عمران خان ہی کو ووٹ دیں


اگر آپ عمران خان کو پسند کرتے ہیں تو انھیں ضرور ووٹ دیں۔ اگر عمران خان پسند نہیں لیکن تحریک انصاف سے امیدیں ہیں تب بھی اسے ووٹ دیں۔ اگر عمران خان اور تحریک انصاف دونوں پسند نہیں لیکن اپنے حلقے میں ان کا امیدوار پسند ہے تو پھر اسے ووٹ دیں۔

میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں۔
میری رائے یہ ہے کہ عمران خان ہر اعتبار سے بداخلاق شخص ہیں۔ ان کی زبان بری ہے، ان کی سوچ بدتر ہے، ان کا کردار خراب ہے، ان کی سیاست کھوکھلی ہے، ان کے مشیر ناسمجھ ہیں۔

لیکن یہ میری یعنی ایک شخص کی رائے ہے جو غلط ہوسکتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس خیالات رکھنے کے باوجود آپ کی رائے بالکل ٹھیک ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں، بلکہ دوسرے بہت سے ملکوں میں بھی بہت کم لوگ سچ سمجھ کر ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بیشتر لوگ دل سے کسی شخصیت یا پارٹی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی تمام خوبیوں خامیوں کو بھلاکر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ مذہب جیسا معاملہ ہے۔

صحافت کا پیشہ اختیار کرنے سے پہلے مجھے پیپلز پارٹی پسند تھی۔ اس کی وجہ کوئی شخصیت نہیں تھی۔ بینظیر بھٹو کی شخصیت اچھی تھی لیکن اگر مسلم لیگی ہوتیں تو بھی میرا ووٹ پیپلز پارٹی کے لیے ہوتا۔ یہ غریبوں کی پارٹی ہے۔ یہ ایسی جماعت ہے جو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگتی۔ اس نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں لیکن جمہوریت کے لیے قربانیاں بھی دی ہیں۔ اس کے کچھ رہنما برے ہوسکتے ہیں لیکن پارٹی کی سوچ درست ہے۔ اس کی انتظامی صلاحیتوں پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس کی سمت درست ہے۔

صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد میں نے شروع کے برسوں میں غیر جانب دار ہونے کی کوشش کی۔ میں نے تمام جماعتوں کو ایک نظر سے دیکھنا چاہا۔ لیکن جلد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس ملک میں دو طرح کی جماعتیں ہیں۔ ایک وہ، جو فوج کے اس گروہ کی حمایت یافتہ ہیں یا حمایت کی طلب گار ہیں جو سیاست میں دخیل رہتا ہے۔ دوسری وہ، جو سیاست کو فوج کے اس گروہ سے آزاد کرانے کی خواہش مند ہیں۔

بیرونی حمایت کی ضرورت ان سیاست دانوں کو ہوتی ہے جن کی عوام میں جڑیں نہیں ہوتیں۔ جو جانتے ہیں کہ وہ شفاف انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

یہ علم ہونے کے بعد میں جانب دار ہوگیا۔ میں ان سیاسی جماعتوں کو پسند کرنے لگا جن کی نظر تمام انسان برابر ہیں۔ سنی، شیعہ، احمدی، مسیحی، ہندو، سکھ، مرد، خواتین، خواجہ سرا، پنجابی، سندھی، پختون، بلوچ، مہاجر، سرائیکی، کشمیری، گلگتی، بلتی، ہزارہ وال، امیر، غریب، تندرست، معذور، زمین دار، خانہ بدوش، پناہ گزیں، سب انسان۔

جب آپ تمام انسانوں کی برابری پر ایمان لے آتے ہیں تب پتا چلتا ہے کہ سب برابر ہوکر بھی برابر نہیں۔ دو گروہ تب بھی رہ جاتے ہیں۔ ظالم اور دوسرا مظلوم۔

ظالم وہ ہیں جو عوام سے ان کا حق حکمرانی چھیننا چاہتے ہیں۔ ظالم وہ ہیں جو عوام سے اظہار کی آزادی چھیننا چاہتے ہیں۔ ظالم وہ ہیں جو عوام کو مذہب یا حب الوطنی کے نام پر گمراہ کرتے ہیں۔ ظالم وہ ہیں جو عوام کو مذہب یا قومیت کی بنیاد پر قتل کرتے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ عوام کا پیسہ لوٹنے والے بھی ظالم ہیں۔ بلاشبہ۔ لیکن اگر آپ کو اظہار کی آزادی نہیں ملے گی تو ایک کرپٹ گروہ دوسرے کرپٹ گروہ کے خلاف نعرے لگاتا رہے گا اور ہم آپ گمراہ ہوتے رہیں گے۔

جب آپ اپنا چشمہ صاف کرکے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ تمام ظالم اور ان کے سہولت کار اور پشت پناہ اتحادی ہیں۔ یہ سب ایک گروہ ہیں۔ مجھے اور آپ کو اس گروہ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔

سیاست کا مقصد معاشرے میں نظم پیدا کرنا اور زندگی کے لیے سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد مذہب کا بول بالا کرنا نہیں۔ اس کا مقصد کسی ریاست کی نام نہاد نظریاتی یا جغرافیائی حدود کو برقرار رکھنا یا بڑھانا نہیں۔ اس کا مقصد کسی زبان یا نظریے کا فروغ نہیں۔

زندگی کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کا مطلب ہمارے ہاں یہ لیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کا رکن ہمارے علاقے میں صفائی کروائے گا یا سڑک بنائے گا یا بجلی کا ٹرانسفارمر لگوائے گا یا قیام امن ممکن بنائے گا۔ صفائی کروانا کونسلر کی ذمے داری ہے۔ سڑک بنوانا شہری انتظامیہ کی ترجیح ہونی چاہیے۔ ٹرانسفارمر فراہم کرنا بجلی کمپنی کا کام ہے۔ امن و امان برقرار رکھنا صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔

صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان اور سینیٹرز کا کام قانون سازی ہے۔ امیدوار ووٹ مانگنے آپ کے پاس آئیں تو ان سے پوچھیں، ماضی میں آپ نے عوام کی فلاح کے لیے کتنے قوانین بنوائے؟ منتخب ہوکر کون سا قانون بنوائیں گے؟

جو امیدوار کہے کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کرپٹ ججوں اور کرپٹ جرنیلوں کے احتساب کا قانون بنوائے گا اور احتساب کا حق پارلیمان کو دے گا، میرا مشورہ ہے کہ صرف اسی کو ووٹ دیجیے گا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi