کیا عمران خان معافی مانگیں گے؟


الفاظ کتنی طاقت رکھتے ہیں، اس کا اندازہ ان کی پھیلائی گئی تباہکاریوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ آپ اپنے خاندان کے جھگڑے دیکھ لیں، سب کی جڑ کوئی نہ کوئی سخت لفظ یا بات ہی نکلےگی۔ ایک غلط لفظ پر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، بندوقیں نکل آتی ہیں اور خون خرابہ تک ہو جاتا ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ لفظوں کا استعمال دیکھ بھال کر کرنا چاہیے۔ ہمارے سیاستدانوں کے بیانات سن کر ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ان کا سیانوں سے چھتیس کا آکڑہ ہے، مجال ہے کبھی انہوں نے کوئی سیانی بات کی ہو یا کسی سیانے کی بات پر عمل کیا ہو۔

الیکشن صرف ایک ہفتے کی دوری پر ہیں۔ سیاستدان جگہ جگہ جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ ان جلوسوں کو پاور شو بنانے کے لیے اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ہر امیدوار کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے الفاظوں سے تہلکہ مچا دے۔ کچھ ایسا بول دے جو اگلے دن ہر اخبار کی شہہ سرخی بن سکے۔ اس کوشش میں مخالف پارٹی کی باتوں کا جواب سخت سے سخت الفاظ اور گھٹیا سے گھٹیا انداز میں دیا جاتا ہے۔ اس سے مجمع تو متحرک ہو جاتا ہے، انہیں ووٹ بھی مل جاتے ہیں لیکن مجمع کی جو تربیت ہوتی ہے اس کے اثرات سالوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیرمین عمران خان نے نارورال میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اپنے اس خطاب میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنان کو گدھا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”جو کارکنان نواز شریف کا استقبال کرنے ائیرپورٹ پر جائیں گے وہ گدھے ہوں گے“۔ اگلے ہی روز سوشل میڈیا پر ایک گدھے کی تصویریں وائرل ہونا شروع ہو گئیں جسے کچھ لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ گدھے کے اوپر نواز لکھا گیا تھا۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اس گدھے کے چہرے اور پیٹ میں متعدد بار مکے مارے گئے۔ اس کے چہرے پر زخم کے نشان واضح دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ ناک بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ جسم پر رسیوں کے نشان ہیں اور ایک گاڑی سے ٹکر مارنے کے نشانات بھی واضح ہیں۔ یہ پی ٹی آئی سپورٹرز کا کام ہے جنہیں بے شک عمران خان نے ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا مگر ان کے الفاظ ضرور ان کے اس گھناؤنے عمل کی تحریک بنے۔

عمران خان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو کہ لازمی ان کی نظر سے گزری ہوگی مگر پھر بھی اپنے ایک جلسے میں انہوں نے رانا ثناء اللہ کو گدھا قرار دے دیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کے ایک بیان پر لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی جس سے اگر کوئی متاثر ہو گیا تو حوروں سے جلد از جلد ملنے کے شوق میں رانا ثناء اللہ کی جان بھی لے سکتا ہے۔

الفاظ کی اس دوڑ میں صرف عمران خان ہی قصوروار نہیں ہیں بلکہ کئی دیگر سیاستددان بھی ان کے مقابلے پر دوڑ رہے ہیں۔ ایک جلسے میں سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے کہا کہ ”جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں وہ اپنی قوم کو بے عزت کر رہے ہیں، خدا کے لیے جائیں اور ان لوگوں سے کہیں کہ بے غیرتو! اس سے تو بہتر ہے کہ اپنی بیویوں کو بازار میں بٹھا کر دھندا کروا لو۔ یہ جو میں اس علاقے میں پیپلز پارٹی کے جھنڈے دیکھتا ہوں سمجھ لیتا ہوں کہ طوائف یا گانے بجانے والی کا بیٹا ہے“۔

اس بیان کو کچھ دیر گزری تھی کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایک جلسے میں کہہ دیا کہ ”ہر وہ پنجابی جو پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دے گا، وہ بے غیرت ہوگا“۔

کیا انہیں معلوم ہے کہ غیرت کے نام پر آج تک کتی عورتیں قتل کی جا چکی ہیں؟ یہی وہ حکمران ہیں جن کے سامنے پارلیمنٹ میں اینٹی آنر کلنگ بل منظور کیا گیا۔ یہی وہ حکمران ہیں جو ہر غیرت کے نام پر قتل کے بعد لمبے چوڑے بیان دیتے پھرتے ہیں اور پانچ سال بعد جب ان کی حکومت ختم ہوتی ہے، ووٹ لینے کے لیے پھر سے لوگوں کو عورتوں کا نام لے کر غیرت کے درس دیتے ہیں۔ اس غیرت سے انہیں تو ووٹ ملے گا لیکن کسی دوسرے کو موت۔ لیکن اس سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ انہیں تو بس اقتدار کی کرسی چاہئیے جس پر بیٹھ کر وہ دوبارہ سے غیرت کے نام پر ہونے والے قتلوں پر تاسف کا اظہار کریں گے، دو چار بیانات دیں گے اور پھر بھول جائیں گے۔ کیا ان بیانات کے بعد بھی انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیا اپنی اقتدار کی کرسی لاشوں کے ڈھیر پر لگانا چاہتے ہیں؟

ان سیاستدانوں سے کیا شکوہ کرنا۔ یہ تو سالہا سال سے ایسی ہی سیاست کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان اس سیاست میں تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے اور خود ہی تبدیل ہو گئے۔ ان کے بیانات اوئے نواز شریف سے شروع ہوئے تھے اور اب اس نہج پر آگئے ہیں کہ قیمتی جانیں داؤ پر لگ گئی ہیں۔

ابھی واٹس ایپ پر ایک ایسے گدھے کی تصویر موصول ہوئی جس کے ماتھے پر شیر کا اسٹیکر چسپاں کیا ہوا ہے۔ عمران خان کے اس ایک بیان کے بعد گدھوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے اور عمران خان کو اپنے اس بیان پر معافی مانگنی چاہئیے۔

نوجوان نسل عمران خان سے شدید متاثر ہے۔ یہ عمران کو ایک ایسا مسیحا سمجھتے ہیں جو چٹکی دباتے ہی پاکستان کے سارے مسائل حل کر دے گا۔ وہ اپنی اس امید کے ساتھ عمران خان کے ہر غلط بیان اور کام کا دفاع کرتے ہیں۔ عمران خان اگر اب بھی نہ سمجھے اور اپنی اسی روش پر قائم رہے تو اندیشہ ہے کہ یہ تمام نوجوان اپنے قائد کا دفاع کرتے کرتے تھک جائیں گے اور اسی دن سے عمران خان کا زوال شروع ہو جائے گا۔

عمران خان کو اپنے ان الفاظ پر عوام سے معافی مانگنی چاہئیے اور مستقبل میں ایسے الفاظ اور جملوں سے گریز کرنا چاہئیے جو کسی کی زندگی کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکیں کہ اقتدار کی کرسی کسی انسان و جانور کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).