کیا چلے ہوئے کارتوسوں سے نیا پاکستان بنایا جا سکتا ہے؟


الیکشن کی گہاگہمی عروج پر ہے۔ اک وقت تھا جب الیکشن لڑنا اتنا مشکل نہیں تھا مگر بھلا ہو سرمایہ داری نظام کا جس نے ہر اس شے کو کمرشل کر دیا ہے جو کسی نہ کسی طریقے عوام سے وابستہ ہے۔ چند دہائیوں میں سائنس کی ترقی کے ثمرات کی رسائی عام آدمی تک ہوئی انسانوں کا معیار زندگی اور ترجیحات بدل گئیں۔ برصغیر پاک و ہند میں جاگیرداری کی جگہ لبرل سرمایہ داری نے لے لی ٹی وی آنے کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے انسان کو آئیڈیلزم کا عادی بنایا۔ کارپوریٹ سیکٹر کی مختلف پروڈکٹس کو اس انداز سے پیش کیا گیا کہ انسان ضروریات کے ساتھ ساتھ ان پروڈکٹس کے حصول جیسی خواہشات کا عادی بن گیا۔

پہلے کارپوریٹ سیکٹر نے تشہیر بازی کر کے عوام کا ذہن بنایا۔ جیسے مثال کے طور پر ہماری ذہن سازی کی گئی کہ گورا رنگ حسن کا بنیادی عنصر ہے پھر رنگ گورا کرنے کی پروڈکٹس متعارف کرائیں گئیں۔ آج میک اپ انڈسٹری دنیا کی پہلی دس کمائی کرنے والی انڈسٹری میں سے اک ہے۔ اس کارپوریٹ ورلڈ نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ منافع کمانے کی اس دوڑ میں پہلے پہل سرمایہ داروں نے اپنے طور پر جیتنے کی کوشش کی مثال کے طور پر کسی پروڈکٹ کی رسد و طلب میں فرق سے ان کا منافع کم ہوا تو انہوں نے اپنی ہی فرم کے پانچ ہزار ملازمین کو نوکری سے برخواست کر دیا کہ اک تو ان کی تنخواہیں منافع میں شامل ہو جائیں گی دوسرا ادارے سے مفت پروڈکٹ اور تنخواہ حاصل نہ کر سکنے کے باعث مارکیٹ میں نئے پانچ ہزار صارفین کا اضافہ ہوگا۔

پھر اس کارپوریٹ ورلڈ نے آہستہ آہستہ سرکار کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ پہلے پہل الیکشن لڑنے کے طریقوں کو ٹارگٹ کر کے اشتہار بازی کو اس کا جزو بنایا گیا۔ پھر پینافلیکس پمفلٹس جھنڈے سٹیکر انتخابی نشانات کی شبہیہ جیسی پروڈکٹس اور پارٹی ترانوں جیسے لوازمات کی مدد سے اس کو گلیمرائز کر کے اس سارے پروسیس کو مہنگا کر کے غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا گیا۔ پھر پارٹی فنڈ کے نام پر پیسہ دے کر پارٹی سربراہان اور ان کے ذریعے دیگر سیاستدانوں کو خریدا گیا۔

آج دنیا بھر میں حکومتوں کے پیچھے انہی کارپوریٹ اداروں کا ہاتھ ہے۔ یہ اپنے منافع کو مد نظر رکھ کر پالیسیز بناتے ہیں اور اپنی طاقت کو دوام بخشنے کے لیے قانون سازی کرواتے ہیں۔ مختصر عام آدمی کے پہناوے سے لے کر رات کے کھانے تک کا فیصلہ انہی لبرل سرمایہ داری کے ماسٹر مائنڈز کے ہاتھ میں ہے۔ اب پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے دیہاتوں میں جاگیرداری اور شہروں میں نیو لبرل سرمایہ داری نظام چل رہا ہے۔ ہماری اشرافیہ جس میں سیاستدان بیورکریٹس فوجی افسران اور تاجر شامل ہیں نے آپس میں ان کہا ان دیکھا اور من چاہا ایکا کر رکھا ہے۔ اس اشرافیہ کلب کی ممبر شپ کو عام آدمی کی پہنچ سے اتنا دور کر دیا ہے کہ وہاں تک کوئی پہنچ نہیں پاتا کوئی اگر مین سٹریم تک پہنچ بھی جائے تو اسے اک مذاق بنا کے رکھ دیا جاتا ہے۔ قندیل بلوچ اور جمشید دستی اس کی مثالیں ہیں۔ اک کو قتل ہونا پڑا دوسرے کو سیرئیس لینا چھوڑ دیا گیا۔

ہماری اشرافیہ جاگیرداری اور نیو لبرل سرمایہ داری کی کٹھ پتلی ہے اس نیو لبرل سرمایہ داری کے عفریت سے نمٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں جب مارشل لا نہیں ہوتا تھا تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی باریاں لگی ہوئی تھیں۔ ایسے میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا بوسٹ ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند معلوم ہوا۔ مجھ جیسے کئی نادانوں کو امید ہو چلی کہ شاید اب کے سسٹم بدل جائے۔ مگر تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم نے ہماری خوش فہمیوں کے غبارے میں سے یوں ہوا نکالی کہ خاکم بدہن اب ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

عمران خان کا کہنا ہے ٹکٹوں کی تقسیم کے تین ہفتوں میں مجھے بیگم نے بوڑھا ہوتے دیکھا۔ تبھی خان صاحب نے نوجوانوں کی نمائندہ جماعت کے ٹکٹ اسی اسی سالہ بوڑھوں کو دے دیں۔ حالانکہ اب عمران خان عام مستعمل زبان میں لوٹوں اور مہذبانہ زبان میں الیکٹیبلز کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو جیسا انقلاب لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر بھٹو نے جب عام آدمیوں کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹس دیں تھیں تب پی ٹی وی کے علاوہ کوئی چینل نہیں تھا۔ شہروں میں میڈیا کے نام پر چند اک اخبارات تھے ملک کی آبادی کا پیشتر حصہ اور تعداد میں زیادہ ووٹرز یعنی دیہاتوں تک ان دونوں کی رسائی نہیں تھی۔ تب گاؤں میں رابطے کا ذریعہ صرف ریڈیو پاکستان تھا جو ’ریاست‘ کے انڈر کنٹرول تھا۔ نہ نیوز چینلز نہ اخبارات نہ سوشل میڈیا نہ ایف ایم نہ ہی ویب چینلز۔ جلسے بھی بڑے سادہ ہوتے تھے نہ ڈی جے نہ لائیو ٹرانسمیشن نہ قد آور سپیکرز نہ ہی عوام میں اتنا سیاسی شعور۔

گویا بھٹو کے پاس ان سہولیات کا عشر عشیر بھی نہیں تھا جو آج عمران خان کو میسر ہیں۔ پھر بھی عوام نے بھٹو کے عام آدمیوں کو منتخب کیا کیونکہ بھٹو کو اپنے اخلاص پر یقین تھا اور عوام کو بھٹو پر یقین تھا۔ عمران اتنی سہولیات کے باوجود سمجھتے ہیں کہ چونکہ ابھی ان کا نظریہ گاؤں گاؤں نہیں پہنچا اور اجنبی چہروں کو ٹکٹ دینے سے ان کو ووٹ نہیں پڑنے تھے۔ لہذا انہیں مجبوراً ایسے الیکٹیبلز کو آگے لانا پڑا جو عوام کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ عمران خان اب بھلے کوئی توجیح پیش کرتے رہیں مگر سچی اور کڑوی بات یہ ہے کہ انہوں نے نظریات پر سودا کیا ہے۔ انہوں نے اقتدار کی خاطر نظریاتی کارکنان کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور پرانے پاکستان کے چلے ہوئے کارتوسوں کو ٹکٹس دے کر اپنی شکست کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ چلیں پچھلی بار تو انہوں نے دھاندلی کو شکست کا ذمہ دار قرار دیا تھا اب کی بار وہ کسے مورد الزام ٹھہرائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).