آٹزم (Autism) بچوں کی ایک پریشان کن ذہنی کیفیت


تقریباً تین چار سال قبل کا واقعہ ہے، میرے اسکول ڈسٹرکٹ کے ہائی لنگول ڈیپارٹمنٹ سے فون آیا (واضح رہے کہ میں ہائی لنگول ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک ایلیمنٹری اسکول میں ملازمت کرتی ہوں) کل صبح 9 بجے فلاں بچے کے گھر پہنچ جائیں جہاں ایک چھ سال کے آٹسٹک (Autistc) بچے کے رویے کا مشاہدہ ہونا ہے۔ اس مشاہداتی ٹیم میں ایک نفسیاتی دان، اسکول سوشل ورکر، اسپیشل ایڈ کی ٹیچر اور میں بحیثیت پاکستانی اور اُردو بولنے والی فرد جس کو میرے شعبہ نے بطور خاص بھیجا تھا کیونکہ اس بچے کی مادری زبان اُردو اور قومیت پاکستانی تھی۔ میری موجودگی کی دو واضح وجوہات تھیں، پہلی یہ کہ میں اس بچے کی زبان اور کلچر کو سمجھانے میں معاون ثابت ہوں اور دوسری یہ کہ یہ ٹیم کلچر کے فرق کی وجہ سے بچے کے رویے کے مطالعہ کے بعد کوئی غلط رپورٹ نہ بنا سکے کیونکہ عموماً کلچر اور زبان کا فرق غلط فہمی کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ بچہ اپنی پیدائش کے ابتدائی سالوں میں شاید اپنے ماں باپ کی نظر میں دوسرے بچوں سے مختلف نہ ہو کیونکہ وہ پہلا بچہ تھا لیکن جب دوسری اولاد ہوئی جو اس وقت تقریباً 2 سال کی ہورہی تھی تو ان کو محسوس ہونے لگا کہ بڑے بچے کا رویہ واضح طور پر چھوٹی بچی کے مقابلہ میں کچھ زیادہ ”مختلف‘‘ ہے مگر بزرگوں سے دوری اور ہجرت کے ابتدائی سالوں کی سختی کے باعث انہوں نے اس مسئلہ کو اتنی اہمیت نہ دی حتیٰ کہ اسکول کے اساتذہ، اسپیشل ایڈ شعبہ کی ٹیچر، اسکول سوشل ورکر، سائیکالوجسٹ وغیرہ نے اس کا مشاہداتی تجزیہ کرکے بچے کو واضح طور پر آٹسٹک قرار دیا۔

روایتی ماحول کی بی اے تک پڑھی ماں اور کمپیوٹر پروگرامر باپ کے لئے یہ اصطلاح نئی تھی۔ پھر ایک ایسا کلچر جہاں والدین بننے کے بعد ماں باپ کا محور محض اولاد اور اس کا تابناک مستقبل ہی رہ جاتا ہے، یہ کس قدر روح فرسا تھا کہ ان کی پہلی اولاد وہ بھی لڑکا کہ جس میں وہ اپنے ناتمام خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں، کسی ذہنی عارضے کا شکار ہے، وہ نارمل نہیں۔ وہ کبھی ڈاکٹر، انجینئر یا ”بڑا‘‘ آدمی نہیں بنے سکے گا۔

ماں نے اُردو میں جس طرح اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا وہ میرے لئے مزید تکلیف دہ تھی خصوصاً جب اس نے یہ کہا کہ ”دیکھئے آپ تو جانتی ہیں نہ کہ ہماری پاکستانی کمیونٹی میں سب کس طرح دیکھیں گے، پلیز آپ کسی سے اس کا ذکر مت کیجئے گا‘‘۔ اس کی آنکھوں میں آنسو کے ساتھ ساتھ التجا بھی تھی، میں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ بے فکر رہے، یہ راز امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی کے درمیان کبھی میری زبان سے افشاء نہ ہوگا مگر عین اس لمحے میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں اس بارے میں اپنے ملک کے لئے ضرور لکھوں گی، جہاں ذہنی کمزوریاں انسان کے شرمندہ ہونے کا بہت بڑا سبب بنتی ہیں۔

ہم جھوٹ، مکر و فریب اور ریاکاری جیسے جرم ببانگ دہل کرتے ہیں اور شرمندہ نہیں ہوتے لیکن اگر ہمارا کوئی بچہ کسی قسم کی ذہنی کمزوری کا شکار ہو تو وہ ہمارے لئے سوہانِ روح اس بوجھ کی وجہ سے زیادہ بن جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور ہم نہ صرف اس عیب پر جانتے بوجھتے ہوئے پردہ ڈالتے رہتے ہیں، چاہے بچہ معاشرے کے تمسخر کا نشانہ بنے بلکہ ہم خود والدین ہو کر بھی اس کی تحقیر و ملامت کا بازار گرم رکھتے ہیں۔

مختصر یہ کہ وہ بچہ بالآخر آئٹزم کے مروجہ مشاہداتی ٹیسٹوں کے بعد اسپیشل ایجوکیشن کے ڈیپارٹمنٹ کی خصوصی مدد کا حقدار ٹھہرا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ ہائی اسکول نہیں کرلیتا یہ شعبہ اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس کی تربیت کا ذمہ دار ٹھہرے گا تاوقتیکہ وہ اس قابل ہوجائے کہ اپنی دلچسپی کے شعبہ میں ملازمت کا حصول ہوجائے اور اپنے آپ کو ممکنہ حد تک سنبھال لینے کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ واضح رہے کہ امریکہ میں بڑے اسٹورز میں ایسے افراد کے لئے مخصوص آسامیاں رکھی جاتی ہیں اور ساتھ ہی جاب ٹرینرز کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب اسپیشل ایجوکیشن کے ادارے کے تحت ہوتا ہے اور آٹزم کو اس کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔

آٹزم کیا ہے؟

آٹزم ذہنی ناہمواری کی وہ کیفیت ہے کہ جو حالیہ تخمینہ کے مطابق ہر 10 ہزار میں سے 15 بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ بچپن میں ہونے والا آٹزم تین ذہنی رویوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس کے تحت سماجی رابطہ پیدا کرنے کی صلاحیت، زبان کو سیکھنے کی صلاحیت اور اپنے طور پر کھیل کھیلنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ آٹزم موجودہ زمانہ میں زیربحث ایک اہم موضوع ہے۔ اس ذہنی کیفیت کی سب سے پہلے ڈاکٹر لوکیز نے 1943ء میں نشاندہی کی تھی۔

ہوسکتا ہے کہ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات میں آپ نے بھی کچھ ایسے بچوں کودیکھا ہوگا کہ جن کا رویہ آپ کو ذرا مختلف لگا ہو، مثلاً آپ اس سے بات کررہے ہوں اور وہ بظاہر آپ کی طرف دیکھ رہا ہو مگر اس کی آنکھوں میں خالی پن ہو، دراصل وہ آپ کو دیکھ نہیں رہا ہوتا، اس کے گرد اپنی دنیا کا ایک دائرہ ہے، آپ چاہے قریب بھی ہوں، آسانی سے اس کی دنیا میں داخل نہیں ہوسکتے۔

آٹزم ایک اسپیکٹرم سینڈرم (Spectrum Syndrom) ہے جس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ ضروری نہیں کہ اس میں مبتلا دو بچے یکساں کیفیت ظاہر کریں بلکہ مرض کی شدت کی مختلف رینج ہوتی ہیں یا یہ کہ یہ مرض کسی ایک کیفیت کے بجائے مختلف کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے اور اس کی شدت ہر بچے میں مختلف رویے کی صورت ظاہر ہوسکتی ہے، لہٰذا آٹزم کی تشخیص والے دو بچے انتہائی مختلف کیفیات کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، یہ چکن پاکس یا ملیریا جیسی مخصوص علامتوں کا مرض نہیں کہ جو ہر متاثر کنندہ میں مشترکہ علامات پیدا کرتے ہیں۔

وہ مختلف علامات جو آٹزم میں مبتلا بچوں میں (دو سال یا اس سے بھی کم عمر کے بچوں میں) واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں، مندرجہ بالا ہیں۔

1۔ یکسانیت پر اصرار اور کسی بھی تبدیلی سے مزاحمت مثلاً وراج جس کی عمر ڈیڑھ سال کی ہے، ایک مخصوص پہیے کو گھماتا رہتا ہے اور اس کی ساری خوشی اس کی حرکت تک محدود ہے۔ اگر آپ اس سے یہ لے لیں تو وہ چیخ چیخ کر روئے گا۔ اس کی توجہ کسی دوسرے کھلونے کو دے کر بٹائی نہیں جاسکتی۔
2۔ عام گفتگو کے بجائے کچھ خاص الفاظ یا کلمات کا دہرایا جانا۔
3۔ کسی بھی ایسی بات پر ہنسنا یا رونا کہ جس کو سمجھنے سے دوسرے افراد قاصر ہوں۔

4۔ لوگوں کے درمیان بیٹھنے کے بجائے تنہا رہنے پر ترجیح اور انداز بھی دوسروں سے خاصا مختلف، یا یوں بھی کہہ لیں کہ لوگوں کے درمیان بھی بیٹھنے کے باوجود ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے جس میں کسی اور کا دخل بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ ان کے گرد گویا ایک دیوار سی کھنچی ہوئی ہوتی ہے کہ جس کے اندر کسی دوسرے کی موجودگی تو ایک طرف آوازیں بھی داخل نہیں ہوتیں یعنی قوتِ سماعت کے باوجود آواز پر توجہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔

5۔ لوگوں سے گفتگو یا گھلنے ملنے سے گریز چاہے وہ بہن بھائی ہوں یا دوسرے ساتھی افراد۔
6۔ آنکھ ملا کر بات کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا بالکل ہی کم ہوتی ہے اور اگر کبھی آپ کی طرف دیکھیں بھی تو ان کے خالی پن سے آپ کو صاف اندازہ ہوجائے گا کہ وہ آپ کے سامنے ضرور ہے مگر آپ مرکزِ نگاہ ہرگز نہیں ہیں۔

7۔ گلے لگنے یا لپٹ کر پیار دینے سے انتہائی گریز، گو یہ قطعی حتمی نہیں، بعض بچے لپٹتے بھی ہیں اور پیار بھی کرتے ہیں۔
8۔ کسی خاص کھلونے یا کسی چیز کا گھمانا۔
9۔ کسی خاص کھلونے سے حد سے زیادہ لگاؤ، مثلاً پانی پینے کے نلکے سے عشق، پتیاں توڑنا وغیرہ وغیرہ۔

10۔ روایتی پڑھانے والے طریقوں کا ان کے لئے سودمند ثابت نہ ہونا۔
11۔ خطروں سے کسی قسم کا خوف کا نہ محسوس ہونا۔
12۔ کسی درد یا کسی آواز سے حد سے زیادہ یا حد سے کم حسیت ہونا، مثلاً کسی بچے کا ویکیوم کلینر کی آواز کو سن کر چیخ چیخ کر رونا یا سائرن کی آواز سن کر کوئی اثر نہ لینا۔

آوازوں، نظاروں یا خوشبو میں تبدیلی کے معاملے میں آٹسٹک بچے بہت ہی زیادہ حساس ہوتے ہیں، مثلاً جمنازیم میں ہونے والی بازگشت ذہنی دباؤ کا مظہر بن سکتی ہے جبکہ دوسری جانب یہ بچے بعض اوقات تیز ہارن کی آواز یا شدید درد کی کیفیت کو بھی محسوس نہیں کرتے۔ اگر آپ والدین ہیں یا کسی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے ہیں تو ان علامتوں کے حامل بچوں پر غصہ کے بجائے ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ میں کبھی ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو ایسی علامت کے کتنے بچے میرے ذہن میں آتے ہیں جو اپنے استاد یا والدین کی مار کھا رہے ہوتے تھے۔ ایک ایسی خطا پر کہ جو ان کی تھی ہی نہیں یا جس پر ان کا بس ہی نہیں تھا۔

آٹزم کا سبب کیا ہے؟

آٹزم کی کوئی ایک واحد وجہ نہیں ہوتی، اس کا سبب دماغ کی ساخت یا اس کے کام میں بے قاعدگی ہوتی ہے اور اس کا اندازہ آٹزم میں مبتلا افراد کے دماغ کی اندرونی مشینی تصویر سے ہوا۔ تحقیق دان اس وقت بہت ساری ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈال رہے ہیں اور موروثیت، جینیاتی تبدیلی اور دوسری طبی وجوہات سے اس کا ربط ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گو ابھی تک کسی واحد جینیاتی مادے کی شناخت نہیں ہوئی ہے تاہم تحقیق دان ایسے جینیاتی مادوں کے مجموعہ کی تلاش میں ہیں کہ جو ان بچوں نے موروثی طور پر حاصلکیے ہوں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ بچے غالباً کسی محرک کے اثر سے زود حس ہیں مگر ابھی تک سائنسدان کوئی ایسا اُکسانے والا سبب تلاش نہیں کرپائے ہیں۔

کچھ دوسرے تحقیق دانوں نے اس امکان پر بھی تحقیق کی ہے کہ کچھ حالات میں کچھ چیزوں کا مجموعہ دماغ کی نشوونما میں مداخلت کرکے آٹزم کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریسرچ کے مطابق اس کی وجہ زمانہ حمل یا زچگی کے دوران مسائل کے علاوہ ماحولیاتی عوامل مثلاً وائرس انفیکشن یا ماحول میں موجود کیمیکل کی موجودگی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ آٹزم کا وقوع پذیر ہونا ان افراد میں نسبتاً زیادہ ہے کہ جو پہلے ہی کسی طبی مسئلہ میں مبتلا ہیں، مثلاً:
Fragile turberous sclerosis congenital rubella syndrom
X syndrome اور Untreated phenyl ketoneuria

آٹزم سے مدافعتی ٹیکوں کا تعلق بھی زیربحث رہا ہے۔ گو 2001ء کی ریسرچ کے مطابق اس امکان کو مسترد کیا گیا ہے کہ MMR ویکسین اور آٹزم کا تعلق ہے تاہم اسے حتمی مسترد بھی نہیں کیا گیا ہے اور اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، آٹزم بچوں کی غلط تربیت کا ہرگز نتیجہ نہیں، یہ کوئی ذہنی بیماری نہیں، ایسے بچے اپنی بدتمیزی کا انتخاب خود نہیں کرتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ ابھی تک کوئی نفسیاتی عوامل بھی ایسے نہیں ملے کہ جو بچوں میں آٹزم کا سبب بنیں۔

آٹزم کی تشخیص:

بہت سے دوسرے امراض کے برخلاف آٹزم کے کوئی طبی لیب ٹیسٹ مروج نہیں۔ اس کی تشخیص خالصتاً افراد کے رویے کا مشاہداتی تجزیہ ہے جس میں اس کے سماجی رویہ اور ذہنی نشوونما کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے، لیکن چونکہ اور بہت سے دوسرے امراض کی علامات بھی آٹزم سے ملتی جلتی ہیں لہٰذا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ بہت سے طبی ٹیسٹ کروا کے پہلے دیگر امراض کی موجودگی کے امکان کو مسترد کیا جائے۔

صحیح تشخیص کے لئے بچے کی نشوونما کی تفصیلی تاریخ کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس ضمن میں والدین سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو مشاہداتی ٹیم بچے کے رویے کا جائزہ لیتی ہے اس میں نفسیات دان، بچوں کا وہ ڈاکٹر کہ جس کو Autism کی صحیح معلومات ہوں، ایک تعلیم دان، سکول سوشل ورکر اور اسپیچ اور لینگوئج پتھالوجسٹ شامل ہیں۔ ہر مرحلہ پر والدین کی فراہم کی ہوئی معلومات ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔

بچے کی تشخیص کو مثبت ثابت کرنے کے لئے آٹزم کی تقریباً 12 علامات میں سے 6 کا پایا جانا ضروری ہے اور ان علامات کا کم عمری سے ہونا ضروری ہے، ہوسکتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ بالکل دوسرے بچوں کی طرح نظر آئے لیکن اس کی علامتوں کا ظہور بتدریج وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ علامتیں اگر بچہ پہلا ہو تو واضح طور پر نوٹ نہیں کی جاتیں لیکن جس وقت دوسرا بچہ ہوتا ہے تو دونوں کے رویوں میں فرق سے آٹزم واضح ہوتا ہے۔

اس وقت یہ بات توجہ طلب ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں اس کے ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہیں اور اس کے ہونے کا تناسب ہر سال 10.17 فیصد بڑھ رہا ہے۔ اس حساب سے اگلے 10 عشرے میں صرف امریکہ میں چار ملین انسانوں میں آٹزم کی علامات ہوں گی۔ سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروینشن 2001ء کے مطابق اس وقت 0.21 سال کے افراد میں سے تخمیناً 7.30.000 افراد آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں۔

تحقیق دانوں نے ایسے ٹیسٹوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو کم سے کم عمر میں بچوں پرکیے جاسکیں تاکہ جلد سے جلد ایسے بچوں کا علاج شروع ہوسکے۔ ذہنی عدم توازن کے لئے مروجہ آئی کیو ٹیسٹنگ اکثر ماں باپ کو پریشان کردیتی ہے۔ ان کے بچے میں اگر کسی صلاحیت کے اظہار میں دیر لگتی ہے تو وہ اس خوش خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوجائے گا لیکن اس ٹیسٹنگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بچہ دراصل اس وقت کس ذہنی سطح پر ہے، جلد از جلد تشخیص کا ہونا یوں بھی ضروری ہے کہ بچے میں سب سے زیادہ ذہنی نشوونما زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں ہوتی ہے اور اگر شروع میں ہی اس کا علم ہوجائے تو ممکنہ علاج کی جلد ابتدا ہوسکتی ہے اور والدین کو یہ پتہ ہوسکتا ہے کہ اگر ان کا بچہ آٹزم کا شکار ہے تو وہ کونسی دوسری صلاحیتیں ہیں کہ جن کو استعمال کرکے ان کی کمزوریوں کا کسی حد تک سدباب ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).