سنگت پوہ زانت


اچھے لوگوں کی یادگیری بھی کیسی اچھی ہوتی ہے اور مایوس و پژمردہ انسانوں کو بھی کیسے تازہ دم کر دیتی ہے، اس کا مظاہرہ ہم نے کل کے سنگت پوہ و زانت میں دیکھا۔ جہاں ایک “مرحوم” کا تذکرہ زندہ انسانوں کی محفل کو زعفرانِ زار بناتا رہا۔

2003 کے بعد سنگت میں آنے والے میرے معاصرین ڈاکٹر امیرالدین کو محض اپنے سینئرز اور ان کے قریبی احباب کے تذکروں سے ہی جانتے ہیں۔ کل کی مجلس مگر ان کا مکمل تعارف تھی گویا۔

سرور آغا نے اپنے دھیمے لہجے میں ان کی یاد کچھ ایسے تازہ کی کہ ہم نے نمی ان کی تحریر میں بھی محسوس کی اور لہجے میں بھی۔ جیئند خان نے ان سے وابستہ کچھ نجی یادوں کے در کھولے تو اس خوشگوار آدمی کی یاد کے خوشگوار جھونکے حاضرین کو معطر کرتے رہے۔ مگر آخر میں وہ کچھ ایسے جذباتی ہوئے کہ آخری فقرہ پیپر دیکھے بغیر کچھ یوں ادا کر گئے کہ: “اور ڈاکٹر شاہ محمد ہمارے بیچ نہ رہے۔” اس پہ شاہ محمد بھی مسکائے اور حاضرین بھی مسکرا دیے، امیرالدین ہوتے تو زبردست قہقہہ گونجتا محفل میں۔

پھر جو آئے اَسی سالہ شیام کمار اپنے لگ بھگ اَسی صفحات کے پلندے کے ساتھ تو محفل کو ایک اور ہی رنگ ملا۔ شیام صاحب نے ڈاکٹر امیرالدین کی یادوں کا جو خزانہ کھولا تو اس میں حافظ سے لے کر شیلے اور شیکسپئر کے، کالی داس اور سامی کے وہ برمحل حوالے لائے کہ ہم جھوم جھوم اٹھے۔ لگ بھگ نصف گھنٹہ جب تک وہ بولتے رہے ہم نے محسوس کیا کہ امیرالدین یہیں کہیں آس پاس منڈلا رہے ہیں۔ ان یادوں کے بیچ کتنی بار واہ ہوئی، آہ نکلی، مسکان ابھری، قہقہے لگے۔ امیرالدین خود بھی ہوتے تو ہنس ہنس کر ٹھنڈے پر جاتے اور زور زور سے کہتے: او بس کر شیام۔

شاہ محمد مری صاحب نے اس بار غیرروایتی و غیرمتوقع طور پر دوست کی نجی زندگی پر گفتگو کی۔ ان کے اہلِ خانہ سے تعارف کروایا۔ ان کی دلچسپیاں بتائیں۔ ایک اچھے باپ اور ایک “اوچھے” شوہر کا خندہ لب تذکرہ کیا۔ ہم جیسے اوچھے شوہر اس سے محظوظ ہوئے۔ خصوصاً ان کی ڈرائیونگ-گیری اور معاشقوں کے تذکرے پہ مجھے ان سے بہت اپنائیت محسوس ہوئی۔

باقی، ڈاکٹر امیرالدین کی بیٹی کا پیغام ظاہر ہے کہ بیٹی ہونے کی نسبت سے دردمندانہ ہی تھا سو ہم نے نم آلود دلوں سے ہی سنا۔ جناب اکبر ساسولی اپنے استاد کو پرمزاح خراج پیش کرنے کے چکر میں کئی مقامات پر لڑکھڑائے اور کہیں تو “گرتے گرتے” بچے۔ اچھی فقرہ بازی، فطری افتادِ طبع کی مرہون منت ہو سکتی ہے مگر اچھا مزاح لکھنے کو جو ریاضت چاہیے، اس کے لیے کتاب کے ساتھ ساتھ امیرالدین جیسوں کی صحبت بھی چاہیے بھئی۔

امیرالدینی مزاج کے اثرات محفل کے آخری حصے تک جاری رہے۔ جب قراردادیں پیش کرنے کی ذمہ داری نوجوان کامریڈ بیورغ بزدار کو دی گئی۔ یہ نوجوان ابھی تیسری قرارداد پہ پہنچا تھا کہ قریبی مسجد کے مؤذن نے اس کا وہ حال کیا کہ مجھے حسبِ حال شعر یاد آیا:

خدا پوچھے مؤذن سے کہ ٹوکا عین عشرت میں

چھری مجھ پہ چلا دی نعرہ اللہ اکبر سے

مسجد کا لاؤڈ اسپیکر ہماری سماعتوں کے اس قدر نزدیک تھا کہ یہ کامریڈ چلا چلا کر بھی گفتگو جاری نہیں رکھ سکتا۔ یوں مسکرا کر وہ بھی چپ ہو رہا، اور سامعین بھی مسکرا مسکرا کر اس کامریڈ کی بے بسی کا آنکھوں ہی آنکھوں میں لطف لیتے رہے۔

مجھے لگا کہ امیرالدین ہوتے تو مؤذن کے چپ ہوتے ہی “لاحول ولا قوۃ” پڑھ کر محفل کو برخاست کر دیتے۔۔۔۔

اور اس محفل کا اس سے اچھا اختتام کیا ہونا تھا بھلا!!۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).