دوزخ کی آگ میں بنتے الیکٹ ایبل ہیرے اور عصمت شاہجہاں، جبران ناصر کی ناقدری


 ڈھونڈنے کو تو “نار حاویہ” میں بھی مثبت پہلو ڈھونڈا جا سکتا ہے کہ اتنی حدت اور دباؤ سے کافروں اور منافقوں کے بدن سے بننے والا کاربن ہیروں میں بدل جائے گا۔ لاکھ کہیں کہ دوزخ کی طبیعیات زمینی نہیں ہوگی مگر عمل احتراق کو تو اسی طرح لیا جائے گا جیسے سمجھ آتا ہے۔ اگر وہاں فرشتے ہیں، گرز ہیں ،آگ ہے، خون اور پیپ پے، زقوم ہے اس کے برعکس جنت میں طیور ، فواکہات، دودھ اور عسل ہے، بڑی بڑی آنکھوں والی حسینائیں ہیں تو دنیا کی طرح کاربن سے ہپرے کیوں نہیں بن سکتے مگر وہ ہیرے کس کام کے جو نار حاویہ میں مدفون اور انتہائی گرم ہوں گے۔ پھر بن ترشے ۔ ہیرے کی قدر تو تراش خراش کے بعد ہی بڑھتی ہے۔ البتہ قدرت قدرت ہے ان ہیروں سے بار بار چنگھاڑتے تڑپتے کفار اور منافقین تخلیق کر دے گی۔

 جو کچھ پاکستان میں انتخابات سے پہلے ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دہشت گردی پھر سے شروع ہے، ریاستی دہشت گردی کا بھی مظاہرہ کیا گیا، سیاسی ورکرز کو روکا گیا ، پیٹا گیا، پابند سلاسل کیا گیا، انتخابات سے پہلے انتخابات کے نتائج “تخلیق” کیے جانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں یعنی ماسوائے اس کے کہ انتخابات ہونے سے متعلق حکومتی زعماء کا موقف تاحال مثبت ہے اور کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی انتخابات کا التوا نہیں چاہتی، باقی کوئی معاملہ مثبت نہیں ہے مگر اس منفی صورت حال میں بھی بہتری کی صورت مضمر ہو سکتی ہے۔

 معروف شخصیت نصرت جاوید کی تخلیق کردہ مرکب اصطلاح ” حد سے بڑھی ہوئی نفرت اور عقیدت ” جہاں جتنی منفی ہے وہاں اتنی ہی مثبت بھی۔ سونے پر سہاگہ ہمارے بوکھلائے ہوئے الیکٹرونک میڈیا کے صابر شاکروں اور چوہدری غلام حسینوں نے مل دیا ہے۔ ٹیلیویژن اب تقریباً ہر گھر میں ہے اور ٹاک شو دیکھنا لوگوں کی مقبول تفریح۔ نواز شریف اور زرداری کے عقیدت مندوں کو ان کی کوئی مالی بدعنوانی دکھائی نہیں دیتی چاہے ان کے مخالف جتنا چاہیں زور لگا لیں۔ اسی طرح عمران خان کے عقیدت مندوں کو عمران خان کی کہی کوئی بات اور کیا گیا کوئی عمل چاہے وہ کتنا ہے ناقابل قبول کیوں نہ ہو، احسن ترین جان پڑتا ہے۔

 وہ جنہیں “قابل چناؤ” یعنی الیکٹیبل کہا جاتا ہے ان کی چک پھیریاں بھی سبھوں کے سامنے ہیں۔ اگر کوئی یکسر مادھو نہ ہو تو وہ چاہے باہر ان سے کتنا ہی مرعوب کیوں نہ ہو لیکن پردے کے پیچھے پرچی پر لگانے کے لیے جب اس کے ہاتھ میں مہر ہوگی تو وہ بلے کی بجائے بلب پر، جیپ کی بجائے شیر پر، کتاب کی بجائے بالٹی پر یعنی جس کے بارے میں اس نے طے کیا ہوا ہوگا ووٹ دینا چاہیے، اسی کے نشان پر ٹھک کر کے مہر لگا دے گا۔

 تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے فرمایا ہے کہ 25 جولائی کو ہم ( شکر ہے پہلی بار “میں” نہیں کہا ) ذوالفقار علی بھٹو جیسا انقلاب لے کے آئیں گے جیسے انقلاب کو کہیں سے کھینچ کے لانا ہو، خیر انہوں نے زبانوں کی درسگاہ نمل تو بنائی ہے مگر زبانوں کی گرامر پر مہارت کا ان کو دعوٰی نہیں ہے، موصوف سادہ آدمی ہیں جیسے اپنی ایک بہت پہلے کی تقریر میں بتایا تھا کہ جب وہ عوام میں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں کم پڑتے بارہ کروڑ لینے کی خاطر کسی کے کہنے پر عوام میں نکلے تھے تو انہوں نے “پیسے جمع کرنا” سکولوں سے شروع کیا تھا، فرمایا کہ ” بچے تو میں نے ماں باپ پر ریلیز کر دیے، والدین پر چھوڑ دیے”۔ آخر شکاری ہیں بچوں کو جس طرح شکار پر کتے چھوڑے جانتے ہیں والدین پر چھوڑ دیا، نواز شریف کے استقبال کو جانے والوں کو گدھا قرار دے دیا، ان کے لیے اندھی عقیدت رکھنے والے کہتے ہیں کہ بھئی وہ کہنا ” بیوقوف” چاہتے تھے مگر یونہی گدھے کہہ ڈالا یعنی ان کو بیوقوف کہنا نہیں آتا اس لیے گدھا کہہ دیتے ہیں ، بچوں کو والدین کے پیچھے لگانا کہنا نہیں آتا بلکہ ماں باپ پر چھوڑنا کہتے ہیں تو انہوں نے ذوالفقار بھٹو جیسا انقلاب (کہنا چاہیے تھا ذوالفقار علی بھٹو کے لائے انقلاب جیسا انقلاب، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل انسان کی سی ہی تھے اور انقلاب کی شکل انسانی نہیں ہوا کرتی) لانے کی بات بھی کچھ اور کہنے کو کر دی ہے کیونکہ ان انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے “قابل چناؤ” یعنی الیکٹیبلز کو ٹکٹ نہیں دیے تھے اور دوسری بار جب ایسوں کو ٹکٹ دیے تو جو حشر ان کا ہوا اس سے بھی عمران خان آگاہ ہیں۔

 کیا معلوم اللہ کو ان کی کوئی ادا بھا گئی ہو اور ان کی زبان مبارک ہو جائے تو لوگ جو میڈیا سنتے ہیں الیکٹیبلز کو اسی طرح رد کر دیں جس طرح مشرقی پاکستان کی موجودگی میں ہوئے آخری الیکشن مین پاکستان کے دونوں حصوں کے لوگوں نے کیا تھا مگر آج موجود دوسری دو بڑی پارٹیوں میں کونسے بھلڑے یا انقلابی ہیں وہ بھی الیکٹیبلز ہیں یا انہیں کے بھائی بند۔

 اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے حالات چاہے دوزخ کے حالات کے سے کیوں نہ ہو گئے ہوں مگر دوزخ کی سب سے نچلی تہہ حاویہ کے سے تو ہرگز نہیں ہیں جہاں شدید حدت اور دباؤ سے کاربن ہیرے بن جائے۔ تو اوپر کی سطح پر قائم پاکستان میں جلتے لوگوں کے ذہن ہی بدل جائیں اور وہ جبران ناصر، عصمت شاہجہاں اور ان جیسے دوسروں کو منتخب کر لیں جو فی الواقعی ملک میں تبدیلی لانے کے امین ہوں۔ مگر انہوں نے چننا انہیں کو ہے جن کو چنتے آئے ہیں۔ نئی حکومت آئے گی اور دو سال کے بعد لوگ پھر کلبلانے لگیں گے بلکہ شاید اس سے بھی پہلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).