انڈیا میں غیر شادی شدہ افراد میں جنسی مراسم کا پیچیدہ قانون اور مجرمانہ ذمہ داری


مرد عورت

اگر انڈیا میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی بیوی سے غیر ازدواجی جنسی تعلقات قائم کرتا ہے تو کیا یہ جرم ہے، اور اگر ہاں تو سزا کس کو ملنی چاہیے؟

انڈیا کی سپریم کورٹ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔

تعزیرات ہند کی دفعہ 497 اسی بارے میں ہے اور اسے پڑھیں تو ایک حیرت انگیز تصویر ابھرتی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘اگر کوئی بھی (شخص) کسی ایسی عورت سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے، جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے، یا اس کا یہ خیال ہو کہ وہ کسی اور کی بیوی ہے، اور اس (جنسی) عمل میں اس کے شوہر کی مرضی یا معاونت شامل نہ ہو، اور اگر یہ عمل ریپ کے زمرے میں نہ آتا ہو، تو پھر وہ شخص اڈلٹری (غیر ازدواجی تعلقات) کے جرم کا مرتکب ہے اور اسے یا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید یا جرمانے یا دونوں کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن بیوی کسی جرم کی مرتکب نہیں ہوگی۔’

انڈیا میں دو بالغ، بشرطیکہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو، اگر شادی کے بغیر بھی جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ جرم نہیں ہے اور خود سپریم کورٹ ‘لو ان’ ریلیشن شپ یا شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑوں کے قانونی حقوق کو تسلیم کر چکی ہے۔

لیکن ہم جنس پرستی اب بھی قانوناً جرم ہے جس کے لیے دس سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور عدالت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکالنے کا وقت آگیا ہے۔

تو پھر اڈلٹری یا غیر ازدواجی تعلقات سے متعلق اس قانون کا مطلب کیا ہے؟

ہم جنس پرست

اس ضمن میں تین باتیں اہم ہیں

اڈلٹری کا جرم صرف اسی وقت تصور کیا جاتا ہے جب وہ عورت جس کے ساتھ غیرازدواجی جنسی تعلق قائم کیا گیا ہو، شادی شدہ ہو۔ اگر کوئی شادی شدہ مرد کسی غیر شادی شدہ عورت سے تعلق قائم کرتا ہے تو کوئی جرم نہیں بنتا لیکن ان کا یہ عمل طلاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ عورت کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جرم کا مرتکب صرف مرد ہوگا اور قانون کی نظر میں عورت جرم کا شکار مانی جائے گی۔

تیسرا یہ کہ اڈلٹری کا مقدمہ صرف عورت کے شوہر کی شکایت پر ہی قائم کیا جاسکتا ہے، اڈلٹری کرنے والے شخص کی بیوی کی شکایت پر بھی نہیں۔ یہ وضاحت ضابطہ فوجوداری کی دفعہ 198(2) میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا اڈلٹری کو جرم تصور کیا جانا چاہیے اور اگر ہاں تو بیوی کو سزا کیوں نہ دی جائے؟

بحث اس سوال پر بھی ہے کہ کیا یہ قانون بیوی کو شوہر کی املاک کے طور پر پیش نہیں کرتا کیونکہ شق میں ‘کسی دوسرے شخص کی بیوی’ کا ذکر کیا گیا ہے ‘کسی عورت’ کا نہیں، مطلب یہ کہ کیا عورت کا اپنا کوئی آزادنہ وجود نہیں ہے؟

سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے، نئی سماجی اقدار اور مساوات کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ اور اگر شادی شدہ عورت سے جنسی تعلق قائم کرنا جرم ہے جس کے لیے مرد کو سزا دی جاسکتی ہے تو کسی شادی شدہ شخص سے جنسی تعلق قائم کرنے والی غیر شادی شدہ لڑکی کو سزا کیوں نہیں ملنی چاہیے؟

اڈلٹری کے معاملے میں شادی شدہ شخص کی بیوی کو وہ حقوق کیوں حاصل نہیں ہیں جو شادی شدہ عورت کے شوہر کو ہیں؟

انڈیا کی وفاقی حکومت نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکالنے کی تجویز کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اڈلٹری پر اس کا موقف کافی سخت ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کے رشتوں کی اجازت دے دی گئی، یا انھیں جرم کے زمرے سے نکال دیا گیا، تو ملک میں شادی کا نظام اور سماجی اقدار تباہ ہو جائیں گے اور لوگوں کو غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی ترغیب ملے گی۔ وہ عورتوں کو بھی سزا دینے کے خلاف ہے۔

لیکن اس موقف کی مخالفت کرنے والوں کی دلیل ہے کہ شادیوں کو قانون کے خوف سے نہیں بچایا جاسکتا اور اگر اڈلٹری کو جرم کے دائرے میں رکھنا بھی ہے تو مرد اور عورت دونوں ہی سزا کے حقدار ہونے چاہییں۔

تقریباً 30 سال پہلے سپریم کورٹ نے حکومت کے موجودہ موقف سے اتفاق کیا تھا لیکن جب امسال جنوری میں پھر اس شق کو چیلنج کیا گیا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ اس ‘فرسودہ’ قانون پر نظرثانی کرنے کا وقت آگیا ہے۔

اب ایک آئینی بنچ اس پٹیشن کی سماعت کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp