کیا عمران خان بھی نواز شریف کی طرح ایک بے بس وزیراعظم ثابت ہوں گے؟


اگر میاں نواز شریف واقعی طاقت کے مراکز کو توڑ کر ایک وسیع عوامی جمہوریت قائم کرنے میں مخلص ہوتے تو وہ یقینا اپنی پارٹی کو سیاسی اور انقلابی بنیادوں پر منظم کرتے۔ میاں صاحب آپ کے اردگرد جو کالم نگار اور اینکرپرسن آپ سے پچھلے دس سالوں میں مفادات اٹھاتے رہے، یہ انقلاب کا پرچم بلند کرنے کے لیے نہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے لیے سرگرداں ہیں، ان کا ریکارڈ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا۔ آپ سے پہلے یہ جنرل پرویز مشرف کے گرد بھی پائے جاتے تھے اور چند دنوں بعد اگر عمران خان وزارتِ عظمیٰ لے کر ”اقتدار میں حصہ دار‘‘ بن گئے تو پھر یہی لوگ اُن کے گرد ہوں گے بلکہ آپ کی پارٹی کے بڑے بڑے ”اعلیٰ حکام‘‘ لوگ بھی۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف اور آج کی پی پی پی، کوئی بھی اس صلاحیت سے محروم ہیں جس کا ”جھکاوا‘‘ آپ دے رہے ہیں، یعنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ۔ درحقیقت مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتیں اقتدار میں حصہ داری کی خواہاں ہیں، ہاں کسی ایک لیڈر کو یہ گمان ہوجائے کہ وہ ریاست کے اندر ہونے کے ناتے اس ڈھانچے کو الٹ پلٹ سکتا ہے تو یہ ایک خواب ہے حقیقت نہیں۔

پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں چند بڑے سفری منصوبوں کی بنیاد پر یہ کہاجائے کہ یہ ترقی ہے تو یہ بھی ایک سراب ہے۔ سی پیک کا منصوبہ دونوں ممالک کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ پاکستان جودنیا کی ساتویں بڑی آبادی ہے اور بڑی غربت ہے، اس کی قسمت بدل جائے گی تو یہ بھی خام خیالی ہے۔ حقیقت میں سی پیک تو منصوبہ ہی عوامی جمہوریہ چین کا ہے۔ ہم نے تو اسے بس اپنے ہاں قابل عمل کرنا تھا، یہی ہمارا کردار ہے۔ چین ایسے لاتعداد منصوبوں پر عمل کررہا ہے جو اسے دنیا کے چاروں کونوں تک رسائی دینے میں مددگار ہوں گے۔ اور ایک تلخ مگر حقیقت پر مبنی بات، کبھی کوئی بیرونی لیڈر ہماری قسمت بدلنے نہیں آئے گا۔ مہاتیر محمد ہوں، اردوآن یا شی چن پنگ یا کوئی بھی اور۔ پچاس اور اسّی کی دہائی تک ہمارے حکمران عوام کو یہ باور کرواتے رہے اور عوام بھی یقین کرتے رہے کہ امریکہ، پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔ گندم کی بوریوں سے لے کر ریلوے انجنوں تک پاکستان اور امریکہ کے جھنڈوں میں ڈیزائن کیے دو ہاتھ اس دوستی کے طور پر دیکھنے کو ملتے تھے۔

میاں نواز شریف 13جولائی 2018ء کو لندن سے اڑ کر لاہور پہنچ گئے اور گرفتاری دے دی۔ مگر آپ کی پارٹی کا سب سے بڑا جلوس جو لوہاری گیٹ کے سامنے منظم کیا گیا تھا جس کی قیادت میاں نواز شریف کے بھائی اور پنجاب میں مسلسل دس سال حکمرانی کرنے والے لیڈر شہباز شریف کررہے تھے، لاہور ایئرپورٹ نہ پہنچ سکا۔ اس جلوس کی کوریج کے لیے خصوصی طور پر ایک اینکر کو شہباز شریف صاحب نے کسی پرانے گھر کی چھت پر چڑھایا ہوا تھا۔ یہ ”سینئر تجزیہ نگار‘‘ اسی طرح 12مئی 2007ء کو بھی ایک چھت پر چڑھ کر نشریات کررہا تھا۔ یہ تجزیہ نگار آپ کے دربار میں خاص مقام پاگیا اور امریکہ میں سفیر ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اور اب یہ ”سینئر تجزیہ نگار‘‘ چند ہفتوں بعد دربار میں نئی تاج پوشی کے بعد اسی طرح خلعت پائے گا۔ آپ اِن لوگوں کے سروں پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑنے چلے ہیں؟

چند سال قبل جب گورنر پنجاب سلمان تاثیرنے شہباز شریف صاحب کی حکومت معطل کی تو ایک مشترکہ دوست کی خواہش تھی کہ میں معطل وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کروں اور اُن کا ساتھ دوں۔ شدید دباؤ کے بعد ملاقات ہوئی۔ شہباز شریف صاحب نے وقت راقم کے لیے مختص کیاتھا، وہ راقم کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس کے بعد تمام میٹنگز کا وقت لپیٹ دیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر حکومت بحال ہو جائے تو کیا کیا جائے۔ راقم نے دو مشورے دیے، ایک ماڈل ڈسٹرکٹ بنایا جائے اور دوسرا پارٹی منظم کی جائے نئے سرے سے۔ میری ان تجاویز کو انہوں نے بڑی دلچسپی سے سنا اور خواہش کی کہ آپ اس پر کام کریں۔

طویل تجاویز اور باقاعدہ ڈرافٹ جب پیش کیے گئے تو اردگرد موجود سیاسی بونوں کو خطرہ محسوس ہواکہ میں کہیں دوبارہ سیاست میں تو نہیں آرہا اور یوں ”بونے نظام‘‘ کو خطرہ ہوا۔ مجھے ایک طرف لے جا کر اُن کے ایک ”قدآور لیڈر‘‘ نے کہا، آپ دوبارہ سیاست کے کس جھنجھٹ میں پڑنے لگے ہیں، پارٹی کی تشکیل نو کی بھلا کیا ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ البتہ اپنی تجاویز کے ساتھ میں نے میاں شہباز شریف سے عرض کی کہ اگر آپ ایک پارٹی تشکیل کرگئے تو ایسی پارٹی پاکستان کے سیاسی اور حکمرانی کے ڈھانچے کی تشکیل نو کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے اور ایسی جمہوری پارٹی کی قیادت سے آپ خود بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں، یعنی آپ کو پارٹی کا سربراہ نہیں بلکہ ممبر بن کر رہنا ہوگا۔

اسی طرح ماڈل ڈسٹرکٹ پر لکھے گئے صفحات بیوروکریسی کے ”مہذب اندازِ گفتگو‘‘ کی نذر ہوئے۔ جبکہ راقم نے اپنی دونوں تجاویز میں عملی طور پر ماڈل شہروں اور پارٹی کی تشکیل نو کی عملی مثالیں بھی کیس سٹڈی کے لیے دی تھیں، مگر کہاں۔ نظام توڑنے والے رہبر کچھ اور طرح کے ہوتے ہیں۔ ا س کے لیے لازم ہے، ایک مکمل سیاسی فکر، ایک مضبوط جمہور کے ڈھانچے پر مبنی جماعت اور اس نظریے پر تربیت یافتہ کیڈر، جوکہ ہمارے ہاں ناپید ہے۔

اب عمران خان حکمرانی کے حصہ دار بننے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں متعدد کالم لکھ چکا ہوں جن میں 1997ء میں اپنے غریب خانے پر اُن کے اعزاز میں دیے گئے ڈنر میں راقم نے کہا تھا کہ آپ اس ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں، مگر آپ کے طور طریقے بتاتے ہیں کہ آپ بھی اسی بے بسی کا اظہار کریں گے جو حکومت ملنے کے بعد ہمارے وزرائے اعظم کرتے چلے آئے ہیں۔ ہاتھ بندھے ہوئے تھے، پاؤں بندھے ہوئے تھے، وغیرہ وغیرہ۔

عمران خان اگر چند ہفتوں بعد حکومت میں قیادت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو جو اُن کا حشر ہوگا، اس کی تو شاید پہلے کبھی مثال ہی موجود نہیں۔ اگر عمران خان وزیراعظم بن گئے تو وہ حکمرانی کے اس ڈھانچے میں دراڑیں تو کیا، معمولی سا ارتعاش بھی پیدا نہ کرسکیں گے۔ پاکستان کا سب سے بے بس وزیراعظم، جس نے اپنی پارٹی کو اپنے ہی ہاتھوں بکھیرنے کا عمل جس تیزرفتاری سے طے کیا، اس کی بھی مثال نہیں تھی۔ سول بیوروکریسی اور ریاستی اقتدار کے ڈھانچے کی مرہونِ منت ایسی جماعتیں کبھی نظام نہیں بدل سکتیں۔ غلط وہ ہیں جو ان کے اندر انقلابی لیڈر کا خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2