عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے


انتخابات میں آٹھ روز باقی ہیں۔ الیکشن مہم پر احتساب، غیر سیاسی دستکاری، ذرائع ابلاغ پر دباؤ اور نگران بندوبست کی ساکھ پر منڈلاتے سوالات چھائے ہیں۔ نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پاکستان واپس آ کر جیل چلے گئے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ملک کی جمہوری طاقتیں انتخابات کی شفافیت اور پولنگ کے دوران بے قاعدگیوں کے نتیجے میں ممکنہ انتشار اور عدم استحکام پرتشویش میں مبتلا ہیں لیکن عمران خان کسی نوجوان سفید سمندری بگلے کی طرح پر پھیلائے اعتماد کے لطیف بادلوں میں محو پرواز ہیں۔ اپنی افتاد طبع کے عین مطابق عمران خان انتخاب سے پہلے ہی انتخاب جیت چکے ہیں۔ ان کی بدن بولی ان دنوں ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی 28 اگست 2014 کی رات نظر آئی تھی جب وہ اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہے تھے۔ کسی نامعلوم کوہ ندا سے آتی صدا پر لبیک کہتے ہوئے سیاست کے درجنوں پرانے کھلاڑی ان کی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جانا چاہئیے۔

انتخابی عمل میں شریک ہونے والی کسی سیاسی جماعت سے صحافی کا ذاتی عناد نہیں ہو سکتا۔ صحافی انتخابی سیاست میں فریق نہیں، اس کا کام خبر دینا ہے اور خبر کے پس پشت کارفرما عوامل کی نشاندھی کر کے اپنا تجزیہ پیش کرنا ہے۔ میری رائے میں عمران خان رواں مہینے کے آخر میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز نہیں ہو سکیں گے۔

ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی اٹھان میں بہت سے زاویے مختلف ہیں لیکن ایک نکتہ مشترک ہے۔ تینوں رہنماؤں نے پاکستان کی مستقل مقتدر قوتوں کے پائیں باغ میں پرورش پائی۔ 1967 سے 1971 تک بظاہر بھٹو صاحب ایک انقلابی جماعت کی قیادت کر رہے تھے لیکن مقتدر ریاستی اداروں کے ایک چنیدہ گروہ کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ ہرگز کوئی راز نہیں تھا۔ نواز شریف فوجی آمریت میں سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔ 1990 کے انتخابات میں وہ کھلے ترجیحی سلوک کی مدد سے وزیراعظم بنے۔ 1997 میں ان کی حریف پیپلز پارٹی کو بری طرح مفلوج کیا جا چکا تھا، 2013ء میں وزارت عظمی تک میاں نواز شریف کا سفر ہموار تھا۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی سیاسی جگہ کھو چکی تھی اور عمران خان کی تحریک انصاف ایک سیاسی تنظیم سے زیادہ نعرے کی حیثیت رکھتی تھی۔ 2018 کے انتخابات میں تصویر بدل چکی ہے۔ نواز شریف کھلم کھلا مزاحمت کی سیاست کر رہے ہیں اور عمران خان کی سیاست سے وہ جذباتی عنصر ختم ہو چکا ہے جو 2013 میں انہیں تبدیلی کا نقیب سمجھ رہا تھا۔

عمران خان صاحب ایسے بے خبر نہیں کہ انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ نومبر اور دسمبر 2011 اور پھر 2018 میں سدا بہار سیاسی خانوادوں نے کس نظریاتی بنیاد پر بنی گالہ کی زیارت کا فیصلہ کیا۔ ہماری سیاست میں یہ وہ قبیلہ ہے جو چالیس کی دہائی میں یونینیسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں داخل ہوا تو پاکستان کی کشتی ڈانواں ڈول ہو گئی۔ 1977 میں ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہوا تو بھٹو صاحب کا سیاسی تشخص مسخ ہو گیا۔ یہ وہی سبز قدم قافلہ ہے جس نے 1999 میں ق لیگ کو رونق بخشی اور اب تحریک انصاف میں بہار دے رہا ہے۔ ان لوگوں کو اپنے سایہ عاطفت میں لے کر عمران خان نے وہ اخلاقی قامت کھو دی ہے جس کے ساتھ وہ 1996 میں سیاست میں اترے تھے۔ یہ معراج محمد خان سے جہانگیر ترین تک کا سفر ہے۔ حامد خان اور ولید اقبال کی کایاکلپ علیم خان اور عون چوہدری کی صورت میں ہوئی ہے۔ تبدیلی کا خواب ہوا ہو چکا۔ خان صاحب کے ہاتھ میں صرف کرپشن کی جھنڈی ہے۔ کرپشن کا بیانیہ نیا نہیں۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے ریاستی اداروں نے آزادی کی جدوجہد میں کوئی کردار ادا نہیں کیا چنانچہ اختیار اور وسائل پر اجارہ قائم کرنے کے لیے انہیں سیاسی قیادت کو نااہل اور بدعنوان قرار دینے کا ڈھول پیٹنا پڑتا ہے۔

عمران خان نے کرپشن کی اس گردان میں صرف یہ حاشیہ بڑھایا ہے کہ ان کی پوری سیاست کرپشن کے الزامات کے گرد گھومتی ہے۔ جمہوری حکومتوں میں مالی بدعنوانی کے خلاف قانونی پلیٹ فارم موجود ہوتا ہے۔ سیاسی جماعت کی کارکردگی کا فیصلہ رائے دہندگان کرتے ہیں اور جمہوری قوتوں کا اولین فرض کرپشن کی اس صورت کے خلاف مزاحمت ہوتا ہے جو عوام کے حق حکمرانی پر قبضے کی خواہش سے پیدا ہوتی ہے۔ عمران خان کو پاکستان کی معاشی تاریخ میں وسائل کی تقسیم اور سیاسی اختیار پر فیصلہ کن بالادستی جیسے سوالات سے سروکار نہیں۔ سات دہائیوں کی سیاسی کیچڑ میں لتھڑے امیدواروں کے ساتھ عمران خان پچیس جولائی کی شام غیر متوقع حیرتوں سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

عمران خان کا حقیقی اثاثہ پاکستان کی وہ نوجوان نسل تھی جس نے اکیسویں صدی کی باخبر دنیا میں شعور کی آنکھ کھولی ہے، یہ نوجوان سیاسی فیصلہ سازی میں اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ آج کی دنیا میں دستیاب خوشیوں اور سہولتوں کا مطالبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مملکت کا کاروبار ان اصولوں پر استوار ہو جنہیں جمہوری اختیار اور ادارہ جاتی احتساب کی مدد سے مرتب کیا جاتا ہے۔ 2013ءمیں یہ نوجوان نسل ایک قابل قدر سیاسی خواب لے کر پولنگ بوتھ پر پہنچی تھی۔ 2018ءمیں سجادہ نشینوں، جاگیر داروں، نودولتیا شہری اشرافیہ اور مشائخ عظام کے جلو میں عمران خان اپنے نوجوان پیروکاروں کی امیدیں پوری نہیں کر سکتے۔

عمران خان معیشت کی بے رحم منطق کو سیاسی رہنما کی نیک نیتی سے خلط ملط کرتے ہیں۔ انہیں علم ہونا چاہئیے کہ 1972 کی معاشی اصلاحات کے بعد سے پاکستان کے صنعت کار اور تاجر طبقے نے کبھی بھٹو کی پیپلز پارٹی پر اعتماد نہیں کیا۔ خان صاحب پیسے جمع کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں تو کاروباری طبقہ خدشات کا شکار ہو جاتا ہے۔ نامعلوم کہاں سے عمران خان نے نواز شریف کی تین سو ارب روپے کی بدعنوانی کا عدد حاصل کیا ہے، صرف دو برس پہلے ڈاکٹر عاصم پر 462 ارب روپے کی بدعنوانی کا الزام لگایا گیا تھا۔ عمران خان کے ساتھی اسد عمر کو چاہئیے کہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پاکستانی معیشت کے بنیادی خدوخال اپنے رہنما کو آسان لفظوں میں سمجھا دیں۔ خیال رہے کہ خان صاحب کی طبع نازک معیشت کی پیچیدہ حرکیات پر غور و فکر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

عمران خان گذشتہ پانچ برس میں طاہرالقادری کے ساتھ قربت کو بھی پائیدار شراکت میں تبدیل نہیں کر سکے۔ انتخابات کے بعد عمران خان کو مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ ق، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی سمیت ان گنت سیاسی قوتوں سے واسطہ پڑے گا، سیاسی مکالمے میں حریف کو گدھا قرار نہیں دیا جاتا۔ سیاست میں تو چار ٹانگوں والے گدھے سے بھی مکالمے کی کھڑکی کھلی رکھنا ہوتی ہے۔

خطے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا موجودہ موقف زیادہ پذیرائی نہیں رکھتا ۔ عمران خان اسی بیانیے کی مدد سے پاکستان کے مفاد کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں جو ایران اور افغانستان سے لے کر سعودی عرب تک تناؤ کا شکار ہے۔ ساٹھ ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہوتی ہے سی پیک میں چین کی یہ سرمایہ کاری انتشار سے نہیں، استحکام سے مشروط ہے۔ گذشتہ دنوں عمران خان نے میاں نواز شریف کی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو سراہا۔ یہ ان کی بالغ نظری کا اشارہ ہے لیکن وہ اپنی سیاسی طاقت کے سرچشموں سے بھی پاک بھارت تعلقات پر رائے لے لیں تو بہتر ہے۔

پاکستان میں سیاسی کشمکس کے بنیادی فریق صرف دو ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے عوام جو ایک جمہوری، خوشحال، پرامن اور ترقی یافتہ پاکستان چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ قوتیں ہیں جو اپنے پیوستہ مفاد کے لئے ایک غریب، محتاج اور مشتعل پاکستان کی خواہاں ہیں۔ اس کشمکش میں پاکستان تحریک انصاف تاریخ کی غلط سمت پر کھڑی ہے۔ اگر پاکستان کے لوگ عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں تو پاکستان کے جمہوریت پسند ان کے حق اقتدار کے لیے بھی اسی طرح سینہ سپر ہوں گے جیسے بہت سی خامیوں کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی وسیع تر سیاسی تناظر میں حمایت کی جاتی ہے، مشکل مگر یہ ہے کہ معروضی حالات میں تحریک انصاف مطلوبہ پارلیمانی تعداد حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔ معلق پارلیمنٹ کے مچھلی بازار میں عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).