تسطیر ۔۔۔۔۔۔ ادب سے عشق کا استعارہ


بات تو پرانے زمانے کی لگتی ہے لیکن عصرِ حاضر کے نمائندہ اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادبی جریدے ” تسطیر” کی اشاعت کی خبر سن کر، میں دن میں بار بار، بے چینی پالے، کھڑکی سے گلی میں جھانکتی رہی، بلا شُبہ یہ احساس اپنوں کے خط کا انتظار کرتے میٹھی کسک جیسا تھا۔ وہ دور، جس میں الیکٹرونک میڈیا اپنے عروج پر ہو، اس میں کاغذوں کی مہک سے رشتے کا مزہ انوکھا ہونے کے ساتھ ساتھ نایاب بھی ہے۔

ٹی سی ایس ڈیلیوری کے ذریعے ” تسطیر- 4″ ہاتھ آتے ہی محترم سعید گوہرکی صاحبزادی’ تمثیل حفضہ’ کی منفرد، خوبصورت اور گہری معنویت کی حامل پینٹگ سے سجا سرورق دل و نگاہ کی قندیلیں روشن کر گیا۔ روایت و جدت کے امتزاجی برش سے مزین ‘ تسطیر-4’ کا سر ورق اور پسِ ورق، ابھرتی ہوئی بلوچی آرٹسٹ کا کینوس مزید واضح اور وسیع ہونے کی دلیل ہے۔

جناب نصیر احمد ناصر کی ادارت میں 1997ء سے شروع ہونے والا سہ ماہی تسطیر کڑی منزلوں سے گزر کر اب 2018ء میں گگن شاہد، امر شاہد صاحبان کی انتظامی و اشاعتی مدد سے مسلسل نمایاں ترین کامیابی سمیٹے ہو ئے ہے۔ اس کامیابی کی گواہی ہر دور کے معیاری لکھاریوں سے گندھے ‘ تسطیر’ کے مندرجات وثوق سے دیتے ہیں- ‘ تسطیر کا تازہ ترین شمارہ 4 اپریل 2018ء ہاتھ میں پکڑے میَں کتنی ہی دیر فہرست میں کھوئی رہی۔۔ یہاں تصنع و سفارش سے پاک پرانے اور نئے، سینئرز اور جونیئرز لکھاریوں کا ایسا امتزاج، ایسا تنوع، ایسا توازن موجود ہے جو فی زمانہ کسی اور ادبی جریدے میں نظر نہیں آتا۔ کتنی ہی دعائیں درویش صفت ایڈیٹر کے لیے دل سے نکلیں جنہوں نے اس ضخیم سہ ماہی شمارے کو اس درجہ حسین اور معیاری بنانے کے لیے خامشی سے اپنے وقت کو خدمت، محنت، محبت اور عبادت کا متبادل بنا دیا ہے۔

اس شمارے کا آغاز بابِ سعادت کے تحت نسیمِ سحر کی حمد اور پروین طاہر کی نعت ‘مثالِ منفرد ہے وہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم’ سے ہوتا ہے۔ پھر جیسا کہ میری پڑھنے کی روٹین رہی ہے (بالعموم بہت صبح اور رات گئے) ‘ تسطیر-4’ کسی دلچسپ و عظیم استاد کی طرح میرے ساتھ رہا۔ مدیر کا اداریہ ‘ںظم میں جدت و قدامت کا قضیہ اور تیسری لہر’ قاری اور لکھاری دونوں کو رک کر سوچنے کا کہہ رہا تھا۔ میں نے مدیر تسطیر کے ایک کیپسول کی طرح مختصر مگر اثر انگیز اداریوں اور ان پر استوار مباحث کے بارے میں بہت سن رکھا تھا۔ اس اداریے کو پڑھ کر وہ سارے گزشتہ اداریے پڑھنے کو بے اختیار جی مچلنے لگا مگر افسوس کہ وہ شمارے اب دستیاب نہیں۔ اداریے کے حصار سے آگے جناب محمد حمید شاہد صاحب کا جاوید انور مرحوم کی نظم ‘ہزارے کا مہمان کیا بولتا’ پر زبردست تنقیدی مضمون ‘اگر اپنے بیٹے کو اُس نے اسامہ کہا’ تھا، جس کے ہر پیراگراف پر واہ نکلتی رہی اور تنقید کا لطف دوبالا ہوتا گیا۔ اس مضمون سے معاصر اردو نظم کے کئی عقدے بھی وا ہوئے۔

مشاہیرِ ادب سے مکالمہ تسطیر کا مستقل حصہ ہے۔ اس بار ڈاکٹر سعادت سعید اور قاضی افضال حسین جیسے فاضل لوگوں کی مختصر مگر زریں تحقیقی گفتگو بالخصوص ادب کے ریسرچرز کے لئے اہم ہے۔ اس گفتگو کو گھر بیٹھے قاری تک پہنچانے کے لیے پروفیسر نعیم الرحمنٰ اور جناب عمر فرحت داد کے مستحق ہیں۔

حصہِ افسانہ تسطیر4 کے میرے پسندیدہ حصوں میں سے ایک ہے، جسے رشید امجد، گلزار، بشریٰ اعجاز، محمود احمد قاضی، محمد حامد سراج، شاہین کاظمی، امجد شیخ، محمود ظفر اقبال ہاشمی، محمد الیاس، احمد اقبال جیسے فائق افسانہ نگاروں سے لے کر جمیل حیات، معظمہ تنویر، فارحہ ارشد، حفیظ تبسم، ثمینہ اشرف، ایف جے فیضی، ارشد علی مرشد، اعجاز روشن، اختر آزاد، وقار احمد ملک اور سارا احمد جیسے نسبتاً نئے لکھاریوں نے اپنے حسنِ تحریر سے سجایا ہے۔ جوں جوں پڑھتی گئی، معاشرت کی تصویر کے خفی و حقیقی رُخ سامنے آتے رہے۔ ہمیشہ کی طرح محترم مدیر کے ‘خوابوں کا بستہ’ آخر پر تھا۔ جسے پڑھ کر میں مسکراتے، اچھلتے کودتے اپنے سکول کے زمانہ میں پہنچ گئی اور ںصیر احمد ناصر اپنے ناسٹلجک اور لائٹ موڈ کی تحریر میں بھی بڑا سبق دے گئے۔

سروں اور ہاتھوں کی فصلیں کاٹنے والے

قلم کی تراش

اور موقلم کی خراش سے نابلد ہوتے ہیں

مٹی راستہ بننے سے پہلے

رنگوں کا بلیدان مانگتی ہے

لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے

ریوڑ ہانکتے ہوئے

دانش اپنے آپ میں تنہا ہوتی ہے

تنہا اور بے امان ۔۔۔۔۔

مایئکروفکشن میں قاسم یعقوب، منیر احمد فردوس اور بشریٰ شیریں کی تحریریں دل کو لگیں۔ یہاں خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ اتنے بڑے جریدے میں نئے آنے والے کیسا شاندار حصہ ڈال رہے ہیں۔

علم و آگہی کی تشنہ زندگی میں میٹھے نظارے کسے نہیں بھاتے؟ اور جب لکھنے والا قدیم کو جدید کے رنگ میں نہلا دے تو پھر ‘جھیل اوچھالی کے تین رنگ’ اور حسیں لگنے لگتے ہیں۔ عرفان شہود کے سفر نامچے ان کی مخصوص جغرافیائی و سیاحتی ڈکشن کے ساتھ تسطیر-4 کی زینت میں خوبصورت اضافہ لگے۔ ‘لال مہڑہ کے قدیم ہندیرے اور پدماوتی’ اور ‘کوہِ مردار۔ موہنجوداڑو’ پڑھ کر اپنے وطن سے عجب احساسِ ہمدردی اور سرشاری بیدارہوا۔ دلفریب سفر نامچے اور نظمیں لکھنے والے اس نئے لکھاری کو اس قدر عزت بخشنا تسطیر’اور صاحبِ تسطیر کا ہی خاصہ ہے۔ میرے خیال میں سفر نامچہ کی اصطلاح بھی پہلی بار تسطیر نے ہی متعارف کرائی ہے۔

دل کھینچ ادب سے بھرے تسطیر-4 کی غزل پردازی ظفر اقبال سے شروع ہوئی، بس پھر بہار ہر کونپل پہ پورے جوبن سے پھیل گئی۔۔ ہر پلٹتے صفحے کے ساتھ داد و تحسین پر مجبور کرتی، تنوع کی ایسی کولاج سامنے آئی جس میں انوار فطرت، غافر شہزاد، سید کامی شاہ، یاسر اقبال جیسے کئی بھڑکتے رنگوں کے ساتھ میرے پسندیدہ شعراء جواد شیخ اور مبشر سعید بھی تھے۔ ‘غزل حصہ دوم’ میں ناصرہ زبیری، وقاص عزیز، احمد جہاں گیر، اسامہ امیر، مستحسن جامی، بلال اسود زیادہ بھائے۔ ہر حصہ میں پرانے اور نئے لکھاریوں کا ایسا مناسب توازن شاید ہی کسی اور ادبی جریدے میں ملے۔ صفِ اول کے نظم نگار مدیر تسطیر کی غزلوں نے حیران کیا۔ یوں تو ساری غزلیں منفرد اور اسلوب کی جدت لیے ہوئے تھیں لیکن ایک غزل ‘جاتے جاتے یہ کر گیا دریا’ (جِسے گلزار صاحب کی محبت سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دہراتی نظر آتی ہے) دل میں اتر گئی۔ اس کے علاوہ ان کا یہ شعر اسم بامسمیٰ لگا۔

جسم میرا جدید ہے لیکن

روح میری بڑی پُرانی ہے

(نصیر احمد ناصر)

نظم اور نصیر احمد ناصر جسم و روح کے ملاپ کی مانند ہیں۔ تسطیر کے تمام ادوار نے ادب کے آسمان کو نئے ستارے تراش کر دیے ہیں۔ قاری کی حیثیت سے راقمہ نے جب حساب لگانے کی کوشش کی تو حیرت انگیز طورپر پتا چلا کہ تسطیر نے جن اچھا لکھنے والوں کو بنا سفارش موقع دیا وہ کچھ ہی عرصہ میں ادب کے آسمان پر نمایاں ہو کر جگمگانے لگے۔۔ اب یہ مدیر کی ادارت کی نیک نیتی کا فیض ہے ہا ان کی رہنمائی اور شفقت، ‘تسطیر’ کا متعارف کردہ لکھاری اپنی پہچان کے سفر میں آگے ہی آگے بڑھتا نظر آیا۔ حصہِ نظم سے فطری لگاؤ ہونے کی وجہ سے اشتیاق سے پڑھنا شروع کیا۔ گلزار کی نظمیں کئی بار دہرا کر سکون آیا۔ عبدالرشید کی انتہائی فکر سے بھرپور ‘تازہ ترکاری کی خوشبو’، ‘مجھ میں بڑی نیند تھی’، وہیں کھڑا ہوں’ نے سوچ کو پرت در پرت کھولا۔۔ بس پھر ایک سہانی صبح، ٹھنڈے بادلوں تلے تبسم کاشمیری، پروین طاہر، بشریٰ اعجاز، تنویر قاضی، حسین عابد، شاہد اشرف، عارفہ شہزاد، عمار اقبال، ثمینہ تبسم، عالیہ مرزا، فہیم شناس کاطمی، قراۃ العین شعیب، صنوبر الطاف، امجد بابر، فرحان مشتاق، انجیل صحیفہ، فیصل ریحان، شمامہ افق، ڈاکٹر احمد سہیل، تمثیل حفضہ، ارسلان احمد، رفعت ناہید، قندیل بدر و دیگر نے وہ سماں باندھا کہ سبحان اللہ وردِ زباں رہا، اندر باہر کا موسم واقعی حسین ہوگیا۔ نیل احمد، اویس سجاد، نوشین فاطمہ، نازیہ غوث، کائنات، ثناء فاطمہ وغیرہ کی نظمیں پڑھ کر اطمینان ہوا کہ تسطیر جیسے جریدے کے ہوتے ہوئے آج بھی کاغذ و قلم کا رشتہ توڑا نہیں جا سکتا اور صرف فیس بک پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔۔ اس دور میں ‘تسطیر’ ایسا پلیٹ فارم نصیب ہونا عطاء سے کم نہیں۔ طالبانِ علم و عرفان ںظمیہ حصے سے بہت سی تنقیدی تھیوریز سمیت شاعری کی مختلف ہیئیتوں، ٹیکنیکس اور اسالیب سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

فکرو فلسفہ اور نقد و نظر سے کسی ادبی جریدے کی قیمت حقیقی معنوں میں انمول ہو جاتی ہے، ایک ہی نشست میں سالوں کی تحقیق کا نچوڑ مل جانا سیکھنے والوں کے لیے خزانے سے کم نہیں ۔ ‘تسطیر-4’ اقبال فہیم جوزی کے ‘وجود اور لایعنیت’ کے بہترین تحقیقی مضمون سے شروع ہو کر ڈاکٹر اقبال آفاقی، ڈاکٹر رفیق سندیلوی، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ظفر سپل، ڈاکٹر جمیل حیات کے اہم مقالہ جات اپنے اندر سمو ئے ہو ئے ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ڈاکٹر اقبال آفاقی کا ‘راجہ گدھ: عشقِ لاحاصل سے مقدس دیوانگی تک” زیادہ متضاد لگا، بانو قدسیہ کے شہرہ آفاق ناول کو اتنی کڑی نظروں سے کم دیکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ چودھری کا ‘شیخِ مزاح’، تحقیقی تنوع سے بھرپور اور پڑھنے والوں کے لیے تحفہ ہے۔ تالیف حیدر کا ‘غالب اور موجودہ عہد’ نہایت سادگی سے فکر کی دعوت دیتا ہے۔

ادب کی خوبصورتی، عصری رنگوں کو ساتھ رکھنے سے ہے۔ ‘تسطیر’ شروع سے ہی اردو کا اہم جریدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کی نگارشات کے معیاری ترجمہ کو دنیا بھر سے ‘ویل کم’ کرتا ہے۔ ہر بار نئی طرح کے مضامین، نظموں اور تحقیقی آرٹیکلز کے تراجم، فکر و نظر کو نئے جہات دکھلاتے ہیں لیکن ‘تسطیر-4’ کے اس حصے نے جیسے میرا دل جیت لیا۔ پہلا مضمون ہی بعنوان ‘ژاں ژینے سے مصاحبہ: تعارف و ترجمہ’ بقلم احمد سہیل، بے حد عمدہ نکلا۔ کئ بار پڑھا۔ عصری ادب سے لگاؤ رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ ایک بار ضرور مطالعہ کریں۔ کسی بھی لٹریری پِیس آف رائٹنگ کا ترجمہ کرنا اور اِسے متاثر کن انداز میں قابلِ قبول بنانا آسان نہیں۔ اس حصہ میں ‘تسطیر-4’ بلا شبہ شاباش کا حقدار ہے، جس میں ایرانی شاعر صابر ہاکا کی نظموں کا فرحان حنیف وارثی کی طرف سے اختتامی تڑکا ہے۔

دیگر و متفرق میں عظمیٰ طور، عینہ عارف راجہ، رابعہ بصری، جیاہ شاہ اپنی معاشرتی و انفرادی حساسیت سے لپٹی تحاریر کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ‘بچوں کے ادب’ میں، بچے، گلزار صاحب کی ‘چلتے چلتے’ اور ‘مادھو دوڑو’ جیسی رائمنگ مگر گہرے اخلاقی سبق دیتی نظموں سے دل لبھا سکتے ہیں۔

میں گگن شاہد صاحب اور امر شاہد صاحب کو ‘تسطیر-4’ کے حوالے سے بروقت انصرام اور ترسیل کی داد دیتی ہوں اور مدیر جناب نصیر احمد ناصر کی ان تھک محنت اور ادب کی ترویج کی کاوشوں پہ ان کی سلامتی کے لئےدعا گو ہوں جو کسی ستائش و صلے سے بے نیاز، اتنے کٹھن دور میں، مسکراتے ہوئے اتنے ضخیم جریدے کا بیڑا اٹھا ئے ہو ئے ہیں۔ شکریہ جیسے الفاظ ایسے انمول سائبان کے لیے کافی نہیں جنہوں نے مجھ ایسے گمنام ڈائری رائٹرز کو بھی ادبی دنیا میں کھلے دل سے خوش آمدید کہا ہے۔ بلاشبہ تسطیر محض ایک جریدہ نہیں ایک ادبی درس گاہ ہے۔ ادب سے عشق کا استعارہ ہے۔ اپنی مثال آپ ہے، کوئی اور جریدہ جس کا ثانی نہیں۔ تسطیر ہی میں رابعہ بصری کی غزل کے اک شعر پر اختتام کرتی ہوں جو تسطیر کے حوالے سے میرے جذبات کا عکاس ہے۔

صرف کاغذ پہ اتارا نہیں جاتا مصرع

دل پہ اترے جو وہی نغمہء جاں بنتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).