کھیل سے کھلواڑ مت کیجیے


صرف اس تکرار سے انتخابات شفاف و غیر جانبدار نہیں ہوتے کہ ہم نے انتخابی عمل کو پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے دن پاک صاف رکھنے کے لیے فلاں فلاں اقدامات کرلیے ہیں۔ انتخابی عمل کے صاف ستھرے ہونے کی گواہی ووٹر کی طرف سے آنی چاہیے ورنہ آپ جو بھی حجت و جواز آسمان سے توڑ لائیں سوالیہ نشان مٹائے نہیں مٹتا۔ جن جن ممالک میں آج جمہوری عمل مستحکم ہے اکثر وہاں جانے والی حکومت ہی انتخابات کراتی ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان میں مارچ انیس سو ستتر میں ہونے والے متنازع انتخابی نتائج کے خلاف چلنے والی پرتشدد تحریک کے نتیجے میں بھی حزبِ اختلاف قومی اتحاد اور حکمران پیپلز پارٹی کے مابین نئے انتخابات کے لیے جو سمجھوتہ ہوا وہ بھی بھٹو حکومت کی نگرانی میں تازہ انتخابات پر رضامندی کی شکل میں ہی طے پایا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ عبوری عرصے میں کچھ ایسے وزرا بھی کابینہ میں شامل ہوتے جنھیں پی این اے کا اعتماد حاصل ہو۔ مگر ضیا الحق نے اس سیاسی سمجھوتے پر حتمی دستخط سے چوبیس گھنٹے پہلے بازی الٹ دی۔

پاکستان پچھلے ستر برس میں ایسی ایسی انتخابی بے یقینیوں، جادوئی نتائج اور نادیدہ مداخلتوں سے گذرا ہے کہ کسی کو کسی پر اعتبار نہ رہا۔ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو کو زائد از ضرورت اکثریت کے حصول سے روکنے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کی راتوں رات تشکیل نے اس بے اعتباری کو صنعتی شکل دے دی۔ شائد اسی لیے نگراں حکومتوں کا فارمولا نافذ ہوا تاکہ کسی کو کسی سے پوشیدہ و اعلانیہ گڑبڑی کی شکایت نہ ہو۔ پہلی نگراں حکومت اگست انیس سو نوے میں بے نظیر حکومت کی اکیس ماہ بعد برطرفی کے بعد غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں بنی۔ مگر صاف و شفاف انتخابی عمل کو عملی جامہ پہنانے کی دعویدار حکومت بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والے مہران گیٹ اسکینڈل کو نہ روک سکی۔ اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین قریشی، ملک معراج خالد نگراں وزیرِ اعظم بنے لیکن نوے کی دہائی کو آج بھی شفاف انتخابی عمل سے خالی عشرے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

دو ہزار دو کے انتخابات جس طرح ہوئے اس میں ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کی ضرورت ویسے بھی پیدا ہونے سے پہلے فوت ہو گئی۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات محمد میاں سومرو اور دو ہزار تیرہ کے انتخابات میر ہزار خاں کھوسو کی نگراں حکومتوں کے تحت ہوئے۔ لیکن نوے کی دہائی کی انتخابی طوائف الملوکی اور دو ہزار دو کے انتخابی عمل کی شفافیت سے اگر دو ہزار آٹھ اور تیرہ کا موازنہ کیا جائے تو دو ہزار آٹھ کے انتخابی نتائج کو بیشتر قومی سیاسی جماعتوں نے بہت زیادہ چون و چرا کے بغیر قبول کر لیا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابی نتائج پر تحریکِ انصاف کے سوا کسی اہم سیاسی جماعت نے شور نہیں مچایا۔ دھرنوں اور الزامات کی تکراری فضا میں ایک چھان بین کمیشن کے قیام کے بعد بھی چند متنازعہ سیٹوں پر دوبارہ پولنگ کے نتائج سے بھی تحریکِ انصاف کے اس بیانئے کو تقویت نہیں ملی کہ دو ہزار تیرہ میں وسیع دھاندلی ہوئی یا پنجاب میں پینتیس پنکچر لگائے گئے۔

آج پھر ملک میں شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک نگراں حکومت موجود ہے۔ انتخابی اصلاحات کے سبب الیکشن کمیشن بھی بظاہر ماضی کے مقابلے میں زیادہ خود مختار ہے۔ مگر دو ہزار آٹھ اور تیرہ کے برعکس تحریکِ انصاف، مسلم لیگ قاف، بلوچستان میں ابھرنے والی نومولود بلوچستان عوامی پارٹی، شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ، تحریکِ لبیک اور جیپ گروپ کو چھوڑ کر دیگر قومی و علاقائی سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی ممکنہ شفافیت پر تحفظات ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی تو کھل کے خدشات کا اظہار کر رہی ہیں لیکن عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی بھی پچیس جولائی کے انتخابی عمل کی غیر جانبداری کے بارے میں تحفظات ظاہر کر رہی ہیں۔ ممکن ہے یہ تحفظات قبل از مرگ واویلا ثابت ہوں مگر اس کا بھی مساوی امکان ہے کہ ان تحفظات کے پیچھے ٹھوس شواہد ہوں۔ جو بھی ہو بلی چھبیس جولائی کو تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی۔

یہ بات اہم نہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں کسی جماعت یا اتحاد کو دو تہائی یا سادہ اکثریت ملتی ہے۔ مخلوط حکومت بنتی ہے کہ یک جماعتی، صوبوں میں حکومت سازی کی کیا شکل ابھرتی ہے۔ یہ سب جمہوری کھیل کا حصہ ہے۔ مگر جو شے جمہوریت کا نظامِ ہضم قبول نہیں کر سکتا، وہ ایک نگراں حکومت اور پہلے کے مقابلے میں بااختیار الیکشن کمیشن ہوتے ہوئے بھی انتخابی عمل میں مرئی و غیر مرئی مداخلت کے ذریعے نتائج کو ایک خاص سمت دینے کی کوششوں کا تاثر ہے۔ یہ تاثر بے بنیاد بھی ہو سکتا ہے اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بھی ابھر سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان ووٹر کی امیدوں اور اعتماد کا ہی ہوتا ہے۔ ہر ووٹر ہر بار اس امید پر پولنگ کی طویل قطار میں کھڑا ہوتا ہے کہ انتخابی عمل شفاف ہوگا اور اس کے نتیجے میں جو بھی حکومت سازی ہوگی، وہ ملک کو آج کے مقابلے میں زیادہ بہتر کل دے سکے گی۔ انتخابی مشق ریاست کو مزید پیچھے نہیں لے جائے  گی بلکہ کچھ آگے ہی بڑھائے گی۔ اقتصادی، سیاسی، داخلی و خارجی بے یقینی اگر کم نہ بھی ہو سکی تو مزید گہری نہیں ہو گی۔

تاہم ووٹر کو بہتر فیصلے تک پہنچانے میں فی زمانہ الیکٹرونک میڈیا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا پر اگر ایک خاص قسم کا ڈسپلن نافذ کر کے ووٹر کے فیصلے کو کنفیوز کرنے یا ایک خاص سمت دینے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں یہ تو میں نہیں جانتا کہ کس قوت یا پارٹی کا فوری فائدہ ہو سکتا ہے۔ البتہ ایک کنفیوز یا بے یقینی کا شکار ووٹر تمام تر اخلاص کے باوجود غلط انتخابی فیصلوں کی جانب ضرور دھکیلا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک وفاقی ریاست میں جمہوری عمل کا مزید عدم استحکام سے دوچار ہونا لازمی ہے۔ چنانچہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہی دراصل حقیقی حب الوطنی ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی اقدام طویل المیعاد ملک دشمنی کے برابر ہے۔ پاکستان کا شمار ویسے بھی ایک عرصے سے ان ممالک میں ہو رہا ہے جن پر حکومت کرنا شیر پر سواری گانٹھنے جیسا ہے۔ کوئی بھی بنیادی شعبہ ایسا نہیں جو اکثریت کے لیے قابلِ رشک یا باعثِ تقویت ہو۔ کوئی ایسا اندرونی و بیرونی چیلنج ایسا نہیں جو اس ملک کو لاحق نہ ہو۔

اس دلدل سے وہی سنگل پارٹی یا مخلوط حکومت نکال سکتی ہے جس کے بارے میں یہ وسیع تاثر نہ پھیلے کہ اسے منتخب نہیں کیا جا رہا بلکہ انتخاب کے نام پر تھوپا جا رہا ہے۔ ریاست کو آگے بڑھانے کے لیے انتخابی عمل سمیت کلیدی امور میں شفافیت برتنے کا صرف نعرہ یا دعویٰ کافی نہیں، یہ شفافیت ہر ایک کو بنا کسی وعظ کے دکھائی بھی دینی چاہیے۔ بصورتِ دیگر تریاق کو زہر بنتے دیر نہیں لگتی۔ ہمیں یہ بات جاننے کے لیے کوئی بیرونی حوالہ لینے کی ضرورت نہیں۔ ہماری اپنی تاریخ ایسے بہت سے سنگین حوالوں میں خود کفیل ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انتخابی ٹورنامنٹ کی نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن چار سو میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے بارے میں اب بھی پیشگی اطمینان کر سکے کہ کسی ایتھلیٹ نے ازخود یا کوچ و مینیجر یا کسی ساتھی کے کہنے پر اسٹیمنا بڑھانے والی ممنوعہ یا مسکن ادویات کا سہارا تو نہیں لیا۔ کیا وہ انتخابی دوڑ سے پہلے یا فوراً بعد رینڈم ڈوپ ٹیسٹ میں کلئیر ہو پائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).