میں عمران خان کو ووٹ کیوں نہ دوں؟


کہتے ہیں جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔ میاں نوازشریف وہ جانباز ہے جس کی اسٹیبلشمنٹ سے تین بار لڑائی ہوئی، تینوں بار انہوں نے مار کھائی اور ہر بار مار کھانے کے بعد انہوں نے نئے عزم اور حوصلے سے اٹھ کر کہا “اب کی بار مار کر دکھا”۔

چند دن پہلے میاں صاحب کو جہاز میں فون پر محترمہ عاصمہ شیرازی سے منتیں ترلے کرتے دیکھا تو مجھے ان پر ترس بھی آیا اور غصہ بھی۔ میاں صاحب عاصمہ شیرازی سے کہہ رہے تھے کہ انکا انٹرویو کیوں نہ چلایا، (نرے انکل کیوں بنتے جا رہے ہیں) فرما رہے تھے کہ اب ڈرنے کا وقت نہیں ہے، میڈیا کو چاہیے کہ اٹھ کھڑا ہو وغیرہ وغیرہ۔ محترم آپ چار سال وزیراعظم رہے آپ میں اتنی رعونت تھی کہ آپ نے میڈیا کو ایک بھی باضابطہ انٹرویو نہیں دیا حتہ کہ اپنے خیرخواہ اور منظور نظر اینکرز کو بھی منہ نا لگایا۔ قوم سے دو چار بار خطاب فرمایا وہ بھی محض اپنی ذات کی خاطر کہ جب پانامہ کا پانی سر سے گزرنے لگا تو ٹی وی پر آ آ کر اپنی صفائیاں دیتے رہے، چند بار پارلیمنٹ آئے تو وہ بھی اسی غرض سے۔ آپ گاہے بگاہے قوم سے مخاطب ہوتے میڈیا پر انٹرویوز دیتے۔ جس ظلم اور خطرے کے خلاف آپ عوام کو آج اٹھ کھڑا ہونے کا کہہ رہے ہیں اسکے متعلق قوم کو اعتماد میں لیتے، لیکن آپ تو ایک دھرنے سے ہی ڈر گئے۔

پچھلی بار بھی آپکے پاس بھاری مینڈیٹ تھا اس بار بھی حتمی اکثریت مگر آپ نے اس کا کیا فائدہ اٹھایا؟ آج آپکو ستر سالوں سے جو ہوتا نظر آرہا ہے وہ ہر بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے نظر نہیں آتا؟ پچھلی مرتبہ تو آپ نے جو بھنڈ مارا اس کا تو جواب ہی نہیں۔ مضبوط وزیراعظم ہوتے ہوئے کس بھونڈے طریقے سے اپ نے فوجی بغاوت کا راستہ ہموار کیا۔ اس بار بھی آپ نے یا آپکی مہم جو بیٹی نے چھپ کر اوچھے وار کیے کبھی پرویز رشید کے کندھے پر رکھ کر کبھی مشاہد اللہ خان کے ذریعے۔ جب ڈھنڈیا پڑی تو آپ نے دونوں کی بلی دے دی۔ آج آپ جہاز میں بیٹھ کرکہتے ہیں قوم اٹھ کھڑی ہو اور میڈیا جرأت کا مظاہرہ کرے۔ وہ میڈیا جس کے مالکان نرے بزنس مین ہیں۔ آپ نے اپنے دور حکومت میں ایک بھی ایسے میڈیا ہاؤس کی حوصلہ افزائی فرما ئی جو خالص صحافتی برادری کا ہو؟

آپ آج جس خلائی مخلوق کا رونا رو رہے ہیں اس کی کانٹ چھانٹ کے لیے آپ نے کبھی کوئی مثبت پالیسی بنائی؟ اس دور اقتدار میں تو کیا پچھلے ادوار میں بھی نہیں، یہ خلائی مخلوق آپ کے لیے نئی ہے کیا ؟ آج تک نہ تو آپ اس کا خاطر خواہ بندوبست کر سکے نہ آپ کو اس سے بنا کر رکھنا آیا۔ اس کے باوجود آپ کو زعم ہے کہ آپ لیڈر ہیں۔ لیڈر ایسے کوتاہ بین اور ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں کیا؟ آپ سے بہتر تو وہ پینسٹھ سالہ نوجوان ہے جو ایک ہی دہائی میں اپنی جماعت کو کہاں سے کہاں لے گیا۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ ہے، یہاں کون ہے جو کسی نہ کسی کا لاڈلہ نہیں بنا۔ کسی زمانے میں تو بھٹو صاحب بھی جنرل ایوب خاں کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ آپ بھی تو ایک جنرل کے منہ بولے بیٹے تھے۔ آج عمران خان نے ان جرنیلوں سے بنا کر رکھ لی تو اس میں برا کیا ہے؟

میں آپکو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، میرا ایک دوست ہے، شہر کے وسط میں اس نے ایک مہنگا اسنوکر کلب کھولا۔ کاروبار سے نابلد تھا مگر معاملہ فہم تھا، کچھ ہی دنوں میں میں نے دیکھا کہ اس نے علاقے کے تھانیدار سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے اور علاقے کے کونسلر سے بھی علیک سلیک کرتا ہے، شہر کے بدمعاشوں اور کن ٹٹوں سے بھی یاری ہے اور پڑھے لکھے نوجوان بھی بلا جھجک کلب میں آتے ہیں۔ کہتا ہے یہ کلب جس کاروباری سنٹر میں قائم ہے وہاں یہ سب لوگ سٹیک ہولڈر ہیں اس لیے سب سے بنا کے رکھنے میں ہی ہم سب کا مفاد ہے۔ اسکے علاوہ یہ کن ٹٹے اوباش ایک ایک دن میں کلب میں جواء لگا کر ہزاروں کی گیمیز کھیلتے ہیں جس میں کبھی کبھار بدمزگی بھی ہو جاتی ہے، انکو قابو میں رکھنے کے لیے تھانیدار سے بنا کر رکھی ہوئی ہے، تھانیدار کو حد میں رکھنے کے لیے کونسلر سے بنا کر رکھی ہے اور یہ جو نوجوان آ کر کھیلتے ہیں ان میں سے اکثر کے باپ اتنے بااثر ہیں کہ کونسلر ان کے گھر سلام کرنے جاتا ہے۔

جناب یہ ملک کوئی کلب نہیں ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

خداوند برتر و بالا کی وہ عظیم نعمت جسے دوستانِ وطن رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور دشمنوں کے سینے پر ہر لمحہ سانپ لوٹتا ہے۔ یہ ملک لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد نقشہ عالم پر ابھرا ہے۔ خدارا اسکی قدر کیجئے، اسکی قیادت میں تدبر سے کام لیجئے۔ میں پھر کہتا ہوں لیڈر بننا آسان کام نہیں ہے۔ میاں صاحب آپ جب لاہور ائر پورٹ پر اترے تو آپکے ساتھ کم از کم بیس صحافی موجود تھے جو زمینی رابطے سے منسلک تھے، کیا کسی باخبر صحافی نے آپکو اسی روز پیش آئے بلوچستان سانحہ کے بارے میں نہیں بتایا؟ مجھے انتظار تھا کہ آپ کی جانب سے کوئی مذمتی بیان جاری ہوتا۔ آخر کو آپ اس ملک کے بڑے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپکو ملک سے زیادہ اپنے ووٹ بنک کی فکر ہے اور چونکہ بلوچستان سے آپکو زیادہ ووٹ نہیں پڑتا اس لیے آپکے نزدیک لاہور کی سڑک پر رکھے کنٹینر کی اہمیت بلوچستان میں شہید ہوئے 120 پاکستانیوں سے زیادہ دکھائی دی۔

فرض کیجئے آپکی جماعت اس الیکشن میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے، عوام آپ کو ہمدردی کا ووٹ بھی ڈال دے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ اور آپکی بیٹی کے بیانیہ کے مطابق اداروں سے محاذ آرائی؟ عوام کو ایک مستقل کشمکش میں ڈال دیا جائے گا؟ کیونکہ یہ ادارے بھی اس مملکت خداداد کی طرح ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔ آپ انہیں یکسر نظر انداز یا پچھاڑ نہیں سکتے۔ آپکے منشور میں چوڑی سڑکیں اور اونچے پُل بنانے کے بجائے اداروں سے بہتر تعلقات بنانے کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔

دوسری جانب ایک ایسا شخص جو کسی قدر عوام میں بھی مقبول ہے اور بقول آپ کے خلائی مخلوق کے کندھوں پر بھی سوار ہے، تو پھر داد دینی چاہیے ایسے شخص کو اس لیے کہ وہ معاملہ فہم ہے اور زیرک ہے۔ اُس کے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ ایسا شخص کیا تبدیلی لائے گا جو محض اپنی بیویاں ہی بدلتا رہتا ہے، میں کہتا ہوں کیا یہ لیڈر کی خصوصیات نہیں کہ وہ کمپرومائز نہیں کرتا بلکہ فیصلہ کر لیتا ہے اور اگر کوئی فیصلہ غلط ثابت ہو تو پھر جھوٹی انا اور “لوگ کیا کہیں گے” کی خاطر اس فیصلے پر اڑا نہیں رہتا بلکہ نیا حل تلاش کرتا ہے، ایسا شخص جو تجربہ کرنے میں عار نہیں سمجھتا، جو پارک میں کسی نوجوان کو باؤلنگ کراتا دیکھ کر قومی ٹیم میں کھیلا لیتا ہے، جو بیمار انضمام الحق کو زبردستی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کو کہتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں اسکی سیاسی زندگی میں بھی موجود ہیں۔ یو ٹرن خان کا خطاب بلاوجہ اسکی ذات سے نہیں جڑا ہوا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسکی شخصیت کا مثبت پہلو ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

الیکشن میں چند دن رہ گئے ہیں اور اس بار میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے انہیں دہراتا ہے۔ جو اپنے ہی اداروں سے محازآرائی کو بہادری سمجھتا ہے، جو برسراقتدار رہتے ہوئے بھی دہائی دیتا ہے کہ اس ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ بلکہ میرا ووٹ اس کے لیے ہے جو عوام اور اداروں کو ساتھ ملا کر چلنا چاہتا ہو، جو دو نہیں، ایک پاکستان کا نعرہ لگاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).