350 روپے میں جوگرز اور 740 روپے کا عمرہ


مجھے یاد ہے ہمارے کچے گھر میں مفلسی نمبردار ہوا کرتی تھی۔ والد صاحب محنت مزدوری کیا کرتے۔ امی جان کو روز کا روپیہ دو روپیہ خرچ ملتا تھا۔ امی کا کہنا تھا، بیٹا ہم نے کبھی سو کا نوٹ نہیں دیکھا۔ مہینے میں کبھی کبھار ہمارے گھر گوشت یا چاول پکا کرتے تھے۔ ہم اکثر ہی پودینے کی چٹنی، لسی، اور بینگن کا بھرتا کھایا کرتے تھے۔ سرسوں کا ساگ کئی کئی روز کھایا جاتا۔ ہم عید، یا کسی شادی بیاہ ہی کے موقع پر نئے جوتے اور کپڑے خریدا کرتے تھے۔

گورنمنٹ رضویہ اسلامیہ ہائی اسکول ہارون آباد میں، جہاں میں زیر تعلیم تھا، مجھے فٹ بال ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ چند دنوں کی محنت سے میں اسکول کی ٹیم کا کپتان مقرر ہوگیا۔ ہمارے اسپورٹس ان چارج ملک شریف صاحب نے حکم دیا کہ بیٹا تم اب ہمارے اسکول کی ٹیم کے کپتان ہو، لہذا کل سے تم ٹریک سوٹ میں آیا کرو گے۔ ٹراﺅزر شرٹ اور جوگرز کا انتظام کرو۔ میں بہت پریشا ن ہوا۔ میری آنکھوں کے سامنے بار بار اپنے گھر کے حالات آتے رہے۔ میرے کانوں میں ابو کے سبزی کے بوجھ سے لدے سائیکل کے پیڈلوں کی چاں چاں کسی پر سوز دھن پہ بجتے نغمے کی طرح افسردگی انڈیل رہی تھی۔ میری پڑھائی میرے امی ابو کا وہ خواب تھا جو کبھی کبھی مفلسی اور محرومیوں کے سخت رویوں اور حالات کے تھپیڑوں کا درد سہنے سے قاصر آ جاتا۔ آئے دن حصول علم کے راستے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آن کھڑی ہوتی، لیکن میرے ماں باپ کے ارادے کسی سنگلاخ چٹان سے بھی زیادہ مضبوط تھے۔

میں بستی کی کرکٹ ٹیم کا بھی کپتان تھا۔ فردا ََ فرداََ کرکٹ ٹیم کے تما م کھلاڑیوں کے گھر گیا تا کہ کسی سے ٹریک سوٹ اور جوگر مل سکیں مگر مایوسی ہوئی۔ آخر میرے ایک بہت قریبی دوست نے محض اس شرط پہ ٹراﺅزر شرٹ دی کہ میں اسکول کے ٹورنامنٹ کے بعد اسے اسی حالت میں واپس کر دوں گا۔ مگر کوئی بھی جوگرز دینے کو تیار نہ ہوا۔ ہر کسی کا یہ خیال تھا کہ جب یہ جوگرز پہن کر فٹ بال کھیلے گا تو جوگرز ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے۔

دیے کی مدہم سی سوگ وار ٹمٹماتی روشنی میں جو زرا سا ہوا کا جھونکا آتا، تو لگتا ابھی دیا بجھ جائے گا، مگر لڑکھڑاتی ہوئی لو پھر سنبھل جاتی۔ امی گھاس پھوس کے چھپر کے نیچے بیٹھی مٹی کے بنے چولھے میں بھینس کے گوبر کی بنائی گئی تھاپیوں پہ دودھ گرم کرنے میں مصروف تھیں۔ دھوئیں سے لال آنکھوں کو ہاتھوں کی پشت سے ملتے ہوئے میری طرف ایک مسکراہٹ سے دیکھا، جیسے معصوم سا بچہ صبح اٹھتے ہی آنکھیں مسلتے ہوئے اپنے اکلوتے اور قیمتی کھلونے کی طرف دیکھے۔ میں نے امی جان سے اپنی مشکل بیان کی۔ میری بات سنتے ہی انھوں نے صندوق سے مٹی کا گلک نکال کر زمین پر دے پٹخا۔ گلک میں سے سکوں کی صورت، تین سو اسی روپے برآمد ہوئے۔

امی جان نے ابا جی کو کہا کہ اس کے جوگرز خریدنے کے بعد جو پیسے بچ جائیں میرے لیے ایک شال بھی لیتے آنا اور اپنے لیے ایک چپل بھی ضرور لے لیجیے گا۔ ابا جان نے پہلے تو مجھے ڈانٹا کہ تم کن فضولیا ت میں حصہ لے رہے ہو، یہ کھیل کود ہم جیسے غریبوں کا کام نہیں۔ ہم نے تمھیں اسکول پڑھنے بھیجا ہے اور تم آوارہ بننا چاہتے ہو؛ کوئی جوگر شوگر نہیں ہیں۔ آرام سے گھر بیٹھو اور اپنی کتابوں میں دھیان دو۔ لیکن امی نے ابا جی کو منا ہی لیا۔

سائکل پہ بیٹھ کے ہم ہارون آباد فوارہ چوک ”سروس“ کی دکان میں چلے گئے۔ دکان میں داخل ہوتے ہی میری نظر ایک لال رنگ کے ڈبے پر پڑی جس پر چیتا بنا ہوا تھا۔ میں نے فورا دکان دار سے کہا ”چاچا، او ڈبا وکھا“۔ وہ کالے رنگ کے جوگرز تھے جن پہ ”پاور“ لکھا تھا۔ اس کے دونوں اطراف چیتے کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ قیمت پوچھی تو تین سو پچاس روپے۔ میں نے دکان دار سے بہت بحث کی لیکن دکان دار بضد تھا کہ ریٹ فکسڈ ہیں۔ ہم کمی بیشی نہیں کرتے یہ سروس والوں کی اصلی دکان ہے، بیٹا؛ آپ بحث نہ کریں؛ قیمت کم نہیں ہوگی۔

جب میں گھر سے نکلا تھا، تو میں نے دیکھا تھا امی کا دُپٹا سر کے اوپر سے پھٹا ہوا ہے؛ چپل کے تلوے میں سوراخ ہے۔ امی نے کبھی چوڑیا ں نہیں پہنی تھیں، قمیص پہ ہاتھ والی سوئی سے کتنے ہی پیوند لگائے ہوئے تھے۔ ابا جان کی پلاسٹک کی چپل جگہ جگہ سے سلائی کروائی ہوئی تھی۔ ابا جان کو ریڈیو سننے کا شوق تھا جو آج بھی ہے؛ ابا جان ڈیڑھ سو کا ریڈیو خریدنا چاہتے تھے۔ جب دکان دا ر نے ایک روپیہ بھی کم نہ کیا تو میں نے افسردہ دل کہا، ٹھیک ہے ابا جان کوئی اور جوتے لے لیتے ہیں؛ کسی اور دکان میں چلتے ہیں، جو قیمت کم بھی کریں۔ میرے دماغ میں ابا جان کا ریڈیو، امی کی شال، اور ابو کی چپل آرہی تھی۔ میں چاہتا تھا تین سو اسی روپوں میں ہم سب کچھ خرید لیں۔

جب ابا جان نے میرا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو دکان دار سے کہنے لگے ٹھیک ہے بھائی یہی جوگرز دے دو۔ میں نراش دلی سے ’نہ، نہ‘ کر تا رہا لیکن ابا جان نے تین سو پچاس سکے گن کر دکان دار کو ادا کر دیے۔ ہم اور کوئی بھی چیز خریدے بغیر گھر چلے آئے۔ گھر پہنچ کر ابو نے ساری بات امی کو بتائی تو انھوں نے کہا، چلو کوئی بات نہیں، میرا لعل تو خوش ہو گیا ہے ناں؛ اب تو تیرے ماسٹر اور اسکول والے کچھ نہیں کہیں گے ناں؟میں نے بنا بولے اثبات میں سر ہلایا۔ امی نے مجھے بازو سے پکڑ کر گلے لگا لیا اور میری پیشانی پہ بوسہ دیا۔ میری آنکھیں کسی ماتمی کے سینے کی طرح سرخ ہو کر دہکنے لگیں، بڑی مشکل سے میں نے آنسوﺅں کے بپھرے سیلاب کو جذب کیا؛ آنسو میری پلکوں پہ ایسے دکھائی دے رہے تھے، جیسے انار کے سرخ پھولوں پہ بارش کے موتیوں جیسے دھکتے رقصاں قطرے۔ میری پیشانی پہ امی جان کا بوسہ مجھے زندگی بھر یاد رہے گا۔

میٹرک کا امتحان دے کے فارغ ہوا تو ابا جان کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔ میرے اس فیصلے کی وجہ گھر کے حالات تو تھے ہی لیکن میرے ایک ماموں زاد بھائی کی وہ بات تھی جو اس نے اسٹیڈیم میں بیٹھ کر سیب کھاتے ہوئے مجھے دیکھ کہی تھی۔
”باپ سارادن گلیوں میں دھکے کھاتا ہے، آلو اور پیاز سے لدی سائیکل کھینچتا ہے اور بیٹا دیکھو کسی نواب زادے کی طرح بیٹھا سیب کھا رہا ہے“۔
اس کی بات سن کر میری پیشانی پہ تریلی آگئی تھی مجھے لگا سیب کا کوئی ڈکرا میرے گلے میں اٹک گیا ہے۔ میری حالت اچانک چھوئی موئی کے اس پودے سی ہو گئی، جسے ابھی ابھی کسی نے ہاتھ لگایا ہو۔
میں ایک اچھا کھلاڑی اوربہترین ایتھلیٹ تھا لیکن اس دن میرے ہاتھ سے کرکٹ کا بلا اور پاﺅں سے فٹ بال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ اب میں صبح فجر کے وقت اٹھتا، نماز پڑھ کر اسٹیڈیم چلا جاتا؛ دوڑ لگاتا اور واپس گھر آ کر ناشتا کرتا؛ پھر فرید کریانہ اسٹور پہ جا کر سامان اپنی سائیکل پر لوڈ کرتا اور شہر میں نکل جاتا۔ ہر آئٹم پہ مجھے ایک روپیہ کمیشن ملتا اور بارہ سو روپے میری تنخواہ تھی۔

دسویں جماعت کا نتیجہ آیا، تو میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا۔ میرے گھر والے چاہتے تھے کہ میں کالج چلا جاوں؛ مزید پڑھوں، لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ابا جان کی دکھتی ہڈیوں کی صدائیں سائکل کے پیڈلوں اور خشک گراریوں کی بے سری اور بے ڈھب آواز میں دب کر رہ جائیں۔ میں نے سیلز مینی کے ساتھ ساتھ اخبارات کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس میں نوکریوں کے اشتہار پڑھا کرتا۔ ایک سخت دُپہر میں بوجھ سے لدا، پسینے میں‌ شرابور، ہانپتا ہوا، خشک ہونٹوں کے ساتھ گھر کے دروازے سے داخل ہوا، تو امی جان ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں۔ امی جان نے سلام پھیرا تو سیدھی نظر مجھ پہ پڑی۔ میں نے ہنسنے کی کوشش کی مگر میری آنکھیں ایک ہی لمحے میں سب کچھ کہہ گئیں۔ وہ اسی وقت پھر سے سجدے میں چلی گئیں اور مجھے ہو بہو یاد ہے، کہ سجدے کی حالت میں امی کی آنکھوں سے آنسو گرتے جاتے تھے۔ چند دنوں بعد پولیس میں بھرتی کا اشتہار آیا۔ امی جان کی دعا اللہ تعالی نے قبول کرلی اور میں اللہ کے فضل و کرم سے پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہو گیا۔

ہمارے ٹریننگ اسکول میں ایک پی سی او تھا، اس کا فائدہ یہ تھا ایک تو اس نے تمام ٹرینیز کے کھاتے بنائے ہوئے تھے اور بل تنخواہ آنے پر ہی لیتا تھا؛ دوسرا یہ کہ وہ سارا دن ٹرینی لڑکوں کے گھروں سے آئے پیغامات اپنے پاس ڈائری میں لکھتا رہتا اور شام کو جب ہماری رول کال ہوتی تو وہ بھی فالنی میں آجاتا اور سب کے پیغام بتاتا۔ اس نے مجھے پیغام دیا کہ تمھارے گھر سے فون آیا ہے گھر بات کرلو۔ میں نے اپنے محلے میں بنے پی سی او پہ کال کی اور کہا میرے گھر سے کسی کو بلا دیں؛ اس نے مجھے آدھے گھنٹے بعد فون کرنے کا کہا۔ آدھے گھنٹے بعد ابا جان پی سی او پہ آ چکے تھے۔ سلام دعا ہوئی؛ ابا جان نے کہا کہ تمھاری امی کی طبیت بہت خراب ہے، ہر طرف گندم کی کٹائی ہو رہی ہے۔ جو مٹی اور خصار اڑتا ہے، وہ تمھاری امی کے سانس میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے۔ تمھیں فون کرنے کا مقصد تھا کہ تم سکھے کی والے حکیم بشیر سے رابطہ کرو اور اسے کہو کہ حافظہ آباد والی بس پہ تمھاری امی کی دوائی رکھ دے۔ ہم لاری اڈے سے وصول کرلیں گے؛ اسے پیسے بھی بھیج دینا؛ اچھا اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ۔

امی جان کی دمے کی بیماری گندم کی کٹائی کے دنوں میں بہت زور کر جاتی ہے۔ پیسے تو میں نے پہلی تاریخ کو گھر بھیج دیے تھے میرے پاس تو صرف سات سو چالیس روپے تھے، ابھی تنخواہ آنے میں تو سترہ دن پڑے ہیں گزارا کیسے ہوگا۔ حکیم صاحب کو کال کی، وہ آٹھ سو کا تقاضا کر رہے تھے، لیکن میرے پاس سات سو چالیس روپے تھے۔ میں نے تنحواہ آنے پہ باقی پیسے بھیجنے کا وعدہ کر کے حکیم صاحب کو دوائی بھیجنے پہ رضا مند کرلیا، اور اپنے پاس موجود سات سو چالیس روپے حکیم صاحب کو منی آرڈر کردیے۔ منی آرڈر کرتے مجھے زرا بھی پریشانی نہ ہوئی کہ میرا مہینا کیسے گزرے گا، میرا خرچ کیسے پورا ہو گا۔ رات کو جب سارے دن کی ٹریننگ سے تھکا ہارا، چارپائی پہ گِرا تو پتا ہی نہیں چلا، کب نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ خانہ کعبہ میں ہوں اور عمرہ کر رہا ہوں۔ حیران بھی ہو ں اور طواف بھی کر رہا ہوں۔ میرے پاس ایک بزرگ آتے ہیں اور پوچھتے ہیں بیٹا پریشان کیوں ہو؟ میں نے جواب دیا، بابا جی میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں تھا، پھر میں عمرے پہ کیسے آگیا؟ میرا کرایہ کس نے دیا؟ میں یہاں کیسے پہنچا؟ بابا جی مسکرا کر بولے، بیٹا تو نے سات سو چالیس روپے ادا کر دیے تھے، یہ عمرہ ان سات سو چالیس روپوں کے عوض ادا کر رہے ہو۔

میری آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے میرے دل سے رونے کی ایسی دھاڑ نکلی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ سچ مچ میری آنکھوں سے آنسو نکلے ہیں اور میں نے اٹھ کر بستر کی چادر سے اپنے آنسو صاف کیے۔ اس کے بعد پوری رات سو نہیں سکا، اور اللہ کا شکر ادا کرتا رہا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ مجھے پر لگ جائیں اور میں اُڑ کے امی جان کے پاس پہنچ جاﺅں، اور امی کے گلے سے لپٹ کر سارا خواب انھیں جا سناوں۔
ماں کی گود کا طلسم یک سر عجیب ہے
سر رکھتا ہوں تو رنج و الم سب بھول جاتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).