۔

ابھی کچھ دن گزرے تو سب نے کہا کہ بھئی جانے سے پہلے عسکری پارک ضرور چلے جانا۔ کراچی کی شان ہے۔ نیا بنا ہے۔ بروز ہفتہ، مورخہ 14 جولائی ہم چھ افراد عسکری پارک گئے۔ بچپن کے کلفٹن فن لینڈ کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ بس کمی تھی تو تلی ہوئی مچھلی کی خوشبو کی اور ماں کی ڈانٹ کی۔

ساٹھ ساٹھ روپے کا ٹکٹ خرید کے سب اندر گئے تو آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ بچوں سے میری جھڑپ شروع ہو گئی کہ اس پہ اس پہ، کسی پہ نا بیٹھنا۔ چلو کچھ کھلاؤں۔ پھر شوہر نے سمجھایا کہ اس سب سے آسان جھولے پہ تو بیٹھنے دو۔ چار ٹکٹ خریدے۔ پیسے جو بتائے تو میں نے تین بار کنفرم کیے کہ کانوں کو یقین نہ آیا۔ پھر مال کے علاوہ تو کراچی سستا شہر ہی ہے۔ بچے منہ بنا کے واپس آئے کہ یہ کہاں بھیج دیا تھا۔ غلیل جیسے سلنگ شاٹ پہ بٹھائیں۔ خیر اس کا ٹکٹ 500 روپے تھا جس کی اجازت تو مجھ سے ملنی نہیں تھی۔ پھر سے رولر کوسٹر کی رٹ شروع۔ کھڑے کھڑے پندرہ پندرہ سو تو ایسے نکل رہے تھے کہ کیا پوچھنا۔

قارئین کراچی کی بیشتر آبادی تو ان تفریح گاہوں کو افورڈ ہی نہیں کر سکتی، بچوں کو ایسی جگہ لے جانے کا کیا فائدہ جب آپ ان کو نہ کسی جھولے پہ بٹھا سکیں نہ کچھ کھلا پلا سکیں۔ رولر کوسٹر کے لیے بڑی ہی مشکل سے میرے منہ سے ہاں نکلی، اس طعنے کے ساتھ کہ بچوں کو چوزہ بنا کے رکھنا زندگی بھر۔ قارئین یہ تھوڑی سی پیچیدہ رولر کوسٹر تھی۔ میں جس ٹکٹ باکس پہ بھی گئی کہ اس جھولے کے لیے کتنی عمر ہونی چاہیے تو انھیں کچھ علم نہ ہوتا۔ مسکرا کے جواب دیتے کہ بچہ ڈرپوک نہیں تو بٹھا دیں۔ میں نے لاکھ کہا کہ دنیا بھر میں بارہ سال سے زائد کے لیے مشکل جھولے ہوتے ہیں مگر سب نے حیرت زدہ نظروں سے گھورا مجھے۔ خیر جھولا چل پڑا۔

دو موقعوں پہ، ایک بار وہ جب کوسٹر نیچے آتی ہے اور دوسرے جب وہ چکر کھاتی ہے، مجھے لگا کہ میاں سے میری آج آخری ملاقات ہے۔ جب کوسٹر رکی تو میں نے سفید چہروں کو ہاتھ ہلایا۔ جوابی کارروائی پہ جان میں جان آئی۔ ہنسنے کی ناکام کوشش کرتے میاں نے بتایا کہ اس جھولے میں تیکنیکی نقص ہے، یہ گر سکتا ہے۔ دو بار جھٹکا لگا اور بیلنس بگڑا اور وہی ’ٹھک‘ کی آواز آئی۔ آئندہ اس پہ کوئی نہ بیٹھے۔ بچی کی دھڑکن کافی دیر میں جا کے سنبھلی جس کی عمر گیارہ سال سے کم ہے۔ خیر میں نے طعنہ دیا جو ہر ماں دیتی ہے کہ ہو گیا شوق پورا۔ دل میں خیال آیا کہ میرے کراچی کو نظر نہ لگے کسی کی۔

قارئین بچوں کی اگلی ضد ’ 360 پنڈولم ‘ تھا۔ چیخوں سے گونجتا ہوا۔ گویا ایک بے ہنگم راڈ ادھر سے ادھر ہاتھ پیر مار رہی ہو آزادی کے لیے۔ اڑنے کے لیے۔ اس پہ تو میاں نے بھی سب کو منع کر دیا اسی شرمناک جملے کے ساتھ کہ پاکستانی جھولا گر بھی سکتا ہے۔ انتہائی پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔ پتہ نہیں اس مہارت اور ایمانداری سے بنایا بھی گیا ہے کہ نہیں۔ اور قارئین ابھی پارک بنے ایک ماہ کا عرصہ ہی تو گزرا تھا کہ یہ خبر آج سننے کو ملی کہ جھولا گر گیا۔ ہاں وزن میں ایک نمبر تھا کہ 50 ورثا مل کے بھی اسے اٹھا نہ سکے اور انتظامیہ کہیں رولر کوسٹر میں بیٹھ کے پھر سے اڑ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).