انتخابات کی ساکھ پر سوال؟


مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف یہ نعرہ مستانہ لگا کر کہ سویلین بالادستی کی جنگ میں جیل ہو یا پھانسی ان کے قدم نہیں رکیں گے،  وطن واپس آ کر سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری دے چکے ہیں۔ ان کی آمد کے روز جمعہ کو لاہور سمیت پنجاب بھر میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ایسا کریک ڈاؤن کیا گیا جس کی مثال آمریت کے دور میں بھی نہیں ملتی، موٹرویز، جی ٹی روڈ اور دوسری شاہراہوں کو کنٹینروں سے بند کر دیا گیا اور لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ اسی روز مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی کارنرمیٹنگ میں خود کش دھماکہ ہو گیا جس میں امیدوار صوبائی اسمبلی نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 129 افراد شہید ہو گئے اور تقریباً اتنے ہی لوگ زخمی ہو گئے۔ ایسے واقعات کی روشنی میں موجودہ الیکشن کو صاف،  شفاف اور منصفانہ قرار دینا تجاہل عارفانہ کے مترادف ہو گا۔ سیاسی انجینئرنگ کے بعد مسلم لیگ ن کے حامی کارکنوں کی ملک کے طول وارض سے گرفتاریوں پر شہباز شریف بھی چلا اٹھے تھے، انھوں نے پولیس اور انتظامیہ کو واضح طور پر کہا کہ ظلم وزیادتی روک دیں وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، جب ہماری حکومت آئے گی تو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئیں گے، قبل ازوقت دھاندلی کے تحت مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، جتنی مرضی دھاندلی کر لیں ہم 25 جولائی کا انتخاب جیت رہے ہیں۔ وطن عزیز میں پکڑ دھکڑ اور مرو مارو جیسی کھلم کھلا انتقامی کارروائیاں گزشتہ دہائی میں ماضی کا قصہ بن چکی تھیں۔

2013ء کے انتخابات جنہیں ہارنے والے آر اوز کا الیکشن کہتے تھے پرامن ماحول میں ہوئے لیکن اب تو نوازشریف کی گرفتاری سے قبل ہی چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال نے وارننگ دے دی تھی کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز مجرم ہیں انھیں گرفتار کیا جائیگا اور ان کی گرفتاری میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا اور بالکل ایسا ہی ہوا۔  شہباز شریف کی دھواں دھار اور جذباتی تقاریرکی روشنی میں یہ تاثر تھا کہ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک طرف وہ جو میاں نوازشریف کے بیانیے سے اتفاق کرتے ہوئے جدوجہد اور مزاحمت کے قائل ہیں دوسری طرف شہبازشریف جو ابھی چند روز پہلے تک عمرانی معاہدے کی بات کر رہے تھے، مسلم لیگ (ن) میں ان عناصر کی نمائندگی کرتے تھے جو فوج اور عدلیہ کے ساتھ بگاڑنے کی نوازشریف کی حکمت عملی کے سخت خلاف تھے۔  لیکن آفرین ہے ان کار پردازوں پر جنہوں نے مسلم لیگ ن کے سخت گیر عقابوں اور صلح جوؤں کو اکٹھا کر دیا ہے۔

نوازشریف کے وطن واپسی کے فیصلے نے ایوان اقتدار میں بیٹھے ان لوگوں کو حیران کر دیا جن کا خیال تھا کہ نوازشریف اور مریم نواز جیل کی ہوا کھانے کے لیے کبھی واپس نہیں آئیں گے، لیکن انھوں نے واپس آ کر اپنی اور پارٹی کی سیاست کو بچا لیا۔ چند روز پہلے میں این اے 129سے امیدوار سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا انٹرویو کرنے کے لیے مغل پورہ میں ان کے حلقے میں گیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ نوازشریف کی واپسی کے فیصلے سے کارکنوں کے حوصلے بہت بلند ہو گئے ہیں۔ نہ جانے نوازشریف کے خلاف نیب عدالت کا فیصلہ جو بظاہر جلدبازی میں لکھا گیا ہے سنانے میں عجلت کیوں برتی گئی۔ فیصلہ انتخابات کے بعد تک محفوظ کیا جا سکتا تھا، وقت ہی بتائے گا کہ عجلت میں فیصلہ سنانے کے کیا اثرات ہوئے۔ اگرچہ سیاسی حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے اس سے میاں صاحب کو سیاسی فائدہ ہو گا۔

میاں صاحب کو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے جرم میں سزا ہوئی ہے لیکن عمران خان کا یہ کہنا کہ’’چوراعظم ‘‘ا ٓرہا ہے اور کہتا ہے کہ میرا استقبال کرو،  وطن عزیز کی سیاست سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نابلدی کے مترادف ہے۔ اگر تمام پاپڑ بیلنے کے باوجود لوگ ’’چور‘‘ کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو عمران خان یا کوئی اور کیا کر سکتا ہے یا خان صاحب تمام حربے استعمال کرنے اور سب معاملات الیکشن سے پہلے ہی اپنے حق میں کرانے کے باوجود مطلوبہ نشستیں حاصل نہیں کر پاتے تو کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے گا کہ پوری پاکستانی قوم کرپٹ ہو گئی ہے۔  پیپلزپارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔  سمٹ بینک کے سی ای او حسین لوائی جو آصف زرداری کے دست راست بتائے جاتے ہیں پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہیں۔  منی لانڈرنگ کا یہ کیس 2015ء سے بند پڑا تھا، لیکن الیکشن سے چند ہفتے پہلے نہ جانے کیوں باسی کڑی میں ابال آیا اور کیس دوبارہ کھول دیا گیا اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی خبریں منظر عام پر آنے لگیں۔  اگرچہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کے کوئی احکامات جاری نہیں کیے لیکن اکثر سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آ صف زرداری کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہنی مون ختم ہو گیا ہے۔

آصف زرداری کو مجبورا ًاب یہ کہنا پڑا ہے کہ پیپلزپارٹی غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ جب جنرل راحیل شریف فوج کے سربراہ تھے آصف زرداری فوجی قیادت سے نالاں تھے۔  انھوں نے ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ سیاستدان تو سیاست کرتے رہتے ہیں اور آپ تو تین سال کے لیے آتے ہیں۔ اس بیان کے بعد نوازشریف نے بطور وزیراعظم ان سے کٹی کر دی اور ان کے ساتھ کھانے کا دعوت نامہ واپس لے لیا۔ اس کے فوری بعد آصف زرداری طویل عرصے کے لیے لندن چلے گئے۔ جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد وہ وطن لوٹ آئے۔ اس سال کے شروع میں بلوچستان میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ اور سینیٹ میں میاں نوازشریف کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کی کامیاب کوششوں کا کریڈٹ بھی لیا۔  بعض باخبر حلقوں کے مطابق تحریک انصاف سے مایوس ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ (ن) سے بیک ڈور رابطے بحال ہو گئے تھے اور ان حلقوں کے مطابق انھیں اسی کی سزا دی جا رہی ہے۔  یہ تو تاریخ ہی بتائے گی کہ سیاسی انجینئروں نے انجینئرنگ کے ذریعے کیا کھویا اور کیا پایا ؟۔  ابھی تو یہی کہا جا سکتا ہے اناڑیوں نے سزا یافتہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کو واپس آنے پر مجبور کر دیا جس سے ان کی پارٹی کا مورال بلند ہوا، نیز پارٹی کے اندر دھڑے بندی ختم ہو گئی اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں رابطے بحال ہونے سے الیکشن کے بعد ممکنہ اتحاد کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود امکان غالب ہے کہ عمران خان اس ماحول میں وزیراعظم بن جائیں گے لیکن اس دوڑ میں ریاست کے قریبا ً تمام اداروں کی ساکھ پر سوال اٹھتے رہیں گے اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).