تھائی لینڈ کے غار میں پھنسے بچے کیسے بچائے گئے؟


تئیس جون(2018) کو تھائ لینڈ کے سرحدی قصبے مائ سائ کی دی بورز فٹ بال اکیڈمی کے نو عمر کھلاڑی معمول کی پریکٹس کے بعد گھروں کو نہیں لوٹے. پیراپٹ ‘نائٹ’ سترہ برس کا ہو چکا تھا. اس کی سالگرہ کو یادگار انداز سے منانے کے لیۓ انہوں نے قریبی پہاڑ کے تھام لیونگ نامی غار کا رخ کیا. نو عمر بارہ بچے جن کی عمریں 12 سے 17 سال کے درمیان تھیں اپنے پچیس سالہ کوچ ایکا پول کے ساتھ سائیکلوں پہ سوار تھام لیونگ جا پہنچے.
تھام لیونگ غار کے دہانے پر ایک بورڈ لگا ہے جس پہ خبردار کیا گیا ہے کہ جولائ سے نومبر تک غار کے اندر جانا خطرناک ہو سکتا ہے. برسات کے موسم میں غار میں پانی بھر جاتا ہے. لیکن اب کی بار بارشوں کو تھوڑی جلدی تھی. وائلڈ بورز جب غار کے اندر سالگرہ منا رہے تھے اور خوشی کے گیت گا رہے تھے عین اسی وقت قدرت ان کی خوشی کو دکھ اور خوف میں بدلنے کا ساماں کر رہی تھی. غیر متوقع اور برق رفتار سیاہ بادل امڈ آۓ اور زوروں کی بارش برسنے لگی. پہاڑ پہ برسنے والا پانی نیچے تھام لیونگ میں بھرنے لگا. یوں فٹ بالرز کی واپسی کا راستہ مسدود ہو گیا اور پانی سے بچتے بچتے غار کے اندر چار کلومیٹر تک جانے پر مجبور ہو گۓ.
ان کے پاس ٹارچ لائٹس کے سوا کچھ نہ تھا. وہ تو صرف ایک گھنٹے کے لیۓ آۓ تھے. ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ وہ غار میں پھنس جائیں گے اور پھر سترہ دن تک ان کو ادھر رہنا پڑے گا. آنے والے پل بھی ایک اندھی غار سے ہوتے ہیں. نہ جانے کہاں سے کہاں لے جائیں. تھام لیونگ میں وہ پہلے بھی کئ بار آ چکے تھے. غار کی دیواروں پہ نئ فٹ بال ٹیم کا نام لکھنے کو وہ اچھا شگون سمجھتے تھے. غار سے ان کی آشنائ تھی لیکن اس دفعہ غار کے تیور کچھ بدلے ہوۓ تھے.
مائ سائ کے قصبے میں تھائ لینڈ اور میانمار کی سرحد پہ واقع پہاڑوں کے نیچے تھام لیونگ غار تھائ لینڈ کا چوتھا بڑا غار ہے جو دس کلومیٹر طویل ہے. ‘تھام لیونگ’ نام اس پہاڑ کی نسبت رکھا گیا ہے جو دور سے سوئ ہوئ عورت سا دکھائ دیتا ہے. مائ سائ اور آس پاس کے دیہاتوں میں نانی دادیاں بچوں کو جو دیومالائ کہانیاں سناتی ہیں ان میں پر اسرار تھام لیونگ کا تذکرہ بھی ہوتا ہے. برسات میں غار کے اندر سولہ فٹ تک پانی بھر جاتا ہے. پر خطر اور پر پیچ ایسی کہ منجھے ہوۓ غوطہ خور بھی پناہ مانگیں.


مائ سائ گاؤں کے لوگ یہ سب جانتے تھے اسی لیے بچے جب گھر نہیں لوٹے تو انہوں نے غار کا ہی رخ کیا. غار کے منہ پر بچوں کے سائیکل, بیگ اور فٹ بال شوز پڑے ملے. بے رحم پہاڑ نے انہیں نگل لیا تھا. وائلڈ بورز کے دل پہ کیا گذری اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے. یہ تو بس وہی جانتے ہیں.
اک جلنے کے سوا اور کوئ کیا جانے
حالتیں کتنی گزر جاتیں ہیں پروانے پر
وائلڈ بورز نے ہمت نہیں ہاری تھی. وہ زندہ رہنے کے لیے پر عزم تھے. انسان کا یہ خاصہ ہے کہ وہ آخری سانس تک موت سے لڑتا ہے. ہیمنگ وے نے اپنے ناول ‘سمندر اور بوڑھا آدمی’ میں لکھا ہے کہ ‘انسان کو تباہ تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے شکست نہیں دی جا سکتی’.
غار میں بچے پانی سے بچتے ایک نسبتا اونچے تودے پہ جا رکے. پتھروں کی مدد سے ایک گڑھا کھودا تا کہ ایک دوسرے سے لپٹ کر سونے سے سردی سے بچا جاۓ. کوچ ‘ایکی’ پہلے کبھی مذہبی سادھو رہا تھا. اس نے بچوں کو پر سکون رہنا سکھایا اور آرام سے لیٹے رہ کر توانائ بچانے کی تلقین کی. اچھا ہوا کہ کوچ ان کے ساتھ تھا. گویا بھیڑیں بھٹک گئیں اور مصیبت میں پھنس گئیں لیکن چرواہا ساتھ تھا. اس سے انہیں حوصلہ ملا. زندگی کی ڈوری امید کے دھاگے کے ساتھ بندھی رہی.
قسمت کے کھیل انوکھے ہوتے ہیں. ایک طرف قسمت نے ان کا زندہ بچنا مشکل کر دیا اور دوسری طرف سانسیں چلتی رہنے کے کچھ اسباب بھی مہیا کر دئیے. بچوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا مگر غار کی دیواروں سے رستے صاف پانی کے قطرے پینے کو میسر تھے. گھپ اندھیرے میں ٹارچز کی موہوم سی کرنیں بھی تھیں. نا امیدی کے اندھے غار میں امید کی مدھم سی چند کرنیں.

ہماری ابتدائ جماعت میں اردو کی کتاب میں ایک سبق ہوتا تھا ‘غار کا پتھر’. کچھ بچے بارش سے بچنے کے لیۓ غار میں پناہ لیتے ہیں. وزنی پتھر لڑھکتا آتا ہے اور غار کا منہ بند ہو جاتا ہے. غار میں پھنسے بچے اپنے نیک اعمال یاد کرتے ہیں اور پتھر سرکتا جاتا ہے اور راستہ کھل جاتا ہے. وائلڈ بورز نے نہ جانے کیا کیا یاد کیا ہو گا. فٹ بال کھیلنے والے ان کم عمر بچوں کے گناہوں کے پلڑے میں تو کچھ بھی نہ ہو گا.
فٹ بال کے میدان میں کوچ کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ بیدار کرتا ہو گا. آخری لمحات تک کوشش کرنے اور ہمت نہ ہارنے کی مشق کرواتا ہو گا. میچ جیتنے کے لیے لگاتار محنت اور جیت کی امید بناۓ رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے. مگر غار میں صورتحال گراؤنڈ سے یکسر مختلف تھی. یہ فٹ بال کا میچ نہیں تھا. زندگی اور موت کی بازی تھی.
غار کے باہر تھائ نیوی سیلز, پولیس, ریسکیو ٹیمیں اور مقامی لوگ اس تگ و دو میں تھے کہ معلوم کیا جاۓ وائلڈ بورز کہاں ہیں. زندہ بھی ہیں یا نہیں. پانی مسلسل غار کے اندر بھر رہا تھا. کیا کیا جاۓ؟
بادلوں کو ہاتھ جوڑ کر برسنے سے روکنا ممکن نہیں. بچوں کے والدین نے ایسا بھی کیا ہو گا. تجویز تھی کہ غار کا متبادل راستہ کھودا جاۓ. ڈرون اور سنسرز کی مدد سے سراغ لگایا جاۓ. مگر ٹیکنالوجی بھی اس معاملے میں مدد نہ کر سکی. بے بسی سی بے بسی تھی!
پانی کے اخراج کے لیے پمپ نصب کیے گۓ. مقامی لوگوں سے غار کے متعلق معلومات جمع کی گئیں. وائلڈ بورز کا ایک کھلاڑی جو اس بار ساتھ نہیں گیا تھا اس نے بتایا کہ غار کے اندر ‘پتایا ساحل’ نامی مقام تک ہم چلے جاتے تھے. بچوں کی تلاش کے ہر ممکن راستے کے بارے سوچا جانے لگا.
غار میں پھنسے بچوں کے اہل خانہ ہر وقت غار کے سامنے موجود رہے. وہ ایک ہی کام کرتے ہوں گے. بچوں کی زندگی کی دعا. بچوں کی مائیں ہر روز پہاڑ پہ پھل, پھول اور اگر بتیوں کے نذرانے دیتیں اور موم بتیاں جلاتیں. ہاتھ جوڑ کر آنکھیں موندھے غار کی دیوی سے تیرہ بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتیں. مائیں بچاری اور کیا کر سکتی تھیں!


بچوں کے کلاس فیلوز اور سکول کے دوست دعائیں مانگتے اور ہمت بڑھانے کے گیت غار کے دہانے پہ کھڑے ہو کر گاتے. سکول کے نوٹس بورڈز پہ امید بھرے پیغامات چسپاں کرتے.
مائ سائ گاؤں کے لوگ بھی مدد کو موجود تھے. پیسوں کے عطیات دئیے. کھانے کے انتظامات کیے. غوطہ خوروں کے کپڑے دھونے اور انہیں ٹرانسپورٹ جیسی خدمات فراہم کیں.
غار میں پھنسے بچوں کی خبر مائ سائ سے پورے ملک اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئ. ملکی و غیر ملکی رضا کار تھام لیونگ کی طرف کھنچے چلے آۓ. برطانیہ, آسٹریلیا, امریکہ, بیلجئیم اور دیگر ملکوں سے غاروں کے ماہر غوطہ خور پہنچ گۓ. ان غوطہ خوروں کو سخت حالات کا سامنا تھا. پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی تھی. غار کے راستے تنگ اور خطرناک تھے. بھول بھلیوں کا جال بچھا تھا.
یکم جولائ بروز اتوار غار میں پھنسے بچوں میں سے ایک بچے ‘نوٹ’ کی سالگرہ کا دن تھا. لیکن بچے غار کی تاریکی میں دن رات اور وقت کا شعور کھو چکے تھے.
دو جولائ پیر کے دن برطانوی غوطہ خور جوہن وولنتھن اور رک سٹینٹن بچوں کی تلاش میں ‘پتایا ساحل’ جا پہنچے. مگر بچے اس مقام پہ بھی موجود نہ تھے. لیکن یہاں سے تھوڑا آگے انہوں نے بچوں کی موجودگی کو سونگھ لیا تھا. بلاآخر وہ بچوں تک پہنچ گۓ. جوہن نے پوچھا ‘آپ کتنے ہیں؟’ جواب ملا ‘تیرہ’
‘تیرہ؟ بہت خوب!’
غوطہ خوروں کی خوشی کی انتہا نہ تھی.
بچے مل گۓ تھے. سب زندہ بھی تھے. انسان دوست اور ہمدرد غوطہ خوروں نے بچوں سے بات چیت کی. ان کا حوصلہ بڑھایا. ان کے پاس ٹارچ لائٹس چھوڑیں. اپنے کیمروں میں بچوں کی فلم بنائ اور نیٹ پر اپلوڈ کر دی. چند سیکنڈز کی ویڈیو کیا تھی خوشی کا سندیسہ تھا. دنیا بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئ. بچوں نے اپنی بھوک کا ذکر کیا تھا. اور ایک سوال پوچھا تھا ‘ہمیں کوئ بچانے آۓ گا؟’.
ان میں سے ایک اور لڑکے ‘ڈوم’ کی سالگرہ بھی غار کے اندر ہی گزر گئ.
اب مسئلہ یہ تھا کہ پانی سے بھرے, پر پیچ, پر خطر, تنگ اندھیرے چار کلو میٹر طویل راستوں سے ان بچوں کو کیسے باہر نکالا جاۓ. یہ سفر تو ماہر ڈائورز کے لیے بھی جان جوکھوں کا کام تھا.
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دنیا بھر کا میڈیا پل پل کی خبر نشر کر رہا تھا. غار کے سامنے ایک قصبہ آباد ہو چکا تھا. کھانوں کے اسٹال اگ آۓ تھے.


بچوں کو نکالنے کا جذبہ جواں تھا جب ایک حادثہ رونما ہوا. چھ جولائ کا دن تھا. تھائ نیوی سیلز کا غوطہ خور سمن گونان غار میں آکسیجن کے ٹینک پہنچا کر لوٹ رہا تھا کہ اپنی آکسیجن کم ہونے سے بے ہوش ہو گیا. اس کا ساتھی اسے باہر کھینچ لایا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا. انسان بھی عجب مخلوق ہے. مارنے پہ آۓ تو گولیوں اور بموں سے ان گنت انسانوں کو بے رحمی سے بھون دے. بچانے پہ آۓ تو اپنی جاں بھی نچھاور کردے. وہ جانباز غوطہ خور 38 برس کا تھا. اس کی بیوی کے مطابق ‘سمن کہا کرتا تھا کہ نہ جانے کب ہم نے دنیا چھوڑ جانا ہے لہذا ہر دن کو جی بھر کے جینا چاہیے’. اپنی زندگی کے آخری دن اس نے دوسروں کی زندگی بچانے میں صرف کیے تھے. جی بھر کے جینا شاید اسی کو ہی تو کہتے ہیں.
میری خواہش ہے کہ میں اس جان کی قربانی دینے والے عظیم انسان کی قبر پر پھول کی پتیاں رکھوں اور بدھا سے التجا کروں کہ اسے خوبصورت مقام پہ رکھے.
سمن ایک تجربہ کار, سخت جان, صحت مند غوطہ خور تھا. تھام لیونگ نے اس کی بھی جان لے لی. بچوں پہ کیا بیتے گی. سمن کی موت سے یہ تشویش پھیل گئ کہ ناتجربہ کار کم عمر بچے یہ مشکل سفر کیسے کاٹیں گے. غار میں آکسیجن کی مقدار اکیس فیصد سے پندرہ فیصد تک آ گئ. نا امیدی کی گہری رات میں بچوں کو زندہ نکالنے کی امید کی ایک ہلکی سی کرن تھی. اسی ایک کرن کے سہارے سب لوگ جڑے تھے.
تین آپشنز زیر غور تھے. (1) بچوں کو غوطہ خوری کی ٹریننگ دے کر باہر نکالا جاۓ. (2) پانی کو غار سے نکالا جاۓ اور موسم کے بہتر ہونے کا کئ ماہ تک انتظار کیا جاۓ. (3) غار کا کوئ اور راستہ ڈھونڈا جاۓ یا بنایا جاۓ.
کوئ بھی کام آسان نہیں تھا.


رضا کار متبادل راستے تلاش کرنے میں جتے تھے. غوطہ خوروں نے سوئمنگ پولز میں مقامی بچوں کے ساتھ مشقیں بھی شروع کر دی تھیں.
چھ جولائ کو بچوں نے کاغذ کے ٹکڑوں پہ اپنے والدین کے لیے پیغامات بھیجے. بچوں نے لکھا کہ ہم ٹھیک ہیں آپ پریشان نہ ہوں. محبت بھرے دل اور ہنستے چہرے بنا بھیجے تھے. ایک بچے نے لکھا کہ ٹیچر ہمیں زیادہ ہوم ورک نہ دینا ابھی. کچھ نے اپنی پسندیدہ کھانوں کی فرمائشیں لکھ بھیجی تھیں.
بچوں کے والدین نے کاغذ کے ان ٹکڑوں کو پوجا ہو گا. لفظوں کی روشنائ آنسو گرنے سے پھیل گئ ہو گی.
کوچ نے بچوں کے والدین سے معافی مانگی تھی.
سات جولائ کو جب بچے غار میں ٹھیک دو ہفتے گزار چکے تھے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بچوں کو جلد از جلد نکالنے کی کوشش کی جاۓ. مائ سائ پہ بارش ذرا تھم گئ تھی. مقامی لوگوں کے مطابق دس جولائ تک تھام لیونگ غار پانی سے بھر جاتا ہے. وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا. آپریشن مشکل تھا. گھنٹوں یخ بستہ پانی, تاریک و تنگ راستوں میں غوطہ خوری آسان نہ تھا. کچھ جگہیں اتنی تنگ کہ ائیر ٹینک اتار کے گزرنا پڑتا تھا. لیکن سو سے زائد غوطہ خوروں کے حوصلے آسماں کو چھو رہے تھے.
تین دنوں میں, تین مراحل میں تمام بچوں کو بحفاظت نکال لیا گیا. دس جولائ کو آپریشن مکمل ہوا. اسی دن غار میں پانی کی سطح پھر سے بڑھنے لگی تھی.
غار میں پھنسے بچوں کو نکالنے کا آپریشن ایک معجزہ تھا. انسانی ہمدردی, تعاون اور محبت کی اعلی مثال تھی.
نا امیدی کی گھپ اندھیری رات میں امید کی جس ہلکی سی کرن کو سب نے تھامے رکھا تھا اسی کرن سے ہی اجلی صبح پھوٹ نکلی تھی.

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti