غیر ملکی سفارت کار کسے وزیراعظم بنتا دیکھ رہے ہیں؟


یہ اس رات کا قصہ ہے جب اچانک ہی لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں، کارکنوں اور بلدیاتی نمائندوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ ابھی ٹیلی ویثرن لگائے ابتدائی خبریں ہی دیکھ رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ نمبر دیکھا تو دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ملک کے سفیر کے ذاتی نمبر سے کال آ رہی تھی۔ اس وقت کال؟ حیران رہ گیا۔ بہرحال فون اٹھایا تو انہوں نے برجستہ پوچھا کہ یہ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں کیا ہو رہا ہے۔ کہیں کوئی غیر آئینی اقدام اٹھانے سے پہلے ان مسلم لیگ (ن) سے وابستہ افراد کو تو نہیں اٹھایا جا رہا؟

میں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ اس وقت کوئی غیر آئینی اقدام متوقع ہے۔ کیونکہ اس وقت تو آئین کا ویسے ہی بولو رام کیا جا چکا ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو سزا دینے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی وطن واپس آنے سے وقتی طور پر روگردانی کریں گے۔ اور یہاں یہ شور مچایا جائے گا کہ یہ دونوں سزاؤں اور جیل کے خوف سے اتنے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ وطن واپس نہیں آ رہے۔ یوں مسلم لیگ(ن) کے حامی طبقات کے حوصلے کم از کم 25 جولائی کے انتخابات تک پست کر دیے جائیں گے۔

مگر نوازشریف نے اپنی صاحبزادی کے ہمراہ وطن واپسی اور جیل جانیکا فیصلہ کر کے پھس پھسی حکمت عملی تیار کرنیو الوں کو پسینے میں شرابور کر دیا کہ اب ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اب مسلم لیگ (ن) سے نبٹا کیسے جائے۔ اس نبٹنے کی غرض سے یہ حماقت در حماقت کر رہے ہیں کہ نوازشریف کے وطن واپس پہنچنے سے قبل ہی۔ پورے پاکستان اور بین الاقوامی میڈیا کو یہ گرفتاریاں کر کے متوجہ کر رہے ہیں۔ اور مسلم لیگ (ن) کے حامی طبقات میں جوش و جذبے کو بڑھاوا دینے کا باعث بن رہے ہیں۔

سفیر صاحب بولے کہ نوازشریف کے لاہور اترنے اور ریلی کے سبب سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا؟ وفاق پاکستان کو۔ میرا جواب بلا کسی تردد کے واضح تھا۔ ابھی ان سفیر صاحب سے بات کا اختتام ہوا ہی تھا کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر موجود غیر ملکی میڈیا کے صحافیوں اور سفارتکاروں کے فون ایک تواتر سے آنے لگے۔ پہلے بے وقت فون کرنے پر معذرت کرتے اور پھر اس پکڑ دھکڑ پر گفتگو کرکے حالات کو سمجھنے اور اپنے خیالات بلکہ معلومات کو بیان کرنے لگے۔

نوازشریف کی وطن واپسی والے روز رات گئے جب موبائل سروس بحال ہو چکی تھی تو دوبارہ ان ہی سفیر صاحب کا فون آیا کہ پنجاب اور پاکستان کے ہر اس جگہ جہاں پر نوازشریف کی حمایت موجود ہے ایک ہیجانی کیفیت ہے۔ لاہور میں کنٹینروں، موبائل فون کی بندش اور لائیو کوریج میں ڈھیروں رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے یہ تو طے ہو گیا ہے کہ عوامی حمایت اور رد عمل کو روکنا ممکن نہیں ہو سکا۔

میں نے کہا کہ آپ سے پکڑ دھکڑ کی رات میں نے کہا تھا کہ نوازشریف کے لاہور اترنے کے سبب سے زیادہ فائدہ وفاق پاکستان کو ہو گا۔ کیونکہ یہاں لاہور میں اہل شہر کو محصورین میں تبدیل کر دینے سے یہ پیغام پورے ملک میں جائی گا کہ نادیدہ طاقت جو اب نادیدہ نہیں رہی ہے وہ صرف غیر پنجابی بڑے سیاسی رہنماؤں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ جو سلوک غیر پنجابی لیڈر کے ساتھ کرتے ہیں اسی نوعیت کا سلوک پنجابی لیڈر سے بھی روا رکھتے ہیں۔ اس لئے اس تمام دن کے واقعات کے سبب سے پنجابی، غیر پنجابی کی تفریق نوازشریف کے اس اقدام نے ختم کر دی ہے۔ اب یہ واضح ہے کہ یا آپ آئینی جمہوری نظام کے ساتھ ہیں یا کنٹرولڈ جمہوریت آپ کی پسند ہے۔ جو کہ پاکستان کے غالب عوام کی ہرگز پسند نہیں ہے۔

سفیر صاحب اور کچھ دیگر ممالک کے سفارتکاروں سے چند دن قبل ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے اپنے ملک اور چند دیگر اہم ممالک کی جانب سے پاکستانی عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے ان سروے کے نتائج کو بیان کیا تھا جو ان ممالک نے کروائے تھے۔ ان تمام سروے میں مشترک یہ ہے کہ اگر عام انتخابات آج 50 فیصد بھی منصفانہ ہو گئے تو ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ 100% منصفانہ انتخابات کا کسی کو یقین ہی نہیں کیونکہ ایسی صورت میں نادیدہ طاقت کو واپس اپنے آئینی کردار تک محدود ہونا پڑے گا۔ اس لئے انتخابات میں دھاندلی تو ضرور کروائی جائے گی۔

ان ممالک کی انفارمیشن ایک اور حوالے سے بہت دلچسپ ہے کہ اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ آصف زرداری اٹھا جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں حکومت بنانے سے روکنے کی غرض سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مخلوط حکومت سازی کے لئے راہ ہموار کی جائے گی۔ تحریک انصاف عمران خان کے نام سے بطور وزیر اعظم دستبردار ہو جائے گی۔ اور اگر عمران خان نے کوئی مزاحمت کی تو ان کی بطور چیئرمین تحریک انصاف بھی چھٹی کروا دی جائے گی۔ کیونکہ جنہوں نے الیکٹیبلز دیے ہیں وہ ان کو اپنی مرضی سے چلائیں گے۔ نہ کہ عمران خان کے اشاروں پر چلنے دیں گے۔

سفارتی حلقوں میں ایک خیال جو معلومات پر مبنی ہے موجود ہے کہ عمران خان کو جان بوجھ کر ایسے پانچ حلقوں سے انتخاب لڑنے کے لئے تحریک انصاف کے جغادریوں نے راضی کیا ہے کہ جن میں سے ایک سے بھی ان کی کامیابی یقین کی حد تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ میانوالی کے جس حلقے کو ان کے لئے محفوظ خیال کیا جا رہا ہے۔ وہاں بھی عبید اللہ شادی خیال نے ضمنی انتخاب میں بھاری اکثریت سے تحریک انصاف کو شکست دی تھی۔

تحریک انصاف میں عمران خان کے علاوہ وزیر اعظم بننے کے دونوں امیدواران عمران خان کا کانٹا 25 جولائی کو ہی نکال دینے کے لئے حکمت عملی پر کار فرما ہے۔ نہ عمران خان کہیں سے جیتیں گے اور نہ ہی کسی عہدے کے امیدوار بننے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ سفارتکاروں سے نواشریف کی وطن واپسی کے بعد ان نتائج پر دوبارہ گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ نوازشریف کے آج وطن واپس آنے اور ان گرفتاریوں کے سبب سے یہ بہت زیادہ ممکن ہو گیا ہے کہ عوام پولنگ اسٹیشنوں پر یا ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں دھاندلی کا ارتکاب ہونے ہی نہ دیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں جگہ جگہ جھگڑوں کا امکان بہت بڑھ جائے گا۔ اور مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں بھی تنہا ہی سادہ اکثریت حاصل کرنے سے روکنا نا ممکن ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ ان تمام اقدامات کے باوجود پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے سے روکنا نا ممکن ہو چکا ہے۔ اور اب یہ ممکن ہے کہ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) کو روکنا نا ممکن ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).