میرے گاؤں کی جمہوریت


میری 25 سال تک کی پرورش گاؤں کی ہے۔ یہاں انفرادی رائے نہیں ہوتی۔ میرا باپ اور تمام خاندان وہیں ہے۔ یہ پنجاب کا ایسا گاؤں ہے جہاں آج بھی فی کس ماہانہ آمدنی 10 ڈالر ہے۔ ہر 15 دن بعد دیہات پہنچتا ہوں۔ یہ اور اِسی طرح کے لاکھوں دیہات اُسی پاکستان کا شناختی کارڈ رکھتے ہیں، جہاں کوئی این جی او کا دفتر نہیں بن سکتا کہ میٹنگ کرنے کو وہاں فائیو سٹار نہیں ہوتے، ہسپتال نہیں بن سکتا کہ مڈل کا ڈاکٹر وہاں ڈیوٹی دینے کا متحمل نہیں، صاف پانی نہیں مل سکتا کہ گندے پانی کی نشاندہی کرنے والا سماجی ورکر دستیاب نہیں، پبلک سکول کی ضرورت نہیں کہ مزدوری، کھیتی باڑی اور چپڑاس اُن کے منتہائے روزگار ہیں۔ ایسے گاؤں اور قصبات میں سیاستدان نہیں سیاسی اپاہج اور گدا گر ہوتے ہیں۔ یہ گدا گر مرکزی سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کے طفییلے ہیں، اِن کا کام علاقے میں اپنی طاقت کو برقرار رکھنا اور خاندان کومالی فائدہ دینے تک محدود ہے۔ پاکستانی دیہاتی جمہوریت کی لغت نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے وڈیرے یا جاگیردار کے غیر مشروط ووٹر ہوتا ہے۔ یہ ووٹ وڈیرے کی ایک مسکراہٹ پر آسانی سے دے سکتا ہے یا ہلکے غصے کے عوض بھی۔ بیسیوں گاؤں کا کئی ہزار ووٹ بعض اوقات ایک ہی فرد کے اشارےکا منت کش ہے اور یہ فرد اپنا فیصلہ ہمیشہ اُس سمت سناتا ہے جہاں طاقت کا سرچشمہ ہو۔ آمدنی اور جبر کا یہ تصور ہمارے اُن احباب کی دماغی اُپچ سے بہت پرے ہے جن کے ایک کپ چائے کی ادائگی 10 ڈالر یا اِس سے کچھ اُوپر ہے۔ بدقسمتی سے یہی لوگ ہمارے دیہاتی آبادیوں اور جمہوریتوں کے تجزیہ کار بھی ہیں۔ آپ کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے فائیو سٹار میں بیٹھ کر پاکستانی جمہوریت، الیکشن اور اُس کی جمہوریوں کا حسن نہیں دیکھ سکتے۔ اِس کی اصلی سکرینیں دیہاتوں میں ہیں۔ آیئے میرے ساتھ، آپ کو سچے اور کھرے جمہوری الیکشن اور حقیقی جمہوریت کے سکرین شارٹ دکھاتا ہوں۔

پچھلے الیکشن کا قصہ ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہائی سکول ہے، جہاں ارد گرد کے گاؤں کو ملا کر 1000 بچے پڑھتے ہیں۔ گھر ہمارا سکول کے اگواڑے میں ہے اور سڑک وہاں کی قعرِ مذلت تک بیٹھ چکی ہے کہ ذرا بارش ہو تو کشتیاں ڈلوائی جائیں۔ بچے ڈوبتے ہوئے سکول جاتے ہیں،اُن میں سے اب اکثر بحر ِ افلاس کے غوطہ خور بن چکے ہیں۔ مقامی سیاسی لیڈر نے وہ سڑک اِس لیے نہیں بننے دی کہ الیکشن میں ہمارے خاندان کے ووٹ اُسے نہیں ملے۔ کئی دفعہ راستہ نہ ہونے کے سبب سکول ہفتہ بھر بند رہا۔ ایک دن ضلع کا ڈپٹی کمشنر میرا ایک دوست آ گیا۔ مَیں نے ذاتی طور اُسے سکول کی راہ میں پڑنے والی دلدلوں اور کالے پانی کی ندیوں سے آگاہ کیا۔ اُس نے ضلعی فنڈ سے سڑک کے آرڈر جاری کر دیے مگر کسی غیبی وجہ سے کام فوراً رُک گیا، سبب معلوم کیا تو ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ آپ کے مقامی لیڈر نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سے فون کروایا ہے کہ جب تک مقامی لیڈر نہ چاہے، سڑک نہیں بن سکتی، لیڈر سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اب اُسے منانے کا مطلب تھا کہ مَیں اُس کے ہر ظلم کی تائید کروں۔ تو جناب وہ سڑک ابھی تک وہیں ہے۔ کل ہی گاؤں سے والد صاحب کا فون آیا کہ وہی سیاسی آدمی ووٹ کا تقاضا کر رہا ہے، اب کیا کیا جائے؟ مَیں نے کہا ابا جان جیسے آپ کی مرضی، فیصلہ کر لیجیے۔ اب مَیں اپنے والد کی مجبوری جانتا تھا کہ والد صاحب اُسے ووٹ نہ دیں گے تو گزارا مشکل ہے۔ اب میرے لیے کسی نظریے یا نعرے کی نہیں، اُس طاقت ور مقامی آدمی کی رضا مندی ضروری ہے جس کی وفاداری نئی دُموں سے بندھ چکی تھی اور اُس کے ہاتھ میں پورے علاقے کی تھانیداری دوبارہ آنے والی تھی۔

اسی طرح پڑوس کے گاؤں میں ایک پرائمری ٹیچر جان محمد تھا، اب مر چکا ہے۔ اُس کے اپنے گاؤں کے چوہدری سے اختلاف ہو گیا کہ وہ اُستاد اپنی بیماری کے سبب چوہدری صاحب کے والد کے جنازے پر نہیں جا سکا۔ چوہدری صاحب نے غیرت کھا کر اُس کا تبادلہ 10 کلو میٹر دُور کرا دیا، کہ اگر ایک دن میرے والد کے جنازے پر نہیں جا سکتے تو روزانہ دس میل ڈیوٹی پر جاو۔ کچھ عرصے بعد 2013 کے الیکشن آ گئے۔ اب اُستاد جی نے غصہ کھایا اور چوہدری صاحب کی مخالف سیاسی پارٹی کو ووٹ دے دیا۔ اُستاد جی کی بد قسمتی کہ چوہدری صاحب کی جمہوریت جیت گئی۔ اب چوہدری نے اُس کی تنخواہ بند کروا دی اور تین سال تک رُکوائے رکھی۔ بہت لوگوں نے منتیں کیں مگر وہ نہ مانے، کہا ! اُستاد جی کو چھوڑ دوں گا تو سب بغاوتیں کریں گے۔ ایک دن اُستاد جی بیماری، بھوک اور تنگدستی کے ہاتھوں مر گئے۔ چوہدری صاحب نے اتنی مہربانی کی کہ اُس کے جنازے پر چلے گئے۔

 2008 کی بات ہے، پنجاب کے شہر اوکاڑہ کا ایک قصبہ بصیر پور ہے، یہ قصبہ انڈیا کے بارڈر پر ہے، مَیں وہاں نیسلے ملک پیک کی طرف سے ملازمت کرتا تھا اور کمپنی کے لیے دودھ خریدتا تھا۔ قصبے کے مضافات میں ایک دور دراز گاؤں سدھار نام سے ہے، وہاں کا چوہدری حمید احمد خاں ہے، صوبائی الیکشن بھی لڑتا ہے۔ اُس کا گائے کا فارم ہے، دودھ کے سلسلے میں اُس سے علیک سلیک ہو گئی اور ڈیرے پر آنے جانے لگا۔ اُس نے دو بھیڑیے باندھ رکھے تھے۔ اِسی دوران الیکشن آ گئے۔ ایک دن مَیں وہیں بیٹھا تھا کہ ملازم دو آدمیوں کو پکڑ لائے۔ اب سردار صاحب نے کہا، کیوں بھئی سُنا ہے آپ ووٹ کہیں اور دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ بھیڑیے دیکھ رہے ہو، آپ پر چھوڑ دوں گا۔ اُن دونوں کا رنگ ایسے فق تھا، جیسے تین دن پرانے مُردے ہوں۔ وہ گڑگڑانے لگے اور ووٹ دینے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد مَیں نے اُس سردار صاحب سے پوچھا، واقعی آپ اِن پر بھیڑیے چھوڑ دیتے؟ اُس نے کہا، ہاں چھوڑ دیتا، جب بھیڑیے اِن کو دو چار دانت مار لیتے تو ہٹا دیتا۔ یہ سُن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوئے گئے۔ َمیں نے کہا چوہدری صاحب یہ تو بڑا ظلم ہے، وہ ہنس کر بولے ناطق صاحب آپ نہیں جانتے، یہ طریقہ بہت کارآمد ہے، پچھلے دس الیکشن مَیں نے لڑے ہیں، ایک ہی بار ایک آدمی پر یہ کلیہ آزمایا تھا، اُس کے بعد کسی کو جرات نہیں ہوئی باہر ووٹ دینے کی۔ جس پر مجھے ذرا شبہ ہوتا ہےاُسے بھیڑیے دکھا دیتا ہوں

 تو جناب یہ ہے وہ جمہوریت اور اُس کا حُسن جو ہمارے مُلک کے ہر دیہات اور ہر قصبے میں پھیلا ہے۔ یہی پھندے ہیں کہ الیکشن کو جمہوریت کی بجائے جبر کی طرف کھینچے لیے جاتے ہیں۔ مُلک کی لاکھوں ایکٹر سرکاری زمین فوج کے قبضے ہے، جنھیں پچھلے 70 سال سے کاشت تو مقامی لوگ کرتے ہیں مگر اُن کے مالکانہ حقوق نہیں رکھتے اور زمینوں سے حاصل شدہ فصل کا ایک حصہ فوج کو دیتے ہیں۔ یہ کاشتکار ہزاروں ووٹ رکھتے ہیں مگر آپ سمجھیں انگوٹھے کاشتکاروں کے ہیں، مہریں جرنیلوں کی ہوتی۔ اوکاڑا کے مضافات میں 1700 ہزار ایکڑ زمین پر فوج کا قبضہ ہے، اِنھیں اوکاڑا فارمز کہتے ہیں۔ اِن فارم میں 100کے قریب دیہات ہیں۔

مہر عبدالستار – گرفتاری سے پہلے اور بعد

پچھلے الیکشن میں اِن دیہات کے حقوق کا دفاع کرنے والا میرا ایک دوست عبدالستار مہر ایم پی اے کا الیکشن لڑا، وہ تمام فارمز کا ہیرو تھا۔ اُس کے ووٹ کی تمام صندوقچیاں فوجی اٹھا کر لے گئے اور شکست کا اعلان کر دیا۔ بعد ازاں اُس پر مقامی پولیس کے ذریعے دس سے بیس قسم کے پرچے کٹوا کر تین سال جیل میں رکھا، تشدد کیا۔ ابھی تھوڑے ہی دن پہلے اُسے چھوڑا تھا مگر دوبارہ پکڑ لیا ہے کہ الیکشن پر اثر انداز نہ ہو۔ یہ تمام چیزیں اس قدر پُرسکون ہیں کہ جمہوری نظام خراٹے لیے سوتا ہے جسے جگایا نہیں جا سکتا کیونکہ در اصل سیاستدان پراپرٹی ڈیلر اور سخت کاروباری حضرات ہیں۔ وہ مالکان سے اُن کی غنودگی میں سودا کرتے ہیں۔ شہری اور دیہاتی الیکشن میں اگرچہ ایک وسیع خلیج ہے مگر اِس پر بات اور اصلاحات آئندہ سو سال میں ہونا ممکن نہیں۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ مرکزی طاقت تبدیل ہونے پر مقامی دیہاتی طاقت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ مقامی سیاسی ورکر فوراً اپنی وفاداری آنے والی طاقت کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ شہری علاقوں کی طاقت کا توازن قدرے تبدیل ہوجاتا ہے، دیہاتوں میں ایک ہی طاقت ور آدمی ہوتا ہے۔ اُس کی صرف وفاداری تبدیل ہوتی ہے، اُس کی جگہ دوسرا نہیں آتا۔ کیونکہ ہر دیہات ایک اسٹیٹ ہے اور وہاں کا لیڈر اُس کا مستقل مالک ہوتا ہے۔ جسے ہر حالت میں مرکزی طاقت کے ساتھ جڑے رہنا ہے۔ آج کل یعنی 2018 کے الیکشن میں میرے گاؤں کی مقامی طاقت پرانی ہی رہے گی مگر اُس کی وفاداری ن لیگ کی بجائے پی ٹی آئی کی طرف ہو گی کہ نقارچی نے نقارے کا آوازہ بدل دیا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).