یہ لبرل، وہ ملاں۔۔۔ کس ڈھنگ سے اچھوں کو برا کہتے ہیں


\"zeffer05\"نظریئے بہت سے ہیں۔ ابراہیم، سقراط، افلاطون، ارسطو، عیسیٰ، کارل مارکس اور بہت سے مفکرین نے اپنے نظریات کا پرچار کیا۔ کچھ کو اوتار سمجھا گیا، کچھ نے اپنے آپ کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا کہا، تو کچھ نے سرے سے مذہب ہی سے انکار کر دیا۔ ہر فکر کے مخالفین، دوسروں کی فکر میں خامیاں تلاش کر لیتے ہیں۔ خامیاں تلاش کرنا کیا مشکل ہے۔

کسی بھی مبلغ کے اوصاف میں جو نمایاں وصف ہونا چاہیے، وہ ہے قول و فعل کا یک ساں ہونا۔ غارِ حرا سے اترنے والےﷺ نے جو سب سے پہلا سوال پوچھا، وہ یہ تھا، کہ کیا آپ مجھے صادق و آمین سمجھتے ہیں؟ کردار کی مضبوطی نہ ہو، تو کوئی نظریہ کسی فکر کے حامی نہیں پیدا کیے جا سکتے۔ بد کرداروں کا ٹولہ مفاد کے پجاریوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے لیے مذہب یا نظریہ محض ڈھال کے کام آتا ہے۔

کہتے ہیں، کہ تواریخ کو سمجھ کر، کوئی بھی حال و مستقبل کا احوال بتا سکتا ہے۔ میں تواریخ کا کل وقتی طالب علم تو نہیں ہوں، لیکن جز وقتی طالب علم کے طور پہ بھی یہی سمجھ سکا ہوں، کہ وہ گروہ، جو اپنے نظریئے، فکر، یا مسلک کی تعلیمات کا عملی نمونہ نہیں ہوتا، وہ گروہ کبھی عروج نہیں پاتا۔ کذب سے بچنا، ملاوٹ سے دوری، ذخیرہ اندوزی، علوم و فنون سے رغبت، عظیم قوموں کا چلن رہا ہے۔ ایسے معاشرے کو انصاف پسند معاشرے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وہ دیوی دیوتاوں کا یونان ہو، عیسائیوں کا قیصر ہو، آتشت پرستوں کا کسریٰ ہو، جس کے ہاتھ سے انصاف کا دامن چھوٹا، وہ زمین بوس ہو گیا۔

جہاں جھوٹ سر کا تاج ہو، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، قبضہ گیری کرنے والے معززین کہلائیں، اس معاشرے کو دور جاہلیت سے تشبیہہ دینے میں کوئی عار نہیں۔ اب کوئی جس بھی نظریئے کا نام لیتا رہے، بت پرستی، عیسائیت، اسلام، سیکولر ازم، لبرل ازم، یا کوئی اور۔۔۔ جب تک وہ اپنے نظریئے کی تعلیم کا عملی نمونہ نہیں بنے گا، وہ خوار رہے گا۔

یہاں \’بیانیے\’ کا غلغلہ ہے۔ ایک طرف دینِ اسلام کے حامی ہیں، اور چاہتے ہیں، کہ ریاست عین اسلامی اصولوں پر قائم ہو جاے۔ دوسری طرف وہ ہیں، جو کہتے ہیں، مذہب ریاست کا معاملہ نہیں، فرد کی حدود ہیں۔ دونوں کا یہ کہنا ہے، کہ سماج کو جو دیمک چاٹ رہی ہے، ان کے نظریئے پہ چل کر، اس سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ایک مثالی ریاست بنا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ مناظرے دیکھ کر، سنا سنایا وہ منظر دکھائی دیتا ہے، جب ہلاکو خان بغداد فتح کرنے اس کی سرحد پہ آ پہنچا، اور علما مباحث میں الجھے رہے۔ مگر ہم بغداد جیسے عروج کی مثال ہی کب ہیں، جو تاراج کیے جانے کا اندیشہ ہو۔

آیئے حال ہی کے ایک واقع پہ نگہ ڈالتے ہیں۔ وہ جو سزا کے طور پر قاتل کا سر قلم چاہتے ہیں، وہ یہ جانتے ہوے، کہ فرد کو سزا دینے کا اختیار نہیں، وہ ممتاز قادری جیسے ریاست کے مجرم کو دھونس دھاندلی، حتیٰ کہ  دین کی غلط تشریحات کرتے، بچانے کی فریاد کرتے رہے۔ دوسری طرف دیکھیے۔ پھانسی کی مخالفت کرنے والے، اس بات پر تالیاں بجاتے ہیں، کہ ممتاز قادری کو پھانسی چڑھایا گیا۔ اس وقت انھیں یہ یاد نہیں رہتا، کہ وہ کئی قاتلوں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ یہ ہے اپنے ایمان (نظریئے) سے بے ایمانی کی دو امثال۔ قول و فعل کے تضاد کو دو لفظوں میں کوئی نام دیا جاے تو وہ ہوگا۔۔۔ \’بد کرداری\’۔ بدکردار معاشرے سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔

ظاہری حلیہ کیسا بھی ہو، کسی کا عمل اس کے کردار کا تعین کرتا ہے۔ داڑھی رکھ کر، ذخیرہ اندوزی کرنے والا، ملاوٹ کرنے والا، قبضہ گیر یہ کہے، کہ یہاں اسلام نافذ کر دیا جاے، تو ٹھٹھا نہ اڑایا جاے تو کیا کیا جاے۔۔۔  مزدور کی عظمت کے گیت گانے والا، ملازم کو غلام سمجھے، امیر کو عزت دے، غریب کو رذیل سمجھتے ہوئے فاصلے پر رکھے تو کوئی اسے کیسے بالشویک مان لے۔ صرف اس لیے کہ اسے داس کیپٹل کے سب ابواب یاد ہیں؟۔۔۔ آپ یہاں اسلام کے قوانین نافذ کر دیں۔ بائبل کا اصول لاگو کریں۔ یا داس کیپیٹل کو آئین بنا دیں۔ جب تک اس نظام کے پیروکار صادق و آمین نہ ہو جائیں، ان کی اذانیں جتنی بھی اونچی ہوں، سنی نہ جائیں گی۔ ایسی اقوام جو اپنے ظاہر و باطن میں ایک نہ ہوں، ان پر ان میں سے کوئی نہیں، دوسری اقوام میں سے ایک قابض  ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اسلام پسند اطمینان رکھیں، یہاں لبرل  |، نہیں چھانے والے۔ اور لبرل کو نوید ہو، اسلام سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔ خاطر جمع رکھیے۔۔۔ آیئے غالب کو پڑھتے ہیں، اس میں اے پردہ نشین، تیرا بھی نام آتا ہے۔

کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments