یہ ”عسکری جھولے“ نہیں آسان اتنا ہی سمجھ لیجے


عسکری پارک میں جھولا گرنے کا واقعہ کافی افسوسناک ہے کیونکہ اس شہر میں بحیثیت رپورٹر میں نے تو کوئی ایسی تفریح گاہ نہیں دیکھی جہاں عوام جائیں اور خوشی سے واپس گھر کو لوٹیں۔ کبھی جو گلی محلے یا علاقے کے اچھے پارک ہوا کرتے تھے ان پر چند سال قبل سیاسی جماعتوں نے اپنے ابا کی جاگیر جیسا حق جتایا اور پھر اس پر شہداء کا نام استعمال کر کے پلازے کھڑے کر دیے جو پارک قبضوں سے بچے وہ ویرانی اور اداسی کی داستان بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پھر رہ جاتا ہے وہ سی ویو جہاں یومیہ ہزاروں گیلن آلودہ پانی سمندر میں پھینکا جاتا ہے لیکن بیچاری عوام کے پاس اس کے سوا کوئی سستی تفریح گاہ نہیں۔ تب ہی جب خبر آئی کہ کراچی میں پرانی سبزی منڈی کے ساتھ بنے عسکری پارک کو اب عسکری امیوزمنٹ پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے تو سوچا چلو کچھ تو اس شہر کی عوام کو بہتر تفریح گاہ میسر آئے گی۔ لیکن وہاں جانے والے خاصے مایوس ہوئے۔ کیونکہ اس پارک میں لگے جھولوں کے ٹکٹ اتنے مہنگے رکھے گئے ہیں جیسے یہ ٹکٹ جھولوں کہ نہیں پارٹی ٹکٹ ہوں

اب وہ بیچارہ متوسط طبقے کا خاندان جو خاندانی منصوبہ بندی کو فضول اور اولاد کو خدا کا ایسا فضل سمجھتا ہو جو جتنا ہو کم ہو، اس کی جیب یہاں جاکر خالی اور بچوں کی ضد پر رخسار سے لالی جاتی دکھائی نہیں دے گی یہاں جاکر کئی باپ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ ان کی تنخواہ کب سے نہیں بڑھی یا انھوں نے اولاد کے ا فزائش پر عقل سے کام کیوں نہیں لیا خیر ہمیں کیا؟ ہمارے ملک کی اکثریت کے مطابق اگر اس ملک کی آبادی زیادہ ہو گی تو پڑوس بھی اس جانباز اور دلیر قوم سے ڈر کر رہے گا۔

بات ہو رہی تھی حادثے کی تو جناب ماضی میں ایسی کافی مثالیں موجود ہیں کہ ایسے واقعات ہوئے، انتظامیہ قصوروار بھی ٹھہرائی گئی لیکن بعد میں کوئی اور ایسی سیاسی ہلچل مچی کہ سب بھول بھال گئے کہ ہوا کیا تھا؟ 2014 میں سی ویو پر پچاس نوجوانوں کے ڈوبنے کا واقعہ معمولی نہ تھا نہ یہ بات معمولی تھی کہ ان دنوں اس مقام سے سمندری ریت رات بھر چوری کی جارہی تھی جس میں اس ملک کی سب سے معزز اور پاک صاف تعمیراتی کمپنی ملوث تھی جس کے نام پر لوگ یہ سوچ کر ایمان لائے کہ یہ بھی عسکری تعمیراتی کمپنی ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ دوران آپریشن نیوی کے غوطہ خوروں نے حصہ لیا اور سوائے ایک کے تمام لاشیں ان کے ورثاء کے حوالے کیں تاہم جب کچھ غفلت کے شواہد میڈیا تک پہنچے تو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے کچھ لوگوں نے گہری سانس لے کر اسے دائیں بائیں کردیا کہ کہیں اپنے پلاٹ منسوخ نہ ہوجائیں۔

چھوڑیں جی جانے دیں بات ہورہی تھی عسکری پارک کے جھولوں کی اب دیکھیں نہ اس حادثے کی ٹائمنگ بھی کمال کی ہے الیکشن سر پر ہیں، شریف خاندان اندر ہے تو کیا ہوا کہ ایک جھولہ گر گیا زیادہ جانیں تو نہیں گئیں ناں؟ ویسے بھی اللہ نیک روحوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اب دیکھیں مستونگ میں کتنی جانیں ضائع ہوئیں؟ خبر کب چلی؟ اس روز سب سے اہم کیا تھا؟ بھول گئے آپ؟ چلیں اسے بھی چھوڑیں دوبارہ عسکری پارک پر آجائیں جب یہ واقعہ ہوا تو اگلے دو تین گھنٹوں تک ملک کے مانے جانے چینلز ٹکرز یہ چلاتے رہے کہ ”پرانی سبزی منڈی سے متصل پارک میں جھولا گر گیا، کئی افراد زخمی“ میں نے جب اسکرین پر دیکھا تو اپنے ایک دوست سے کہا کہ الیکشن کا دور ہے سینسر شپ عروج پر ہے اب میڈیا اس سے زیادہ کیا پھونک پھونک کر قدم رکھے کہ ٹکرز میں عسکری پارک بھی نہیں لکھ رہا کہ کہیں نیک روحیں ناراض نہ ہوجائیں۔

پھر صبح خبر میں عسکری پارک کہا جانے لگا یقینا بڑی سوچ بچار، پوچھ گچھ اور چینل پر آنچ نہ آنے کی گارنٹی لے کر لکھا گیا ہوگا۔ افسوس جو بچی جان سے گئی وہ کتنی خوش ہوگی کہ گھٹن اور تعفن زدہ شہر میں ایک ایسی جگہ سانس لینے کو ملی جہاں اسے جینے کا احساس ملے گا۔ آج اس کی سہیلیاں اسے سوشل میڈیا پر خوش دیکھیں گی تو اگلی بار وہ ان کو یہاں ساتھ لانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جو جھولے پیسے کم یا ختم ہونے پر نہیں جھول پائی اگلی بار ان کی باری آجائے گی جب تک کچھ توڑ جوڑ ہوجائے گی۔ لیکن جھولا ٹوٹ گیا، خواب بکھر گئے اور وہ قہقے جو تھوڑی دیر پہلے گونج رہے تھے خوفناک چیخوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوگئے۔

اس واقعے سے کیا سبق حاصل ہوا؟ نام پر نہ جائیں ملاوٹ یہاں بھی ہوتی ہے۔ اعتبار جہاں زیادہ ہو ٹھیس وہیں پر لگتی ہے لیکن وہ کیا ہے ناں کہ ہم سمجھتے ہیں جن کا کام ہماری حفاظت ہے وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالیں تو مٹی سونا بن جاتی ہے کیونکہ ہمارے نزدیک صرف یہ ہی تو باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتے ہیں۔ اسی بات نے ہی تو آج نوبت یہاں تک پہنچائی کہ کاروبار ہو یا جائیداد، ناشتے کی میز پر کارن فلیکس ہو یا زمین پر اگنے والی فصل کی کھاد، نجی پرواز ہو آٹا، چاول دال ہو یا شادی کا ہال، تیل سیمنٹ یا پھر شکر کا کاروبار ان سب میں ہمارے اعتماد کے سبب عسکریت کو اپنا حصہ ڈالنا پڑا ورنہ ان کا ہرگز ارادہ نہیں تھا یہ تو بڑی بات ہے کہ انھوں نے اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر عوام اور اس ملک کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کاروبار شروع کیے جن کا مقصد صرف اور صرف عوام الناس کی فلاح ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ قوم صرف انھی پر بھروسہ کرتی ہے اور کسی پر نہیں۔

لیکن اب یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ عسکری جھولے اتنے پائیدار نہیں، عوام کو تو شاید اس حادثے سے سبق مل جائے لیکن موسمی، برساتی سیاستدان اور الیکٹیبل لوٹے ابھی سمجھ نہیں پارہے انھیں ان 360 کے زاویے سے جھولتے جھولوں پر سوار ہونے کا جو مزہ آرہا ہے وہ بعد میں کتنی تکلیف میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے عام عوام تو پانچ سو کا ٹکٹ لے کر جھولا جھولتے ہوئے بھی جیب ٹٹولیں گے۔ لیکن جنھیں 25 جولائی 2018 کے لئے ” ان لیمیٹڈ رائڈ بینڈ“ باندھ دیا گیا ہو انھیں جیب ٹٹولنے کی کہاں ضرورت؟ انھیں تو جھولے کی سواری کے بعد صرف ”جیپ“ ہی نظر آئے گی۔ یہ تو تب پتہ چلے گا جب مفت کی سواریوں کے بعد او ر ایک بار اور، ایک بار اور کی رٹ لگانے والے سر چکراتے اور الٹیاں کرتے دکھائی دیں گے اور یہ کہنے کے بھی لائق نہیں رہیں گے کہ یہ ”عسکری جھولے ” انھیں خاصے مہنگے پڑ رہے ہیں۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar