مدرز ڈے پر بهی تم نہ آئے


لینہ حاشر

\"leenaمیرے کان اس دستک کو سننے کے لیے بے قرار تهے جو تم کئی سالوں سے مدر ڈے کی رات میرے دروازے پر دیتے تهے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی بڑی گرم جوشی سے مجھ سے لپٹ جاتے اور ہیپی مدرز ڈے کہتے ہوئے میرے ہاتھوں اور ماتهے کو چومتے نہ تھکتے تهے۔ کتنی دیر اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر مجھ سے چپکے بیٹھے رہتے تهے۔ اپنی سال بهر کی پاکٹ منی میں سے بچا بچا کر میرے لیے تحفہ بهی لاتے تهے۔ جس کو دیکھتے ہی میں تم سے خفا ہوتی اور کہتی کہ اس کی کیا ضرورت تهی۔ یہ کہتے ہوئے میں تمہارے ماتھے کو چومتی، تمہارے سر کو سہلاتی اور مسکرا کر تمہاری طرف دیکھ کر کہتی تم ہو نا میری زندگی کا خوبصورت ترین اور قیمتی تحفہ اور تمہیں لمبی زندگی کی دعائیں دیتی۔ مگر تم ایسے روٹهے کہ کل تم مدرز ڈے پر بهی نہیں آئے۔ حالانکہ کل اتوار تها، باچا خان یونیورسٹی میں بهی چھٹی ہوتی ہے اس کے باوجود بهی تم کل گهر نہیں آئے۔ جانتی ہوں اب تم کبھی بهی گهر نہیں آو گے۔ کیونکہ دہشت گردوں نے تم کو زبردستی دنیا چھوڑنے کا حکم صادر کر دیا تها۔

تمہیں اس دنیا سے گئے ہوئے کئی ماه گزر چکے ہیں پر اب بهی میرا دل کبهی کبهی اس خوفناک سانحے کو ماننے سےانکاری ہو جاتاہے۔

ہر دستک پر ،ہر آہٹ پر، ہر چاپ پر نظریں تمہیں تلاش کرتی ہیں۔ مگر تم کو کہیں نہیں پاتی۔

۔

\"bachaمدرز ڈے پر تم تو نہ آئے مگر تمہارے دوست ہمارے گهر آئے تهے گھنٹوں بیٹھے بهی رہے لیکن ان کو اور مجهے یہ سمجھ نہیں آرہی تهی کہ کون کس کو دلاسہ دے، کون کس کو تسلی دے۔ ہم آنسو کی زبان میں گفتگو کرتے رہے اور اپنی اپنی درد کی داستاں بیان کرتے رہے۔ ان کی آنکھوں کی لالی ان کے زخمی دل کی گواہی دے رہی تهی۔ ان کی نظریں اب بهی کمرہ جماعت میں خالی کرسی پر بیٹھنے والے کو تلاش کرتی ہیں۔ ہاسٹل کے میس میں تمہاری خالی پلیٹ ان کی بھوک اڑا دینے کا سبب بنتی ہے۔ کھیل کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے کی کمی کا احساس ان کو میدان میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ تمہارے دوست کل بهی تمہارے ہی کمرے میں بیٹھے تهے۔ میں نےتمہارے کمرے کی ایک ایک چیز بڑے قرینے سے سجا کر رکھی ہے۔ کمرے کی ہر چیز تمہیں چیخ چیخ کر پکارتی ہے۔

تمہارے کپڑوں اور کتابوں سے بهرا بیگ جو تمہارے دوستوں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے میرے سپرد کیا تها وه بهی تمہارے کمرے کے ایک کونے میں رکھا ہے، تمہارے جوتے پالش کروا کر الماری میں رکھے ہیں۔ کپڑوں کی الماری تمہاری بے ترتیبی کی کب سے منتظر ہے۔ تمہارا موبائل جس کی بے وقت کی گهنٹیوں سے میں اکثر پریشان رہتی تهی اب ایک عرصہ سے خاموش تمہارے بستر کے ساتھ والی میز پر رکھا ہے۔ کمرے کی دیواروں پر تمہارے ہاتھ کے بنائے گئے پورٹریٹ بهی آویزاں ہیں۔ تمہاری من پسند گھڑی بهی دیوار پر لگی ہے۔ تمہارے علاوہ ہر چیز جوں کی توں اپنی جگہ برقرار ہے۔ ان تمام تر چیزوں کے باوجود ایک خوفناک سی خاموشی تمہارے کمرے میں راج کرتی ہے۔

تمہارے کمرے کی خاموشی میں گھڑی کی ٹک ٹک میرے اندر طوفان برپا کر دیتی ہے اس خاموشی کے طوفان کے آتے ہی کمرے میں سسکیوں اور آہوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

گهر میں ایک ہو کا عالم رہتا ہے۔ خاموشی کا سکوت ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اگرچہ گهر میں لوگوں کا تانتا بندھا ہی رہتا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی تسلی میری خالی گود میں ڈال کر چلا جاتا ہے۔ مگر میری اجڑی ہوئی گود ان کی دلجوئی کے باوجود بهی خالی رہتی ہے۔ ان کے حرف تسلی سے نہ تو میرے دل کو قرار آتا ہے اور نہ ہی میرے گهر کی ویرانی میں کمی۔

آج صبح جب تمہارے بهائی نے مجھے ہیپی مدرز ڈے کہا اور اپنے ننهے ننهے ہاتھوں سے مجھے پھول دیا تو اس لمحے تمہاری یادوں کا سمندر آنکھوں سے امنڈ آیا۔ مجھے روتا دیکھ تمہارے بهائی نے میرے آنسو پونچهتے ہوئے تسلی دی کہ آپ مت روئیں بهائی واپس آجائیں گے۔ تمہارے بهائی کی عمر تو محض ساڑھے چار سال ہے۔ وه موت کی سچائی کو سمجهنے سے قاصر ہے۔ اس کے سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ جب سولہ دسمبر کا سانحہ ہوا تو ہر ماں کی طرح میری آنکھیں بهی اشک بار تھیں۔ اس وقت وه اپنے ننهے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرتا اور کہتا تها کہ ماں مت رو یہ بچے واپس آجائیں گے جن کو لوگوں نے بڑے بڑے لکڑی کے صندوقوں میں بند کر دیا ہے۔ بیس جنوری کو جب تمہیں تابوت میں ڈال کر لایا گیا تو وه بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ماں میں نہ کہتا تها کہ سولہ دسمبر والے بچے جن کو لکڑی کے صندوقوں میں بند کر دیا گیا تها وه واپس آ جائیں گے دیکهو ماں یہ ان میں سے ایک بچے کو ہمارے گهر واپس لے آئیں ہیں۔ مجھے کوئی تو بتائے کہ اس کو کیسے بتاوں کہ بیٹا ہاں تابوت بهی ویسا تها اس کے اندر کفن کا رنگ بهی سفید تها اس کفن کی لپیٹ میں درندوں کا شکار ہونے والا ایک بار پهر علم کا متلاشی تها۔ اس کو کس طرح سمجهاتی کہ اس بار کفن پر جو خون کے دهبے لگے تهے وه اس کے اپنے بهائی کے تهے۔

ہر اتوار کے دن وه تمہارا انتظار کرتا رہتا ہے سب سے کہتا پهرتا ہے کہ بهائی میرے لیے چاکلیٹ لائیں گے۔ بار بار اپنے تکئے کے نیچے ہاتھ پهیرتا ہے کہ شاید بهائی نے چاکلیٹ چھپا کر رکھ دی ہو۔ تمہارے کمرے کے دروازے سے جھانک جھانک کر تمہیں تلاش کرتا ہے۔ تمہارے نہ آنے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ مگر اس کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ نہ بهائی آئے اور نہ اس سے چاکلیٹ کا کیا ہوا وعدہ نبهائے۔ وه اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ہم سب گهر والوں کی تصویر بنا بنا کر اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ تم آو گے۔ اس کے خیال میں تمہارے آبا آفس سے آنے کے بعد سیدھا تمہارے کمرے میں جا کر اس لیے زار و قطار روتے ہیں کیونکہ ان کو ان کی ٹیچر نے کام ختم نہ کرنے پر ڈانٹا ہو گا۔

کل رات اس نے معصوم سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ تب اس کو بڑی مشکل سے سمجھایا کہ اب تمہارے لیے بهائی چاکلیٹ نہیں لائیں گے اب تمہارا بهائی کبھی نہ آئے گا۔ وه بہت رویا اور یہ کہتے کہتے سو گیا کہ بهائی سے کہو کہ آجائے میں اب کبھی بهی ان سے چاکلیٹ نہیں مانگوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments