ایون فیلڈ سے اڈیالہ


گاؤں میں چوری چکاری بہت تھی۔ ہر واردات میں تقریباً وہی چور اور وہی طریقہ واردات۔ گاؤن والوں نے بہت نسخے آزمائے لیکن چور کسی طرح پکڑائی نہ دیتا۔ ہر ناکہ ہر پہرہ بے سود۔ کچھ عرصہ بعد گاؤن والوں کو اک نام نہاد معزز پہ شک ہوا۔ جب اسی معزز کے گھر سے مال مسروقہ برآمد ہوا تو شک یقین میں بدل گیا۔ علاوہ ازیں ہرکھوج کھرا اس کی نشاندہی کرتا۔ پریا، پنچائت اکھٹی ہوئی اسے بلا بھیجا۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے۔ ہر بار کوئی نہ کوئی نیا بہانہ بنا ٹال مٹول جاری۔ کبھی کہا جاتا دادا نے مال مسروقہ بازار سے خریدا ہے۔ کبھی کہا جاتا مرے ہوئے باپ سے پوچھو۔ کبھی عذر تراشا یہ سب تحفے میں ملا۔ لیکن کبھی پنچائت کے روبرو آکر اپنی صفائی نہ دی۔ کبھی بیوی بیمار کبھی پھوپھی فوت۔ ہمیشہ طرح دے جاتا۔

تنگ آمد بجنگ آمد پنچائت نے اس ہر حال میں حاضر کرنے کے احکام جاری کیے۔ چور بڑی مشکل سے ہاتھ آیا اسے ہاتھ پاؤن باندھ کھینچ گھسیٹ پنچائت کے سامنے حاضر کیا۔ اٹھتے ہی بولا مجھ سے چلا نہیں جارہا اس لیے باندھ کر لائے ہیں ورنہ بندہ میں معزز ہوں۔ سرپنچ اس بات پہ چڑ گئے اور کہا اسے چار لگاؤ اب چور کو جوتیاں پڑ چکی تو شکریہ ادا کر کے بولا گھسیٹنے کی وجہ سے میرے کپڑوں میں گرد جم گئی تھی جھاڑنے کا شکریہ۔

مندرجہ بالا واقعہ ان تمام خواتین و حضرات کے لیے جو میاں صاحب اور ان کی بیٹی کی واپسی پہ شاداں و فرحاں جشن نوروز منا رہے ہیں۔ واپسی کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جیسے فاتحین غرناطہ جنگی مہم سر کر کے لوٹیں۔ اگر یہی بہادری ہے تو جیلیں اسے فاتحیں و بہادروں سے اٹی پڑی۔ اپنے کیے پہ شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی کی ہر حد عبور۔ کیکر لگا کر آم اور خوبانی کی توقع رکھنا کار عبث میاں۔ جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہو۔ عدالتوں نے آپ کو کرپشن پہ سزا دی ہے۔ دنیا بھر میں آپ کی جائیدادیں پھیلی ہوئی۔ آج آپ حضرات جس مقام پہ فائز ہیں خود اس کے ذمہ دار ہیں۔

پہلے بطور وزیر اعظم آپ نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا۔ حضور یہ ہیں وہ ذرائع۔ اس کے بعد بطور وزیر اعظم آپ نے پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسی علت کا اعادہ کیا۔ جے آئی ٹی کے سامنے بھی آپ سوائے قطری خط کے کچھ پیش نہ فر ماسکے۔ فرض کریں آپ کے قطری خط کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس طرح کے کئی سعودی قطری خط اور بہت سے لوگ بھی لے آئیں گے۔ اگر خطوں پہ فیصلے ہونے لگے تو پھر عدالتوں کی نہیں کاتبوں اور قاصدوں کی ضرورت ہوگی۔ قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں۔ اگر کوئی آدمی جرگہ، پنچائت کے سامنے اپنی صفائی پیش نہ کر سکے تو مجرم تصور ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ اتنے بڑے فورمز پہ نامی گرامی وکلاء کے ہوتے ہیں اپنی صفائی میں کوئی شہادت کوئی ثبوت نہیں۔

عدالتوں کے سامنے ساری نون لیگ ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم۔ سوال آلو جواب چنا۔ میاں اور اس کی دختر کے پاس سوائے واپسی کی کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ نہ اگلے بنے نہ نگلے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ عدالتوں نے آپ کے لیے بچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا۔ ہر کس و ناچار باپ بیٹی کی واپسی ہوئی۔ اس واپسی کو کسی حد تک مجرموں کی واپسی ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ماحول ایسے بنایا جیسے کوئی تیس مار خاں بہت بڑا معرکہ سر کرنے آیا۔ سب بڑوں کو میں نہ مانوں ہار کی روش ترک کرنی ہوگی۔ یہ صرف نون لیگ نہیں بقیہ جماعتوں کا بھی وطیرہ ہے۔ کیا عدالتوں سے کسی کو پہلی مرتبہ سزا ہوئی ہے؟ اگر نہیں تو پھر احتجاج کس چیز کا؟ آپ کے پاس موقع ہے اگلی عدالت میں جائیں اپیل کریں اپنی صفائی دیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو خاکم بدہن ملک و قوم کے لیے نیک شگون نہیں۔

جس کے پاس چار بندے ہوں گے وہی بندے اکھٹے کرکے اپنا قانون نافذ کرے گا۔ سوال سب سٹیک ہولڈرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بنتا ہے۔ ان لوگوں کو عدالت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت کس نے دی۔ جو لوگ آج احتجاج میں شریک ہیں کیا ان پہ توہین عدالت نہیں لگتی؟ کیا یہ لوگ کار سرکار میں مداخلت کے مرتکب نہیں؟ کیا ان لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا؟ اگر کسی بھی طرح نقص امن پیدا ہو جاتا اور کسی کی جان چلی جاتی چاہے بھگڈر مچنے سے ہی تو ذمہ دار کون ہوتا؟ پشاور اور بلوچستان میں پہلے ہی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ایسے میں کیوں ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقعہ دیا؟ جو بھی کچھ ہوتا آخر مرنا عوام نے ہی تھا۔ آج جو لوگ عدالت کی سزا کو نہیں مانتے کیا ان لوگوں الیکشن لڑنے کا موقع دیا جانا چاہیے؟ تاکہ وہ برسر اقتدار آکر جس قانون کو آج ہی نہیں مانتے اسے موم کی ناک کی طرح مروڑ سکیں۔

جو عدالت کی سزاؤں کو قانون کو نہیں مانتے کیا وہ کسی رو رعایت کے مستحق ہیں؟ نگرانوں نے جس بھونڈے طریقہ سے اس سارے معاملے کو ہینڈل کیا اس پہ صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ میں ان عقلمند حضرات کی عقل پہ ماتم جو بلا سوچے سمجھے ہجوم عاشقان کی طرح امڈ آتے ہیں۔ تماشہ کن سر بازار۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ میاں نوازشریف اور اس کی بیٹی مجبوراً حاضر ہوئے ورنہ پہلے بھی یہی عوام اور یہی ملک تھا تب تو کسی کو واپسی کا خیال نہ آیا۔ کیا اس شخص کی خاطر احتجاج بنتا ہے جس کے اپنے بیٹے اس ملک کے قانون کو نہیں مانتے۔

حسین نواز اور حسن نواز نے عدالت کے روبرو عذر پیش کیا ہم برطانوی شہری ہیں ہم پہ پاکستانی قانون لاگو نہیں۔ ساتھ میں میاں صاحب کا دست رات سمدھی اسحاق ڈار بھی جو لندن میں تو ٹھیک ٹھاک ہے لیکن عدالت کے لیے علالت کا پروانہ بھیج دیتا ہے۔ پاک وطن کو ان لوگوں نے ماسی ویہڑا بنایا ہوا ہے۔ صرف حکومت کرنے آنا ہے۔ اقتدار سے پہلے بھی اور اقتدار کے بعد بھی زیادہ تر بسیرا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں۔ وہی ایون فیلڈ جس کی خاطر سزا ہوئی اور اڈیالہ سے ایون فیلڈ کا سفر شروع ہوا۔ پتہ نہیں ہمارے ماہرین معاشیات کیا کہہ کر دیگر ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہوں گے۔ یقیناً دنیا ہم پہ ہنستی تو ہوگی۔ کیا لوگ ہیں ہمیں کہتے ہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع ہیں لیکن وزیراعظم اور ان کی آل اولاد کا کاروبار یورپ امریکہ اور خلیج میں ہے۔

ہمارے معاشرے اور دین میں باپ بہن کی بڑی شان ہے۔ اگر خدانخواستہ کہیں باپ بہن پہ برا وقت آئے تو بھائی بیٹے جان پہ کھیل جاتے ہیں۔ لیکن یہاں میاں نوازشریف کی ضعیف ماں تو ممتا سے مجبور بیٹے کے ساتھ جیل جانے کی خواہشمند لیکن جوان بیٹے۔ بیٹوں نے بہن اور باپ کو رخصت کیا لیکن خود ذرا سی ہمت مرداں کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چڑھ جا ابّا سولی پہ۔ اس عمل کو نرم سے نرم الفاظ میں غیرت و حمیت سے عاری ہی کہا جا سکتا ہے۔ قوم کا لیڈر قوم کا باپ ہوتا ہے۔ اگر حسن نواز اور حسین نواز لندن میں مزے کریں اور غریب مزدور کا بیٹا احتجاج میں سڑکوں پہ خون پسینہ بہائے تو افسوس ان ہم وطنوں پہ جو ان حکمرانوں کی خاطر احتجاج کرتے ہیں۔ اگر احتجاج کرنا ہے تو یکساں حقوق کے لیے کرو۔ احتجاج کرنا ہے تو اس بات پہ کرو کہ حکمرانوں کی مال و دولت و آل اولاد واپس کیوں نہیں آئی۔ حقیقی تبدیلی و انقلاب نظام مصطفیٰ( ص) و اسوۂ حسینی سے ہی آ سکتا ہے۔ اگر احتجاج کرنا ہے تو نظام مصطفیٰ (ص) اور نظام حسینی کے نفاذ کے لیے کرو۔

میدان کربلا میں جگر گوشۂ بتول ( رض ) امام عالی مقام (رض) نے چھ ماہ کے علی اصغر سے لے کر جواں سال علی اکبر( رض) و عبّاس علمدار( رض) سمیت پورا گھرانہ نذر کردیا۔ کہیں شہزادگان اور دوسرے مجاہدین میں فرق روا نہیں رکھا۔

حسین ع مصحفِ ناطق خطیبِ نوکِ سناں
کہاں سے لفظ تراشوں میں کیا کلام کروں
ملے جو اذن تو دے کر تجھے خراجِ حیات
میں اپنی بخششِ پیہم کا اہتمام کروں
افسوس ان ہم وطنوں پہ جو ایسے حکمرانوں کی خاطر احتجاج کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).