اپنے قبرستان کو قبضہ گروپ سے چھڑانے کے لئے بچے کی خودکشی


کھانے کا حق، پینے کا حق، جڑنے کا حق، پڑھنے کا حق، انصاف کا حق، یہ سب بنیادی حقوق ہیں اور ہمارے وطن عزیز کا آئین ان تمام حقوق کی گارنٹی دیتا ہے یہ بات الگ ہے کہ پاکستانی شہری آئے دن بنیادی حقوق نہ ملنے کے خلاف راستوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہیں بنیاد حق لیکن آپ نے کبھی قبر کا حق سنا ہے کہ مجھے اپنی قبر لوٹا دو مجھے میرا قبرستان دے دو ؟ اگر میں یہ کہہ دوں کہ دنیا کے کسے کونے میں فلاں ملک فلاں گاؤں فلاں شہر مرنے کے بعد قبر میں لحد اتارنے کا حق نہ ملنے پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور ان میں سے کسی نے احتجاجاً خودکشی کرلی تو یہ بات کون مانے گا؟ اگر میں یہ کہہ دوں کے اپنی پشتوں کی قبروں پر قبضہ گیری کے خلاف ایک ننھے منے بچے نے گلے میں پھندہ ڈال کر خوکشی کردی تو کسے اعتبار کیوں کر آئے؟

میں اس کو اور بھی سادہ زبان میں اس طرح بیان کردوں کہ ایک سولہ برس کے بچے نے اپنے آبائی قبرستان پر با اثر لوگوں کی طرف سے قبضہ کرنے کے خلاف احتجاج کرنے کے بعد یہ کہہ کر خودکشی کرلی کہ شاید اس کے بعد با اثروں کے خلاف کوئی کارروائی ہو جائے۔ کیا یہ بات ہضم کرنے جیسی ہے؟ لوگ گھروں، پلاٹوں، بنگلوں پر قبضےکے خلاف احتجاج کرتے ہیں، ملکیت پر قبضہ ہونے پر خون خرابے ہوجاتے ہیں لیکن میں آپ کو سندھ کے ایسے چھوٹےشہر میں لے چلتا ہوں جہاں ایک بچے نے قبرستان پر با اثروں کے قبضہ کے خلاف خودکشی کر لی۔

اس کا نام نریندڑ راٹھوڑ تھا جو اپنے آبائی قبرستان پر قبضہ خلاف اپنے والدین اور برادری کے ساتھ احتجاج کر رہا تھا لیکن اس احتجاج کی کسی نے کوئی پرواہ نہیں کی، وہ بچہ تھا اپنے والد، چچا، ماموں اور دوسرے عزیزوں کے ساتھ احتجاج کرتا تھا، افسروں کو عرضیاں لکھتا تھا، نعرے لگاتا تھا، لیکن کسی کے پاس وقت نہیں تھا کہ کبھی اس احتجاج پر کوئی توجہ دے، سندھ میں اب قبضہ کرنے کے لیے صرف قبرستانوں کی ہی زمین رہ گئی ہے، بڑے شہر کراچی کے آس پاس برسوں سے آباد مقامی لوگوں کے قبرستان تو ڈیولپرز اور حکمرانوں نے ملی بھگت کرکے بیچ دیے لیکن اب چھوٹے شہروں کے قبرستان پر با اثر اور ان کے کام داروں نے قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔

ایسا ہی ایک قبرستان نصرپور شہر ہے جو حیدرآباد کے مضافات میں ہے، ہندوو برادری کے اس قبرستان میں شمشان گھاٹ اور اس سے جڑی چالیس ایکڑ زمین ہے برسوں سے شہر اور آس پاس کے ہندوو اس قبرستان میں مردوں کی چتا جلاتے ہیں، اس زمین پر مقامی زمین داروں نے قبضہ کیا ہوا ہے، یہ قبضہ گیری کے خلاف ایک تحریک تھی جس میں انٹرمیڈیٹ کلاس کے نریندڑ راٹھوڑ نے بڑھ چڑہ کر حصہ لیا، اس تحریک میں آس پاس کے کچھ اور لوگ بھی شامل ہوگئے لیکن زمین داروں اور با اثر لوگوں کا اتنا اثر تھا کہ کوئی بھی ہندووں کے قبرستان، شمشان گھاٹ اور اس سے ملحقہ زمین پر قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔

یہ تین دن پرانی بات ہے ایک رات نریندر کے کمرے سے اس کی پنکھے سے لٹکی لاش ملی اور ساتھ ہی ایک رقعہ بھی جسے سوسائڈل نوٹ کہا جا رہا ہے، سندھی میں لکھے اس خط کے آخر میں انگریزی زبان میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ پاکستان بڑا اچھا ملک ہے لیکن اس میں کرپشن بہت ہے۔ نریندڑ راٹھوڑ کے خط کا متن یہ ہے کہ دیکھو، ہر کام کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی قربانی دینی پڑتی ہے۔ میں آج اپنی جان کی قربانی دیتا ہوں اور اللہ کرے گا کہ میری قربانی مرے مقصد کے لئے سودمند ہوگی۔ جیساکہ ہمارے قبرستان کا مسئلہ چل رہا ہے اور کوئی بھی ابھی تک ہمیں کوئی ریسپانس نہیں دے رہا سو میں ایک ایسی دنیا میں جینا نہیں چاہتا جس میں انصاف نہ ہو، اور میں اپنے پاکستانی لوگوں کو ایک شکایت دیتا ہوں کہ ہمارے قبرستان پہ قبضہ، ہمیں قاضی عدیل نے بہت تکلیف دی ہے، اور میں ایسے ملک میں جینا نپیں چاھتا۔ دراصل، پاکستان بہت اچھا ہے اور پاکستان کے بچارے مسلمان بہی بہت اچھے ہیں۔ میرے دوستوں نے مجھ سے کبھی میرے ہندو ہونے کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس بہت پیسہ ہے، وہ ظالم ہیں، ظلم کرتے ہیں اور پئسے کی بنیاد پر سب کو اپنے دباؤ میں کیے بیٹھے ہیں۔ یہ میرا بیان ساری اخباروں میں دینا اور بتانا کہ ہمارے ایک نوجوان نے تنگ آکر اپنی جان دے دی۔ پاکستان ایک بہت بہترین ملک ہے لیکن اس کو کرپٹ لوگوں نے تباہ و برباد کردیا ہے، اور اللہ کرے میرے اس بیان دینے کے بعد انصاف ملے اور قبرستان مل جائے

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar