عمران خان کی دیوانگی کے دن اور ان کا پٹھا


مجھے تو کرکٹ سے ایک ٹکے جتنی بھی دلچسپی نہیں ہے پر یہ کیا ہے میں اپنی جتنی بھی پرانی ڈائریاں دیکھتی ہوں تو اس میں کرکٹ عمران خان اور جاوید میانداد کے قصے بھرے پڑے ہیں۔
کلاس 7سے لے کر کالج تک پاکستان کا سالوں کا کرکٹ کا ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں کتنے رن آؤٹ ہوئے، کتنے وائٹ بال، چھکے چوکے وکٹیں سبھی کچھ موجود ہے۔ یہ سب کچھ میری ڈائریوں میں پھیلا ہوا ہے۔ جو کبھی نیلی پین سے تو کبھی سرخ پین سے لکھی ہیں اور کہیں کہیں تو پنسل سے لکھا ہے۔ سچ مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ کبھی میں کرکٹ کی اتنی دیوانی رہی ہوں۔ عمران خان اور جاوید میانداد ہی میرے فیورٹ کرکٹر معلوم دیتے ہیں کبھی کہیں کسی اور کا بھی ذکر لکھا ہے۔

جب کرکٹ کا موسم شروع ہوتا ٹیوی اور ریڈیو پر مستقل کمنٹری چلتی رہتی۔ میچ جتنے کا شوق سے انتظار رہتا۔ اگر پاکستان ہار جاتا یا خاص طور پر انڈیا سے ہارتا تو سو گ میں کھا یا پیا ہی نہیں جاتا تھا۔ زندگی بوجھ محسوس ہوتی کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہتی تھی۔ پورے پانچ دن سارا وقت ٹیوی سے لگ کے بیٹھے رہتے تھے اور اتنے انتظارکے بعد میچ اگر ڈرا ہوتا تو بھی دل کا حال برا ہوتا۔ چہرے اترے محسوس ہوتے۔

ایک دفعہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی تو اس میں موجود ایک باؤلر گارنر کا قد 7 فٹ تھا۔ یہاں کسی ہوٹل میں اتنا بڑا پلنگ نہیں تھا تو ان کے لئے قد کے اعتبار سے پلنگ بنوانا پڑا۔
کرکٹ میں چائے کے وقفے پر نغمے دکھائے جاتے۔ یہ اکثر نورجہاں اور ناہید اختر کے ہوتے۔ اکثر نورجہاں کی غزل دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا دکھائی جاتی تھی اب تو نورجہاں خواب ہوئی۔

انہی دنوں کرکٹ سے متعلق رسالہ اخبار وطن بہت مقبول تھا۔ اس رسالے کے مدیر منیر حسین تھے۔ ہم لوگ اس رسالے میں خط لکھا کرتے تھے جو عمران خان اور جاوید میانداد کی تعریف سے بھرے ہوتے۔ خاص طور پر ایک بڑی ذمہ داری سمجھ کے اس رسالے کی ایڈریس پر ہر عید پر عمران خان کو عید کارڈ بھیجا کرتے۔ عیدکارڈ کا زمانہ تھا نا۔ میرا خیال ہے اخبار وطن والے یہ کارڈ بوریوں میں بھر کر عمران خان کو دے آتے ہوں گے۔

میری چھوٹی بہن تو یہ نیک کام بغیر کسی ناغے کے سالوں تک کرتی رہی۔ کالج میں یہ عالم تھا کہ ہر ایک لڑکی کے پاس عمران خان کے پوسٹ کارڈ سائیز کے بنڈل جمع ہوتے تھے۔ یہ فوٹو والا کارڈ ایک روپے میں ملا کرتا تھا۔

ایک دفعہ جب کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں میچ ہورہا تھا تو ہم نے بھی یہ میچ لائیو دیکھنے کا تہیہ کیا۔ سخت سردی کا موسم تھاہم لوگ اپنے شہر سے صبح پانچ بجے چلنے والی ٹرین میں نکلے تھے۔ ٹرین میں سردی نے ہمارا بہت ہی برا حال کیا تھا اسی طرح چار پانچ گھنٹے میں کراچی کے کینٹ اسٹیشن تک پہنچے۔

ہم ٹیکسی میں نیشنل اسٹیڈیم تک پہنچے گیٹ کے سامنے ہی ریسٹورینٹ تھا سوچا چائے پی کر پھر ہی جاکے ٹکٹ لیں۔ ہم ابھی چائے پی ہی رہے تھے کہ دھڑا ڈھڑ فائرنگ ہونے لگی ہم خوفزدہ ہوکے باہر نکل آئیں۔ گیٹ سے ایک بھاگتا دوڑتا ہجوم برآمد ہوا۔

جو بھی بس سوزوکی سامنے سے گزرتی لڑکے لٹک لٹک کر بھاگ رہے تھے۔ ہم ٹیکسی تلاش کرنے لگے ٹیکسی ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی اچک لی جاتی۔ دکاندار اپنی اپنی دکانوں کے شیلٹر تیزی سے گرا رہے تھے۔ ہم پریشان اور ڈری ہوئی تھیں ایک دکاندار نے ہمیں دیکھا تو کہا آپ یہاں مت کھڑی ہوں حالات خراب ہونے والے ہیں گاڑی کی چابی دیں تو آپ کو کچھ آگے لے جاکے چھوڑوں۔ ہم نے اس کو بتایا کہ ہمارے پاس گاڑی نہیں ہے اس نے شیلٹر پھر اوپر اٹھایا اور کہا یہاں آپ کو خطرہ ہے آپ میری شاپ کے پچھلے دروازے سے گلی میں نکل جائیں۔

ہم بدحواس تھیں ہم نے ان کے کہنے پر عمل کیا اور پچھلی گلی میں نکل آئیں۔ یہاں سب عورتیں اپنے بنگلوں سے نکل آئی تھیں ان میں سے کچھ رو رہی تھیں کہ سب کے بچے کرکٹ دیکھنے گئے تھے۔ وہ لوگ ہم سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہوا ہے۔ کیا بتاتے ہمیں خود کچھ نہیں معلوم تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا کہ کراچی میں بدامنی شروع ہوئی تھی اور بڑھتی چلی گئی۔ امن کا پنچھی نہ جانے کہاں اڑ کے جا بیٹھا تھا۔ پھر تو یہ روز کا معمول ہوگیا۔ کرکٹ بھی جاری رہی۔

عمران خان انڈیا میں میچ کھیل رہے تھے ساتھ ہی انڈیا کی مشہور اور خوبصورت ہیروئن زینت امان کے ساتھ افیئر چلا رہے تھے۔ ساتھ ہی عمران خان کا پٹھا بھی چڑھا ہوا تھا۔ پاکستان کے علاوہ انڈیا میں بھی وہ لڑکیوں کے مقبول ترین کرکٹر تھے۔ یعنی یہاں اور وہاں کی لڑکیاں ان کا پٹھا اترنے کی دعائیں کرنے لگیں جو اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ کرکٹ بورڈ اتنا پریشان نہیں تھا جتنا لڑکیاں تھیں۔

پوری دنیا کی نظریں عمران خان کے پٹھے پر لگیں تھیں انہی دنوں مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی چلا کرتا تھا۔ جس میں اسماعیل تارا اور ماجد جہانگیر نے ایک قوالی گائی تھی۔ ارے عمران تجھے ہوا کیا ہے تیرے درد کی دوا کیا ہے۔ عمران خان خوش قسمت ثابت ہوا اور ورلڈ کپ جیت کے لایا۔

اپنی ماں کے انتقال کے بعد جو کینسر جیسے موذی مرض سے ہوا تھا اس نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے لئے چندہ اکھٹا کرنا شروع کیا۔ یہ عمران خان کی مثبت سوچ تھی۔ ورنہ تو اپنی ماں کی محبت میں ایک خوبصورت مقبرہ بنادیتے۔ ہسپتال میں یقیناً ہزاروں مریضوں کا علاج ہوتا ہوگا۔ اور ہوتا رہے گا یہ عمل قابل تعریف ہے۔ کہ درد سے سسکتے ہوئے مریض کو سکون آتا ہوگا تو دل سے دعا نکلتی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).