عمران خان اگر ہارے تو کیوں ہاریں گے؟


عوام نے کپتان کا جو وقت اباسین کے کنارے طے کیا تھا، وہ جہلم کے کنارے خرچ ہوگیا۔ جو وقت بچا اس میں صرف یونیورسٹی روڈ کا سینہ ہی چاک کیا جاسکتا تھا۔ گزرا ہوا وقت لوٹ سکتا تو یہ پشاورکے ادھڑے ہوئے چاک سی لیتے۔ اب جو وقت بچا تھا اس میں پہلے برس کی سرگرمیوں کو بمشکل تمام سنبھالا دیا جاسکتا تھا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں جو اصلاحات ہوئیں ان اس کا اعتراف نہ کرنا کم ظرفی ہوگی، مگر اس کا تقابل پنجاب سے نہ کرنا بدفہمی ہوگی۔ کپتان مسلم لیگ کو چاروں خانے چت کرکے پنجاب کو فتح کرنا چاہتے تھے، اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کو تعلیم اور صحت کے شعبے میں پنجاب سے دو پاوں آگے نکلنا تھا۔ کے پی حکومت آگے تو کیا نکلتی، پیچھے بھی ڈھنگ سے نہ رہ سکی۔

پانچ برس میں آپ نے کتنے کالجوں کی بنیاد رکھی اور کتنی جامعات تعمیر کیں؟ پہلے سے موجود کتنی جامعات کے گیسو سنوارے؟ پانچ برس میں آپ نے کتنے ہسپتال تعمیر کیے؟ پہلے سے موجود کتنے ہسپتالوں کی آنکھ میں سرمہ بھرا؟ کتنا رقبہ بجلی کے چراغوں سے روشن ہوا اورسڑکوں کے طول وعرض میں کتنا اضافہ ہوا؟ جواب میں پی ٹی آئی کے پاس سوائے خاموشی کے کچھ نہیں۔ مسلم لیگ کے پاس اس سوال کے جواب میں ایک فہرست ہے، جو پی ٹی آئی کو اس وقت کا ماتم کرنے پر مجبور کررہی ہے جو پنجاب کی فضاوں میں کہیں تحلیل ہوگیا۔

ایسا نہیں کہ پی ٹی آئی کے نامے میں ووٹروں کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کہنے اور بتانے کو بہت کچھ ہے، مگر خان صاحب نے ایک جنبشِ انگشت پرپنجاب میں اتنی گرد اڑادی کہ پختونخوا اس میں کہیں دھندلا گیا ہے۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ آپ میٹرو جیسا منصوبہ دکھانا تو چاہتے ہیں مگر دکھا نہیں سکتے۔ دکھانا اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ واقعی ایک بڑا منصوبہ ہے کہ آخر کو فائدہ عوام نے ہی اٹھانا ہے۔ دکھا اس لیے نہیں سکتے کہ اس منصوبے پر اترانا دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ راہ ایک منطقی راہ تھی جس پر پنجاب حکومت چلی تھی۔

کعبہ وکلیسا کے بیچ اپنی روح کویوں بھٹکانے کے ذمہ دار خود کپتان ہیں۔ اگر وہ ہارے تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہ ہوگی کہ عوام گدھے ہیں۔ وجہ یہ ہوگی کہ دستِ غیبی نے انہیں چین سے جینے نہ دیا۔ غیبی طاقتوں پر بھروسہ کرکے پہلوں نے کیا اگا لیا تھا جو کپتان اگانے چلے تھے۔

تخت ِ لاہور کی بنیادوں میں کوئی چیز پانی چھوڑسکتی تھی تو وہ کپتان کی ذاتی خوبیاں ہوسکتی تھیں۔ مگر وہ پھر سے سہارا لے رہے ہیں ان خامیوں کا جو اب کچھ ایسی خامیاں بھی نہیں رہیں۔ اس ہنگامہ دہر میں کپتان نظام تو درہم برہم کر پائے، قیامت ہوگی اگر اقتدار کی پالکی اپنے نام نہیں کرپائے۔ کپتان نے محتسب کے قلم پر آسرا کیا اور کوتوال کی چھڑی پر سہارا کیا۔ خاکم بدہن! انتخاب کے بعد کے منظرنامے میں ڈھاک کے وہی تین پات اگر ہاتھ میں ہوئے توخلق خدا کی یہ آواز وقت کا سینہ چیر کر نہان خانہ ِ دل پر گرے گی کہ کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا۔ خاموشی چلا اٹھے گی کہ روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2