نواز شریف کی کایا کلپ کیسے ہوئی؟



مغرب میں جمہوریت اور صنعتی انقلاب کی پروان ایک ساتھ ہوئی ہے جو ایک دوسرے کی باہم ضرورت ہیں۔ صنعتی ترقی مسابقت اور برابری کی متقاضی ہے جو جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں تو دوسری طرف جمہوریت کی بیل روشن خیالی اور برداشت کے بغیر منڈے نہیں چڑھتی جو صرف جمہوری اقدار کے تحت ہی ممکن ہے ۔ ایک صنعتی معاشرہ عدم استحکام او ر افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی قسم کی شخصی اور انفرادی آمرانہ خواہشات کا تابع ہوسکتا ہے۔ صنعت آزاد معشیت کی منڈی ، انفرادی اور شخصی آزادی کے ماحول میں ہی پنپ سکتی ہے جہاں ہر فرد کو اس کا حق انتخاب (فری ڈم آف چوائس) حاصل ہوتا ہے جس میں اس کو اپنے لئے حکمرانوں کے انتخاب سے لے کر کھانے پینے، رہن سہن اور طرز زندگی کا حق شامل ہے۔

پاکستان میں جمہوریت اور صنعتی ترقی دونوں کا ارتقا بالکل ہی متضاد ہے۔ صنعت کو شخصی حکمرانی کے آمرانہ دور میں ترقی دینے کی کوشش کی گئی جہاں مسابقت کا ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی ترقی اجارہ داری میں منتج ہوئی۔ جمہوریت میں صنعت کو قومیایا گیا جس کی وجہ سے سرمایہ ملک سے باہر چلا گیا اور ترقی کا فطری بہاؤ رک گیا۔ جس جمہوریت کو صنعت کی کو کھ سے جنم لینا تھا اس نے زمینداروں کی حویلی میں آنکھ کھولی اور جس صنعت کو جمہوریت کے آنگن میں پلنا تھا وہ آمروں کے اشاروں پر ناچتی رہی ہے۔ ترقی کے اس ارتقا کا نتیجہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ جمہوریت کے ثمرات کسی مفلس اور غریب کو چند ہزار روپے کی امداد اور بلا سود قرضوں سے آگے نہ بڑھ پائے تو صنعتی ترقی نے بھی چند آجارہ داریوں اور اشرافیہ کے لئے سہولتوں کے کچھ اور پیدا نہیں کیا۔

گو کہ آئین میں لکھ دیا گیا ہےکہ بنیادی تعلیم، صحت اور پینے کا صاف پانی کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہوگا جس کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوگی مگر ریاست نے یہ زمہ داری عملاً کبھی پوری نہیں کی۔ آئین میں لکھنے کے باوجود کہ ہر شہری اپنی سوچ اور فکر میں آزاد ہو گا، اس کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اور کسی بھی ریاستی ادارے کو کسی شہری کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں ہوگا ان بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی رہی۔ اب تو بات شہریوں کی زندگی کے حق تک پہنچ چکی ہے جس کے تحفظ میں ناکامی کو ریاست کی کوتاہی سے محمول کیا جاتا ہے ۔

بھٹو کے جمہوری دور میں قومی صنعتوں کو قومیائے جانے کے خلاف سرمایہ داروں میں پائی جانے والی بے چینی کے تدارک کے طور پر اس کے بعد ضیاءالحق کے آمرانہ دور میں نواز شریف جیسے صنعت کاروں کو سیاست میں لایا گیا۔ ان صنعت کاروں نے پہلے تو قومیائی گئی اپنی صنعتوں کو واپس لے کر اپنا نقصان کا ازالہ ہزاروں دفعہ پورا کیا اور پھر وقت کے آمر کے اشاروں پر مذہب کو جمہوریت کے متبادل کے طور پر فروغ دینے کے لئے اپنی تجوریاں کھول دیں جس کی وجہ سے جمہوریت کے لئے لازم اعتدال پسند معاشرہ بتدریج مذہبی عدم رواداری کی راہ پر گامزن ہو کر گھٹن کا شکار ہوا۔ آج نواز شریف اور اس کے خاندان جس پیسے کا حساب مانگا جارہا ہے وہ اسی دور میں کمائے گئے زر کا ہے جو وقت کے آمر کے چھتر سائے میں مال غنیمت کے طور پر لوٹا گیا تھا۔ حساب مانگنے والوں کو بھی پہلی بار معلوم نہیں ہوا کہ لندن میں شریف فیملی کا گھر کہاں ہے اور کس کی ملکیت ہے۔ حساب مانگنے والوں کو اس کے علاوہ بھی بہت کچھ معلوم ہے مگر مجبوری حالات کچھ ادھر بھی اور کچھ ادھر بھی۔

نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو اور جمہوریت کی تحفظ کا نعرہ بیٹھے بٹھائے نہیں لگایا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک سوچ اور فکر وابستہ ہے۔ جمہوریت کا علم اٹھانا نواز شریف کی طبقاتی ضرورت ہے۔ ضیاءالحق کی آمرانہ گود میں پلنے والے صنعت کار کو وقت نے یہ بتادیا ہے کہ آمریت میں اس کا آشیانہ آباد نہیں ہو سکتا جہاں شخصی آزادیوں پر قد غن ہو اور فرد کا حق انتخاب سلب ہو ۔ نواز شریف کے ووٹ کوعزت دو کے نعرے کے ساتھ ہمسفر اور ہمنوا لوگوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پنجاب کے شہری علاقوں کے تاجر اور صنعت کار نظر آتے ہیں جو اس کے فطری طبقاتی گروہ کے لوگ ہیں۔ پاکستان کا یہ تاجر طبقہ اپنے مذہبی رجحانات کی وجہ سے ہمیشہ دائیں بازو کی سیاست کا حامی رہا ہے جبکہ جمہوریت کو ہمیشہ بائیں بازو کی حمایت رہی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ تاجر اور صنعت کار طبقے کی سیاست میں متحرک ہونے اور جمہوریت کی حمایت کرنے سےجہاں ملک میں دائیں بازو کی سیاست کو ترکی کے طرز پر فروغ حاصل ہوگا وہاں جمہوریت کو بھی کسی حد تک تقویت ملے گی۔

خواتین کے برابری کے حقوق بھی جمہوریت سے وابستہ ہیں جہاں وہ اپنی رائے دہی میں برابری کا حق رکھتی ہیں۔ نواز شریف کا ماضی میں مذہبی میلانات رکھنے کے باوجود خواتین بالخصوص اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامنا بھی ایک مثبت پیش رفت ہے جو مستقبل میں ملک میں صنفی امتیاز کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
نواز شریف نے اپنے طبقے کے مفادات کو سمجھنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے میں تین دہائیاں لگادیں مگر اب بھی وقت ہے کہ کم از کم اپنی اگلی نسل کو جمہوری سیاست کا علم تھما سکا تو اس کے ماضی کے گناہوں کا کسی حد تک کفارہ ادا ہوسکے گا ۔ اس لئے کہتے ہیں دیر آئید درست آئید۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan